محمد حسین
(سماجی امور پر ماہر نصابیات و پروفیشنل ٹرینر)
حادثہ ہمیشہ غیر متوقع ہی ہوتا ہے، دنیا بھر کے بڑے اجتماعات میں بسا اوقات ایسی بھگدڑ مچ جاتی ہے جس سے سینکڑوں اور ہزاروں لوگ پاؤں تلے روندے جاتے ہیں اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مسلمانوں کے بڑے اجتماعات میں سے ایک ہر سال حج کا اجتماع ہے۔ اس سال حج کے موقع پر ایسے ہی دو غیر متوقع اور دردناک بڑے سانحات پیش آئے۔ ایک حادثہ مناسک حج شروع ہونے سے پہلے کرین گرنے سے اور دوسرا منی کے مقام پر حادثہ درپیش آگیا۔ جس میں مجموعی طور پر مختلف ممالک سے وابستہ تقریبا ایک ہزار حجاج جان کی بازی ہار گئے۔ حج کا معاملہ مناسک حج کی وجہ سے دنیا کے دیگر بڑے بڑے اجتماعات سے بالکل مختلف ہے، جس کا انتظام یقیناً پیشگی منصوبہ بندی، اجتماع کی نفسیات سے آگاہی اور نظم و نسق کی کمال مہارت کا متقاضی ہے ۔
اس حادثے نے انسانیت کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے دنیا بھر کے لوگوں کو بالعموم اور مسلم قوم کو بالخصوص عید الاضحیٰ کے موقع پر غمزدہ کردیا ہے۔ اس کرب و درد کو وہی لوگ بہتر محسوس کر سکتے ہیں جن کے عزیز و اقارب اس المناک حادثے میں اللہ کو پیارے ہوئے یا ان کے بارے میں ابھی تک کوئی مصدقہ اطلاعات موصول نہیں ہو رہی ہیں۔
عید کے موقع پر رنج و غم کا سبب بننے والے اس المناک و دردنا ک حادثے پر مختلف ممالک، جن کے حجاج اس حادثے کا شکار ہوئے ہیں، کا غم و غصہ بجا ہے ۔ ان کا سعودی عرب سے یہ مطالبہ بھی بجا ہے کہ اس المناک حادثے کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے تحقیقات شروع کر دیا جائے اور وہ حادثے کے شکار حجاج کے لواحقین سے معافی طلب کرے۔ نیز اس افسوس ناک موقع پر ہمیں ان تمام ممالک کے ساتھ بھی ہمدردی کا اظہار کرنا چاہیے جن کے حجاج اس حادثے کا شکار ہوئے ہیں۔
اس پورے حادثے کے پس منظر اور پیش منظر رپورٹنگ پر عالمی میڈیا منقسم ہے۔ عرب میڈیا، ایرانی میڈیا ، مغربی میڈیا اور پاکستانی میڈیا کی رپورٹنگ غیر جانبدار اور حقائق پر مبنی معروضی (Objective) انداز میں ہونے کے بجائے مختلف ممالک کے مفادات کے تحت موضوعی (Subjective) بن چکی ہے۔ اس لیے حادثے کا شکار ہو نے والےحجاج کرام کی شناختہ اور نا شناختہ لاشوں ، زخمیوں اور لاپتہ حجاج کی تعداد، حادثے کے اسباب ، اس کے بارے میں تحقیقات اور ذمہ داروں کے تعین کے بارے میں مختلف منقسم اطلاعات اور تجزیے سامنے آ رہے ہیں۔ ابھی تک قابل اعتبار اور کوئی ایک ورژن پر مبنی اعداد و شمار اور حقائق سامنے نہیں آئے ہیں۔
پاکستانی میڈیا کی زیادہ تر رپورٹس المناک حادثے کا ذمہ دار حاجیوں کو ہی ٹھہرا رہی ہیں۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم کے بقول ایسے حادثات کو روکنا انسانی دسترس سے باہر ہے اس میں کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
ایک میزبان ریاست کے طور پر محفوظ حج کے لیے بہتر انتظامات کی ذمہ داری سعودی عرب کی بنتی ہے۔ جب بہتر انتظامات پر کریڈٹ لینے کا حقدار سعودی عرب ہے تو کسی قسم کی بد انتظامی کی صورت میں اسے ہر طرح کی ذمہ داری سے کیسے مبرا سمجھا جائے؟
اس وقت اس حادثے کے شکار حجاج کے لواحقین کے درد اور کرب کا ادراک اور احساس کرنے والے کم اور اس حادثے پر مسلکی و ریاستی سیاست چلانے والے زیادہ نظر آرہے ہیں اور ایک طرف بعد از حادثہ اس کے نقصانات سے نمٹنے کے اقدامات کرنے، اعداد و شمار مرتب کرنے نیز لواحقین کو درست اور بر وقت معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے حکومت پاکستان اور سعودی عرب دونوں کے حج مشنز کا رد عمل بھی بہت اذیت ناک حد تک قابل افسوس ہے۔ جبکہ دوسری طرف سانحہ منی پر انتہائی افسوس ناک رد عمل کے نتیجے میں امت مسلمہ بالعموم اور پاکستانی مذہبی طبقہ بالخصوص دو بلاکوں میں تقسیم نظر آرہا ہے ۔
سعودی بلاک کی طرف سے ظاہر کیے جانے والے رد عمل، خبریں، تجزیے، تبصرے، تصاویر، ویڈیوز کو ملاحظہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ حادثہ ایران کی پہلے سے طے شدہ سازشی منصوبے کی وجہ سے پیش آیا ہے۔
اسی طرح ایرانی بلاک کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حادثہ سعودی عرب کی انتظامی نا اہلی، شاہی نقل و حرکت، منی میں کسی ایک سڑک کے بند کرنے کی وجہ سے پیش آیا ہے نیز یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شاہی خاندان کے اندرونی اختلافات اور شاہی خاندان کی باہمی دانستہ سازش بھی اس حادثے کی وجہ ہو سکتی ہے۔
مذکورہ منقسم تناظر میں اس المناک حادثے کو امت میں مزید تقسیم کا باعث بنایا جا رہا ہے ۔ تعجب ہے اس حادثے کی آڑ میں تحقیق و انصاف، رواداری و انسانی ہمدردی کے درس دینے والے بعض نامور دانشور، علما اور قائدین اس دلدل میں فرقہ وارانہ کیچڑ اچھالنے لگے ہیں۔ کچھ انتہاپسندوں نے یہ کمپین بھی چلانا شروع کر دی ہے کہ شیعوں اور خاص طور پر ایرانیوں کی حج پر پابندی لگا دی جائے جبکہ دوسری طرف اس واقعے کو بنیاد بنا کر سعودی عرب کی گزشتہ نو دہائیوں کے ریاستی جرائم کی فہرستیں تیار کرنا شروع کر دی ہے اور اس حادثے کو ریاستی سطح پر علاقائی مفادات کے حصول اور عالمی سطح پر رائے عامہ کو سعودی عرب کے خلاف ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
ہمیں اس المناک حادثہ پر سعودی عرب یا ایران کے ساتھ اپنی موافقانہ یا مخالفانہ عصبیت سے بچتے ہوئے اس واقعے پر رنج و غم کا اظہار کرنا چاہیے۔ اسے ایران و سعودی عرب کی روایتی مخاصمانہ ریاستی پالیسی یا شیعہ سنی فرقہ وارانہ منافرت کا باعث نہیں بنانا چاہئے وگرنہ حادثے کا فرقہ وارانہ رخ مزید حادثات کو جنم دے سکتا ہے۔
عملی حقیقت یہی ہے کہ ریاستوں کی پالیسیاں صرف اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ جبکہ مسالک و مذاہب کی بنیادیں اقدار و اصول اور انسان دوست تعلیمات پر مبنی ہوتی ہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ مذاہب و مسالک کے پیروکار دانستہ یا نادانستہ طور پر اکثر اوقات ریاستوں کی ترجمانی اور دفاع کو اپنے دینی اور مذہبی فرائض سمجھنے لگتے ہیں اور اس دفاع میں اپنی اصل تعلیمات سے ہی روگردانی کر رہے ہوتے ہیں ۔
امت مسلمہ کے مسائل ان دوممالک کی ریاستی ترجیحات کے تناظر میں زیر بحث لانے کے بجائے معروضی انداز میں ہی زیر بحث لانے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب اور ایران دونوں اپنے اپنے خاص و محدود زمان ومکان میں مقید دو مسلم ممالک ہیں جبکہ اہل سنت اور تشیع دونوں مکاتب فکر ان ممالک کی جغرافیائی اور تاریخی حدود میں مقید نہیں ہیں۔
اس ضمن میں واضح رہے !
سعودی عرب پر تنقید کو اہل سنت، اہل حدیث یا اسلام پر تنقید نہ سمجھا جائے ۔
اسی طرح ایران پر تنقید کو تشیع یا اسلام پر تنقید نہ سمجھا جائے۔
اگر ہم سانحہ منی جیسے حادثات کے دوران حقائق کو پسِ پشت ڈال کر انہیں اپنے اپنے ریاستی، سیاسی اور مسلکی مفادات کے لیے استعمال کرنے سے باز نہ آئے تو یاد رکھیے مسلم معاشروں میں سچائی، عدل و انصاف اور اخلاقی اقدار کی موت واقع ہوتی رہے گی اور ہمارے دلوں اور دماغوں پر عصبیت، جھوٹ، ظلم اور منافقت کی حکومت قائم رہے گی جو سمجھنے والوں کے لیے ایسے حادثات سے بھی کئی گنا بڑا حادثہ ہے ۔