آجاکیہ عارف ایم کیو ایم کے دیرینہ کارکن اور لیڈر ہیں ۔ غالباً کسی زمانے میں جمشید ٹاون کراچی کے ناظم بھی رہے ہیں ، اس کے علاوہ ایم کیو ایم کی کمیٹی فار انٹرنیشنل افیرز کے کوآرڈی نیٹر بھی رہ چکے ہیں ۔ آج کل برطانیہ میں ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ وہاں ٹیکسی چلا کر گزر بسر کرتے ہیں ۔ بلکہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے خود یہ بات بتاتے ہیں۔ وہ کبھی کبھار اپنی مختصر ویڈیوز میں پاکستان کے حالات بالخصوص کراچی کی صورت حال پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں ۔
آجاکیہ عارف کی بہت سی باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن پاکستانی سیاست میں غیر سیاسی قوتوں (جنہیں مقامی محاورے میں اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے ) کے کردارکے بارے میں ان کی رائے سے بہت کافی اتفاق کرنا پڑتا ہے۔ ان کے الفاظ تلخ ہوتے ہیں لیکن بات بہرحال سمجھ میں آتی ہے ۔
آجاکیہ عارف نے پاکستان میں بچی کُھچی ایم کیوایم اور نئی تشکیل دی گئی مصطفٰی کمال پارٹی (پی ایس پی) کے پرسوں (8 نومبر 2017) کے ”مجبوری کے ملن” کے بعد اپنی رائے دی اور بتایا کہ یہ کوئی نئی خبر نہیں ۔ اس پراجیکٹ پر بڑے عرصے سے کام جاری تھا ۔ وہ اس اتحاد کے بارے میں شکوک کا اظہار کر رہے تھے کہ ‘یہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا’ ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ، آج ٹھیک چوبیس گھنٹے بعد اس ”غیر فطری ملاپ” کا ڈراپ سین بھی ہو گیا۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ کی منیجمنٹ بُری طرح فیل ہوگئی۔اب شاید پلان /اسکرپٹ میں کچھ نئی تبدیلیاں کرنی پڑیں گی ۔
یہ درست ہے کہ عسکری اداروں نے کراچی کے حالات کو ڈنڈے کے زور پر کافی ‘بہتر’ کیا ہے لیکن اس شہر کو مصنوعی تنفس پر زیادہ دیر چلانا خطرے کی بات ہے۔خاص طور پر ایسے لوگوں کی نگرانی میں جو جراحی کے بعد کی میڈیکیشن اور کیئرسے قطعی نابلد ہیں ۔ کراچی میں ایم کیو ایم کا واضح ووٹ ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔ بادی النظر میں اسٹیبلشمنٹ کا مصطفیٰ کمال پلان چلتا دکھائی نہیں دیتا ۔ ووٹرز کی نگاہ میں مصطفیٰ کمال لیڈر نہیں ہیں ۔
جہاں تک فاروق ستار وغیرہ کا تعلق ہے ۔ حالات گو کہ بہت کچھ بدل چکے ہیں لیکن ووٹر کی امید بہرحال انہی کے ساتھ جڑی ہے ۔ کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ ایم کیو ایم کا ووٹر عمران خان کی جانب سوئچ کر جائے گا ، یہ اس کی خام خیالی ہے ،کراچی کی سیاست اور (خاص طور پر اردو) ووٹر کے مزاج پر نگاہ رکھنے والے لوگ میری اس نکتے پرتصدیق کریں گے ۔ فاروق ستار اور ان کے ساتھی اس وقت شدید دباو میں ہیں ۔ ایک طرف تو وہی دباو ہے جس سے ہم سب واقف ہیں جبکہ دوسری جانب ان تمام لوگوں کا دباو ہے جو فاروق ستار وغیرہ کے حالیہ اور ماضی قریب کے روپ کو اجنبی کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ”سب کچھ مجبوری کے تحت ہو رہا ہے ، دل نہیں بدلے” ۔ مجھے لگتا ہے وہ غلط نہیں سوچتے۔ بات یہی ہے۔
کراچی میں ایم کیو ایم ایک حقیقت ہے ۔ مہاجر ووٹ اور مہاجر عصبیت بھی ایک حقیقت ہے ۔ اس وقت ریاست(جی میرا مطلب ہے ریاست) کے لیے ان نزاکتوں کو پیش نظر رکھ ایسی پالیسی تشکیل دینا ایک چیلنج ہے جو کراچی کے لوگوں کا سیاسی عمل پراعتماد بحال کر سکے اور بہت کم وقت میں کراچی کے سیاسی وجود کو لگے مصنوعی تنفس کی اذیت کو ختم کر سکے ۔