مداری، درباری اور لکھاری — بات کرنی اتنی مشکل کیوں؟

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

بات مشکل ہے، مگر اتنی بھی مشکل؟

غزہ میں آج ایک نسل کشی جاری ہے اور یہ صرف بموں، بارود یا بندوقوں سے نہیں بلکہ معصوم بچوں اور نہتے شہریوں کے خلاف بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر کے کی جا رہی ہے۔

اقوامِ متحدہ، آئی پی سی، ڈبلیو ایف پی اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹس چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں لیکن آقاؤں کے ارادے جاننے والے مفاد پرست طبقات اقوامِ متحدہ کی رپورٹ پڑھتے تک نہیں، اور اگر پڑھ بھی لیں یا سن بھی لیں تو نالے بے اثر ہی رہتے ہیں۔

غزہ کے 2.1 ملین انسانوں میں سے 93 فیصد شدید خوراک کے بحران (مرحلہ 3 یا اس سے بدتر) میں ہیں، اور ان میں سے تقریباً 22 فیصد قحط (مرحلہ 5) کی سنگین ترین سطح پر ہیں۔

آئی پی سی کے مراحل کیا ہیں؟

آئی پی سی ایک بین الاقوامی پیمانہ ہے جو فوڈ سکیورٹی کے حالات کی شدت کو پانچ مراحل میں تقسیم کرتا ہے:

1. مرحلہ 1 — کوئی یا معمولی: بنیادی ضروریات بغیر کسی نقصان یا خطرے پوری ہوتی ہیں۔

2. مرحلہ 2 — دباؤ کا شکار: خوراک دستیاب ہے مگر غیر خوراکی اخراجات شدید دباؤ کا باعث بنتے ہیں۔

3. مرحلہ 3 — بحران: خوراک کی شدید کمی، یا بقا کے لیے اثاثے بیچنے کی نوبت۔

4. مرحلہ 4 — ہنگامی: بہت زیادہ کمی، شدید غذائی قلت، اموات میں اضافہ۔

5. مرحلہ 5 — تباہی/قحط: انتہائی خطرناک مرحلہ — قحط، اموات، اور بقا کا نظام ٹوٹ جانا۔

مرحلہ 5 کی تصدیق کے لیے شرائط:

کم از کم 20 فیصد گھرانے شدید غذائی قلت کا شکار ہوں۔

30 فیصد سے زائد بچے شدید غذائی قلت میں مبتلا ہوں۔

ہر روز 10,000 میں سے کم از کم 2 بالغ یا 4 بچے بھوک یا غذائی بیماری سے مر رہے ہوں۔

غزہ کے اعداد و شمار

71,000 بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

تقریباً 17,000 حاملہ یا دودھ پلانے والی مائیں فوری مدد کی محتاج ہیں۔

غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد 98 ہو چکی ہے، جبکہ کل انسانی ہلاکتیں 61,000 سے زائد ہیں۔

اسپتال، پانی، بجلی اور بنیادی ڈھانچہ تباہی کے دہانے پر ہیں۔

یہ سب صرف اعداد و شمار نہیں — یہ ایک اجتماعی ضمیر کا امتحان ہے، اگر کوئی سمجھنا چاہے تو۔

اور دوسری طرف… اسرائیل کے اندر سے آوازیں

(خدارا اس کو طرفداری نہ سمجھ بیٹھیں)

یہ حیران کن مگر سبق آموز ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی ایسے دانشور، لکھاری اور صحافی موجود ہیں جنہوں نے اپنی حکومت کی پالیسیوں اور غزہ پر مظالم کے خلاف کھل کر آواز بلند کی۔

معروف مورخ ایلان پاپے: "یہ نسل کشی ہے، اور ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔”

کالم نگار گیڈون لیوی: "جب ہمارا معاشرہ ظلم پر خاموش ہو جاتا ہے، تو یہ ظلم سب سے پہلے ہماری اپنی انسانیت کو قتل کرتا ہے۔”

صحافی امیرہ ہاس، جو برسوں غزہ میں رہیں: "ہم فلسطینیوں کے ساتھ جو کر رہے ہیں، وہ ہماری اپنی اخلاقی موت ہے۔”

یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان پر "غدار” ہونے کا لیبل لگے گا، روزگار چھن سکتا ہے، جیل ہو سکتی ہے — مگر انہوں نے قلم کو ضمیر کے تابع رکھا، مصلحت کے نہیں۔

اور ہم؟

پاکستان کے ادیب، شاعر، دانشور، صحافی — اور خاص طور پر وہ جو بین الاقوامی تعلقات، تاریخ، ادب، زبان یا دفاعی علوم پڑھاتے ہیں — کہاں ہیں؟
چند ایک ہیں جو بولتے ہیں، لیکن اکثر یا تو دھیما بولتے ہیں یا پھر صرف اس وقت جب ان کا ادارہ — تھنک ٹینک، کالج، یونیورسٹی، ٹی وی چینل یا اخبار — اجازت دے۔

دل اور روح کی اپنی آواز کہاں ہے؟

یہ پہلی بار نہیں۔
سقوطِ ڈھاکہ کے وقت بھی ہمارے بڑے "اہلِ قلم” کی بڑی کلاس خاموش یا محتاط رہی۔ اور آج تک بنگلہ دیش کے گھیتوز (بستیوں) میں پھنسے پاکستانیوں — جنہیں "بہاری” یا "پھنسے ہوئے پاکستانی” بھی کہا جاتا ہے — کے لیے کسی بڑے نام نے اجتماعی سطح پر مضبوط آواز نہیں اٹھائی۔

بنگلہ دیش کے کیمپ نما اذیت خانوں کا حال

اعداد و شمار تلخ ہیں:

تقریباً 300,000 سے 600,000 (بعض اندازے 500,000 تک) پاکستانی نژاد لوگ، جن کی چوتھی یا پانچویں نسل اب پروان چڑھ رہی ہے، بنگلہ دیش کے 66 گھیتوز میں انسانیت کے شرف سے بے نیاز حالات میں رہتے ہیں۔

ڈھاکہ کا جنیوا کیمپ — جہاں 90 خاندان ایک بیت الخلا شیئر کرتے ہیں — ان حالات کی بھیانک علامت ہے۔

تعلیم کم، صفائی ناقص، زندگی غیر انسانی۔

گزشتہ دہائیوں میں مرحوم جمیل الدین عالی، مرحوم منظور احمد (جنگ اخبار) اور معروف انگریزی صحافی مرحوم محمد ضیاءالدین نے ہمدردی ضرور دکھائی، مگر کوئی بڑی اجتماعی مہم، قرارداد یا پالیسی وکالت سامنے نہ آئی۔

میرا دل دکھتا ہے جب میں دیکھتی ہوں کہ میرے پسندیدہ شعرا — فیض احمد فیض، ناصر کاظمی — نے بھی اس درد پر خاموشی اختیار کی۔ اور مرحومہ سیدہ پروین شاکر — جو مونگیر (بہار) سے تعلق رکھتی تھیں، کراچی میں پلی بڑھیں، اور جن کی شاعری میں بارش کا ذکر اکثر آتا ہے — بھی اس مسئلے کو کبھی مقصد نہ بنا سکیں۔

خاموش ادارے

پاکستان آرٹس کونسلز، اکیڈمی آف لیٹرز، مقتدرہ قومی زبان، ترقی پسند و غیر ترقی پسند ادیبوں کی انجمنیں — نہ اُس وقت، نہ آج کسی بڑے اجتماعی بیانیے یا عالمی اپیل کے لیے اکٹھی ہوئیں۔
(اگر ایسا ہو چکا ہے اور میں لاعلم ہوں تو بے حد معذرت!)

جیسے سب نے یہ طے کر لیا ہو کہ "ہم ایکٹیوسٹ نہیں ہیں”۔

سوال باقی ہے

ایکٹیوسٹ ہونا کوئی الگ پیشہ ہے؟
کیا استاد، ادیب، شاعر، فنکار، مورخ کا ضمیر نہیں ہوتا؟
کیا قلم صرف تعریفی تحریروں، تقریظوں اور مصلحت بھرے تبصروں کے لیے رہ گیا ہے؟

مداری تماشا دکھاتا ہے، درباری آقا کو خوش کرنے میں مگن رہتا ہے، اور لکھاری — وہ ضمیر کا آئینہ ہوتا ہے۔
لیکن جب لکھاری درباری بن جائے یا مداری کا تماشا کرنے لگے، تو پھر سوال اٹھتا ہے:

بات کرنی اتنی مشکل کیوں؟

حوالہ جات:

آئی پی سی اسپیشل بریف (Apr–May 2025)، اقوام متحدہ او سی ایچ اے / ڈبلیو ایف پی / یونیسیف صورتحال رپورٹس، ہارٹز (گیڈون لیوی، امیرہ ہاس)، ایلان پاپے خطبات و انٹرویوز، اے پی / رائٹرز / الجزیرہ جنگی ہلاکت رپورٹس، بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانیوں کے اعداد — یو این ایچ سی آر، ڈھاکہ ٹربیون، بی بی سی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے