جنرل مشرف کیلیے نئی مہم اوررسوائیاں

اطلاعات ہیں کہ سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی ‘ڈرائی کلیننگ’ کا پراجیکٹ شروع ہو چکا ہے ۔ پرویز مشرف پر مختلف جہات سے اٹھانے جانے والے سوالات کے اساطیری طرز پر جوابات تیار کیے جارہے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جارہے ہیں ،رائے عامہ کو بدلنے کے لیے کہانیاں بہت اسمارٹ طریقے سے بُنی جا رہی ہیں لیکن اس قدر محنت کے باوجود بھی ان میں کہیں نہ کہیں سُقم رہ جاتا ہے ، جو اکثر مضحکہ خیر ہوتا ہے۔ ان کہانیوں کے پلاٹ کی کمزوری باخبر لوگ جھٹ سے پکڑ لیتے ہیں جبکہ کرائے کا کہانی کار اپنا سَر پکڑ لیتا ہے۔

آمروں کا بڑا المیہ یہی ہے کہ ان کو ترجمان اچھے نہیں ملتے ۔ عم عصروں میں بُری شہرت کے حامل لوگ ان کی قصیدہ گوئی کی خدمات انجام دیتے ہیں ۔ صاحب مطالعہ، حالات کے اتار چڑھاو سے آگاہ اور سسٹم کے بارے میں واضح تصورات رکھنے والے افراد اپنی خدمات کرائے پر نہیں دیتے۔ اگر انہیں ضمیر کی بات کہنے میں گھٹن محسوس ہو یا روک لگا دی جائے تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں اور مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں ۔ جنس بازار ہرگز نہیں بنتے۔

آپ آمروں اور غیر جمہوری قوتوں کے میڈیا میں پھیلے ہوئے اینکر اور تجزیہ کارنُما ترجمانوں کی فہرست دیکھ سکتے ہیں ۔ کوئی ڈھنگ کا آدمی مشکل ہی سے ملے گا ۔ ان کرائے کے ترجمانوں کی کچھ علامات مشترک ہیں ۔ یہ سیاست دانوں کو ہر برائی کی جڑ بتاتے ہیں۔ حُب الوطنی کا خود ساختہ چورن بیچتے ہیں ، الزامات لگاتے ہیں ، لوگوں کو غدار کہتے ہیں ،کسی حریف ملک کا ایجنٹ کہتے ہیں ۔ گاہے توہین مذہب کا الزام بھی لگا دیتے ہیں ۔ اظہار رائے کی حد بندیاں تلقین کرتے ہیں اوراپنی غلطی ثابت ہونے پر ٹس سے مس نہیں ہوتے، رعونت شعار ہوتے ہیں ، اونچی آواز میں بات کرتے ہیں ۔ خود کو بہت پُر اعتماد ظاہر کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہی لوگ پرویز مشرف اور اس کے آئین شکن پیشوائوں کی تعریف سے رطب اللسان رہتے ہیں .

مشرف کی ڈرائی کلین مہم کا ذکر ہے، ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ایک پریس کانفرنس سبھی ٹی وی چینلز پر چلائی گئی۔ اس پریس کانفرنس کا موضوع کوئی اور تھا لیکن مشرف کی ‘صفائی’ پیش کرنا وہاں اہم سمجھا گیا اور اس کے بعد دیگر میڈیمز پر باقاعدہ پراجیکٹس لانچ ہو گئے اور مشرف کے مدبر حکمران ، جنگی حکمت عملی کے ماہر جرنیل اور انتہائی زیرک منتظم ہونے کی کہانیاں چلنے لگیں ۔ ادھر مشرف نے بھی منمناتے ہوئے پاکستانی سیاست دانوں پر تبرا بھیجا لیکن ظاہر ہے مشرف کے لیے فی الحال پاکستانی سیاست میں ریلیونٹ بننے میں‌ بہت سی مشکلات درپیش ہیں ۔ حالات خراب سہی مگر بہت بدل چکے ہیں ۔ یہ بدلاو آمروں کے لیے سازگار نہیں۔ سوالات اب اٹھائے جاتے ہیں اور آمر سوال سے ڈرتا ہے ۔

مشرف کو ”صالح” اور مسیحا بنانے کا پراجیکٹ کس حد تک کامیاب ہو گا ، کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا ۔ تاہم رواں ماہ کے تیسرے ہفتے میں جنرل مشرف کو لندن میں جس رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، اس کی روداد پڑھ کر لگتا ہے کہ ابھی ”زُلف کے سر ہونے” کے امکانات دور دور تک دکھائی نہیں دیتے ۔

لندن میں کیا ہوا؟ ایک اشتہاری کیمپین چلائی گئی کہ جنرل پرویزمشرف نے اسکول آف اورئینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (SOAS) لندن میں 24اگست 2017 ء کو طلباء سے خطاب کریں گے ۔ پاکستانی نجی چینل دنیا نیوز اپنے اینکر(جو اکثر حسب ضرورت و منشاء مشرف کا انٹرویو کرتے رہتے ہیں) کے ساتھ اس تقریب کی میڈیا منیجمنٹ کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے تھا ۔ دنیا ٹی وی کی جانب سے جاری کیے گئے اشتہار میں بتایا گیا تھا کہ ”مشرف 1999میں اقتدار پر قبضے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ ، نواز شریف کی نااہلی اور پاک فوج کے بھارت کے خلاف دوٹوک موقف ”پر24 اگست کو دن ڈیڑھ بجے اسکول اف اورئینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (SOAS) میں لیکچردیں گے اور یہ تقریب دنیا نیوز کے پروگرام ‘فرنٹ لائن’ میں نشر کی جائے گی ۔

یہ اشتہار جب اسکول آف اورئینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (SOAS) کے مخلتف شعبوں میں پڑھنے والے پاکستانی طلبہ تک پہنچا تو وہ سیخ پا ہوگئے ، انہوں نے اس کے خلاف باقاعدہ کیمپین شروع کر دی ۔ انہوں نے ایک آن لائن پٹیشن شروع کی ، جس کی بے شمار لوگوں نے حمایت کی ، دوسری جانب مذکورہ یونیورسٹی کو سینکڑوں کی تعداد میں احتجاجی ای میلز اور فون کالز موصول ہوئیں ۔ بالآخر یونیورسٹی کو وضاحت کرنا پڑی کہ جنرل مشرف یا دنیا ٹی وی کے لیے یونیورسٹی میں کوئی جگہ بُک نہیں کی گئی، بلکہ یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کرنے والے ایک پاکستانی طالب علم کے نام سے جگہ بکنگ کی گئی تھی ، جو بعد میں ازخود کینسل کر دی گئی تھی۔

پھر احتجاج کرنے والے طلبہ کو اطلاع ملی کہ پرویز مشرف کا پروگرام یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر ( University of Westminster)میں ہوگا لیکن کچھ ہی گھنٹوں میں اس ادارے کی انتطامیہ نے بھی ایک ای میل کے جواب میں وضاحت کر دی کہ ہمارے یہاں ایسا کوئی پروگرام نہیں ہو رہا ۔ اس کے بعد ایک پاکستانی ہوٹل کا رخ کیا گیا مگر احتجاجی طلبہ کی فون کالز اورای میلز نے ہوٹل انتظامیہ کو یہ قدم اٹھانے سے باز رکھا ۔ اس طرح لیکچر جھاڑنے گئے ہوئے سابق فوجی آمر جنرل مشرف بے آبرو ہو کرلندن سے نکلے ۔

پاکستان میں سیاست دانوں پر تنقید ہوتی رہتی ہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ ہمارے یہاں دستیاب جمہوریت بہت مثالی نہیں ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں اندرونی سطح پر جمہوری عمل میں کافی حد تک اصلاح کی گنجائش موجود ہے ۔ ان خامیوں پر سوالات اٹھنے چاہییں لیکن مخصوص موسموں میں سیاست دانوں کی کرپشن پر خورد بینیں لگا دینا اور پھر ان کے ”بے لاگ احتساب” کو قوم وملت کا مفاد بتانا شکوک شبہات کو جنم دیتا ہے۔ اور پھر اگر کسی آئین شکن اور جمہوریت کُش فوجی آمر کو خضرِراہ ثابت کرنے کی مہم بھی شروع ہو جائے تو شبہات مزید گہرے ہوجاتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے