کیا ریاست کسی کو کافر کہہ سکتی ہے؟

یہ سوال ایک ٹاک شو میں اُٹھایا گیا۔ اس کے مناسب جواب سے پہلے کچھ بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔
ریاست ایک خود مختار سیاسی اکائی کا نام ہے۔ زمین کے ایک خطّے پر موجود اس سیاسی اکائی میں رہائش پذ یر باشندے یہ طے کرتے ہیں کہ انکے طرز ِ زندگی کے معاشرتی، معاشی اور قانونی پیرائے کیا ہونگےاور اسی کی وضاحت کے لیئے ایک آئین بنایا جاتا ہے۔ یہ ایک بنیادی دستاویز ہوتی ہے جو ملکی معاملات کے عمومی رخ کا تعیّن کرتی ہے۔

عوام آئین کے ذریعے اس ملک کا نام اورنظریہ متعیّن کرتے ہے۔ مختلف اداروں کی تخلیق ہوتی ہے، جیسے عدلیہ، انتظامیہ، پارلیمنٹ وغیرہ وغیرہ، جن کا کام آئین کے مطابق ملکی امور کو چلانا ہوتا ہے۔ آئین میں تمام ضروری اداروں کے دائرہ کار کی وضاحت کی جاتی ہے۔ یعنی آئین ایسا محور ہے جس کے چاروں طرف ریاستی ادارے گردش کرتے ہیں۔ گویا ریاست مختلف اداروں کے مجموعے کا نام ہے جو کسی مخصوص زمینی خطّے کے نظم و ضبط اور انتظام کے ذمّہ دار ہوتے ہیں۔

اس بحث میں سب سے اہم نکتہ عوام کا متعیّن کردہ نظریہ حیات ہے۔ اگر عوام نے آئین میں یہ طے کرلیا ہے کہ اقتدار ِ اعلیٰ کے مالک عوام ہونگے اور مملکت یا ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا یا دوسرے لفظوں میں وہاں سیکولر ازم کے تحت قانون سازی ہوگی جیسا کہ جمہوریت، تواس صورت میں ریاست کا ایک متعیّن کردار ہوگا جو اُس آئین سے بالکل مختلف ہوگا جس میں اقتدار ِ اعلیٰ عوام کے بجائے کسی ایک انسان کو دیا جائے جیسے کہ بادشاہت۔

پاکستان کا آئین نہ عوام اور نہ ہی کسی انسان کا اقتدار اعلیٰ تسلیم کرتا ہے بلکہ یہ خالق کائنات اللہ کو اقتدار اعلیٰ کا حامل قرار دیتا ہے۔ قرارداد ِ مقاصد پاکستان کے آئین کا حصّہ ہے اور پاکستان کی بحیثیت ایک مسلم ریاست تصدیق کرتی ہے ۔ گویا پاکستان میں ریاست اور اسکا آئین باقی دنیا سے مختلف ایک منفرد شکل میں موجود ہیں۔ اس اہم فرق کو سمجھے بغیر دنیا کے دوسرے جمہوری ممالک میں رائج قوانین اور وہاں کی جمہوری روایات کے حوالے سے پاکستان کا مقابلہ کرنا غیر حقیقی ہے۔

اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ کیا ریاست کسی کو کافر قرار دے سکتی ہے۔

پاکستان میں موجود تمام مذاہب کے پیرو کار آئین کے تحت اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں آزاد ہیں۔ آئین کے تحت ریاست کسی بھی شخص کے عقیدے اور ایمان کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرتی ، لیکن کسی سنگین مذہبی اور نظریاتی تنازعے کی صورت میں ریاستی ادارے اپنا آئینی کردار ادا کریں گے۔ یہ تنازعہ مذہبی پہچان کا ہوسکتا ہےیعنی اگر ایک مذہبی گروہ اُٹھ کر ایسا دعویٰ کردے جس سے بنیادی عقائد کے حوالے سے دو گروہوں میں محاذ آرائی کا خدشہ ہو تو اس صورت میں متعلّقہ ریاستی اداروں کی ذمّہ داری ہوگی کہ وہ صورتحال کا جائزہ لیکر ایک فیصلہ کریں۔

مثلاً اگر کوئی گروہ اسلام کے بنیادی عقائد سے ٹکراتا ہوا نظریہ لیکر اُٹّھے اور دعویٰ کرے کہ یہی اسلام ہے اور ہم مسلمان ہیں تو ظاہر ہے کہ معاشرے میں تناؤ اور سنگین ٹکراؤ کا خطرہ پیدا ہوگا ۔ اس تنازعے کوریاست مفاد ِ عامّہ میں نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی اسلامی اسکالرز اور علماء کی رائے اور عوام النّاس کی خواہشات کی روشنی میں ہی حل کرے گی۔ گویا کسی مسلم گروہ کی طرف سے کسی انتہائی بنیادی عقیدے کی نفی کے بعد مسلمان ہونے کا دعویٰ ایک جارحانہ فعل ہوگا جس کی وجہ سے معاشرے میں بے چینی اور انتشار کا خدشہ ہو سکتا ہے۔

ایسی کسی غیر معمولی صورتحال میں کسی مجاز ریاستی ادارے کی ذمّہ داری ہوگی کہ وہ صورتحال کا جائزہ لیکر مملکت کے استحکام کے لیئے مستند علماء کی رائے کی روشنی میں مناسب فیصلہ کرے اور اس گروہ کے دعوے کو تسلیم کرنے سے انکار کردے مزید یہ کہ مستقبل میں کسی شورش ، نسل کشی یا خانہ جنگی کے تدارک کے طور پر اس فیصلے کو آئینی تحفّط دے دے تاکہ مذہبی جذبات انتہا پسندی میں تبدیل نہ ہوں اور سب کی جان اور مال محفوظ رہیں۔

ریاست متعیّن پیرائے میں ہی آئین کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہے۔ کیونکہ پاکستان آئینی طور پر اسلامی ملک ہے اور اقتدار اعلیٰ اللہ کا ہے تو اسکے قوانین اسلامی اصولوں کے تحت ہی بنائے اور چلائے جائیں گے اور ریاست اسلام کے معیّن اصولوں کے تحت بنیادی عقائد کے تحفّظ اور احترام کی ذمّہ دار ہے اور رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے