ایوان صدر اسلام آباد میں چین کے وزیراعظم لی چیانگ کے اعزاز میں استقبالیہ پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کے جشن میں تبدیل ہو چکا تھا، چین کے وزیراعظم لی چیانگ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کیلئے ایک بہت بڑے وفد کے ہمراہ پاکستان تشریف لائے تھے۔ 15اکتوبر کی دوپہر صدر آصف علی زرداری نے ان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا تھا اور اسی شام وزیراعظم شہباز شریف نے ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کیلئے آنے والے تمام ممالک کے مہمانوں کیلئے عشائیے کا بندوبست کیا تھا۔ چینی وفد کے اعزاز میں علیحدہ سے ایک خصوصی استقبالئے کا اہتمام پاک چین تعلقات کی اہمیت کا عکاس تھا ۔شنگھائی تعاون تنظیم 2001ء میں قائم ہوئی تھی ابتدا میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان اس کے رکن تھے پھر اس میں ازبکستان شامل ہوا۔2017ء میں پاکستان اور بھارت کو بھی اس تنظیم میں شامل کر لیا گیا۔
2023ء میں ایران اور اس سال بیلاروس بھی اس تنظیم میں شامل ہو چکا ہے۔ اس تنظیم پر چین کی چھاپ بہت گہری ہے اسی لئے بعض مغربی مبصرین اس تنظیم کو مغرب کا مخالف قرار دیتے ہیں لیکن یہ تنظیم اپنے آپ کو علاقائی تعاون کا ایک پلیٹ فارم قرار دیتی ہے جس میں منگولیا اور افغانستان کو بھی بطور مبصر اس لئے شامل کیا گیا کہ وہ اس خطے کے اہم ممالک ہیں۔افغانستان کو ایس سی او کے اجلاس میں محض اس لئے مدعو نہیں کیا گیا کیونکہ ابھی تک اقوام متحدہ نے کابل میںطالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ایس سی او کے سالانہ اجلاس کا پاکستان میں انعقاد بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ پاکستان کو ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے ماضی میں پاکستان کے دورے پر آنے والی غیر ملکی کرکٹ ٹیموں اور چینی انجینئرزپر کئی دفعہ حملے ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود اسلام آباد میں ایس سی او کے اجلاس کا کامیابی سے انعقاد ہوا ۔جب یہ اجلاس ہو رہا تھا تو ملتان میں برطانوی کرکٹ ٹیم پاکستان کے خلاف ٹیسٹ میچ بھی کھیل رہی تھی۔
چینی وزیراعظم کے اعزاز میں استقبالئے کیلئے شرکاء کو ساڑھے دس بجے ایوان صدر بلا لیا گیا تھا جبکہ ظہرانے کا آغاز دوپہر بارہ بجے ہونا تھا بظاہر اتنی جلدی بلانے کا مقصد یہ تھا کہ سیکورٹی انتظامات کے باعث مہمانوں کی آمد میں تاخیر نہ ہو اور ظہرانہ وقت پر شروع ہوجائے۔ جب ایوان صدر پہنچے تو سمجھ آئی کہ مہمانوں کو جلدی بلانے کی وجہ یہ تھی کہ پاکستانی اور چینی دوست ایک دوسرے کے ساتھ تفصیل سے گپ شپ کر سکیں۔ چینی وفد میں سرکاری شخصیات کے علاوہ کچھ صحافی بھی شامل تھے جو ہمیں ایس سی او کی اہمیت سے آگاہ کر رہے تھے ان کی انگریزی کمزور تھی اور ہمیں چینی زبان سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن یہ سمجھ آگئی کہ ایس سی او کے اجلاس کا پاکستان میں انعقاد چینی دوستوں کیلئے بڑے اطمینان کا باعث ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ دشمن پاکستان میں چینی باشندوں کو بار بار نشانہ بنا کر چین کو پاکستان سے بھگانا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کیلئے آنے والے وفود کے سینکڑوں شرکاء کی میزبانی کرکے دشمنوں کی سازشیں ناکام بنا دیں، ایک چینی مندوب نے بتایا کہ پچھلے سال وہ ایس سی او کے بھارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں بھی شریک تھے۔
بھارت میں ہونے والے اجلاس کیلئے سیکورٹی کے انتظامات اسلام آباد میں کئے جانے والے انتظامات سے زیادہ سخت تھے۔ ایس سی او کے رکن ممالک کے جغرافیے کو اکٹھا کیا جائے تو یہ دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس میں شریک ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد بنتی ہے ۔ ایس سی او میں شامل ممالک دنیا بھر میں گیس کے 44 فیصد اور تیل کے 20 فیصد ذخائر کے مالک ہیں۔ اس تنظیم کے رکن ممالک مقامی کرنسیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کے طریقے تلاش کر رہے ہیں تاکہ ڈالر کی محتاجی سے چھٹکارا مل سکے۔ایس سی او کے ا جلاس میں بھارت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر کی شمولیت کو بھی اہم قرار دیا گیا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کایہ عالم ہے کہ کئی سال سے بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان نہیں آئی ۔اگلے سال پاکستان میں چیمپئنز ٹرافی ہونے والی ہےاور ابھی تک بھارت نے اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستان بھیجنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔اس صورتحال میں نواز شریف کی خواہش تھی کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کیلئے پاکستان آتے وہ بھول گئے کہ گزشتہ سال ان کے بھائی شہباز شریف بھی ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کیلئے بھارت نہیں گئے تھے بلکہ انہوں نے ویڈیو لنک سے اس اجلاس میں شرکت کی تھی۔اس کشیدہ صورتحال میں جے شنکر کا پاکستان آنا تیزی سے بدلتی ہوئی زمینی حقیقتوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
پاکستان اور بھارت میں کشمیر کا تنازعہ ایک حقیقت ہے جس پر اس وقت ڈیڈ لاک ہے لیکن پاکستان اور بھارت آج کی دنیا میں ناراض بچوں کی طرح ایک دوسرے سے بول چال بند نہیں کر سکتے۔بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو ایس سی او میں پاکستان کےساتھ بیٹھنا پڑا ۔پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ برکس کا رکن بھی بن جائے۔برکس میں برازیل، روس، بھارت، چین، ایران، سعودی عرب، مصر ، یو اے ای اور ایتھوپیا شامل ہیں ۔اس تنظیم کا روح رواں روس ہے، روس نے پاکستان کو برکس میں شامل کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ اگر پاکستان برکس میں بھی شامل ہوگیا تو پھر پاکستان اور بھارت کو ایک اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کےساتھ بیٹھنا پڑے گا۔دونوں ممالک دو طرفہ مذاکرات کریں نہ کریں لیکن دونوں کو مختلف عالمی فورمز پر ایک دوسرے سے آنکھیں ملانی پڑیں گی۔
ایوان صدر میں چینی وفد کے ارکان کے ساتھ گفتگو میں یہ اشارے مل رہے تھے کہ کچھ عرصے میں پاکستان برکس کا رکن بھی بن جائے گا جس کے بعد جی 20 کی رکنیت حاصل کرنا آسان ہوجائے گا۔ ڈیڑھ گھنٹہ گپ شپ کے بعد دوپہر بارہ بجے ظہرانہ شروع ہوا اور ایک بجے ختم ہوا۔ ظہرانہ ختم ہونے پر ایک سفارتکار نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ایوان صدر کے کھانے کا معیار بہت اچھا ہوگیا ہے اسے یہ بھی معلوم تھا کہ ایوان صدر کے کچن کو بہتر بنانے کیلئے صدر آصف علی زرداری نے اپنی جیب سے کافی خرچہ کیا ہے۔ سفارتکار کا کہنا تھا کہ پاکستان کے کھانوں اور پھلوں کا کوئی جواب نہیں، اگر آپ لوگ ملک میں سیاسی استحکام لے آئیں تو وہ دن دور نہیں جب آپ برکس اور جی 20 کے سربراہی اجلاسوں کی بھی میزبانی کرتے نظر آئیں گے۔
بشکریہ جنگ