کسی نہ کسی کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ جن کی ذمہ داری ہے، وہ نہ کریں گے تو کوئی اور کرے گا۔
اس شب وہاں سے نکلا تو امید سے قلب جگمگا رہا تھا۔ موسیقی کی محفلوں سے حتی الامکان گریز ہے۔ میرا خیال ہے کہ موسیقی اور شاعری تنہائی کی چیز ہے۔ ڈوبتی رات کے سناٹے میں، قوّتِ خیال پرواز کرتی ہے۔ امکان کے شجر پہ شگوفے پھوٹتے اور پھول کھلتے ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کے اصرار کی تاب مگر کون لا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا: ایک دوست کے اصرار پہ راحت فتح علی خان کو بلایا ہے۔ وہ غالبؔ اور اقبالؔ کا کلام سنائیں گے۔ ایک محبت غالبؔ سے ہے۔ وہ زبان جو خاکسار کا ذریعۂ اظہار ہے، عبقری کی اس پہ عنایات ہیں۔ شاعری میں ، اس نے ندرتِ خیال اور حسنِ فصاحت کے دیے جلائے ۔ دوسری طرف اردو نثر کوایک نیا لہجہ اوربے ساختگی بخشی۔ وہ قدیم تہذیب اور آداب کے سانچے میں ڈھلا آدمی، مگر نئے تصورات کے دروازے ، جس کے ادراک پہ وا تھے۔
اقبالؔ تاریخِ انسانی کا ایک خیرہ کن استثنیٰ۔ دنیا سے اٹھا تو مسلم برصغیر کے طرزِ احساس کو بدل ڈالا تھا۔ قدیم سے اردو زبان نرگسیت کی ماری تھی۔ گل و بلبل کے افسانوں کے سوا، اس کے دامن میں خال ہی کچھ چمکتا۔ اقبالؔ نے اسے مردانہ آہنگ بخشا۔ ان موضوعات کو شعر کے سانچے میں ڈھالا، جن کو چھونے کا تصوّر بھی شاعروں نے کبھی کم ہی کیاتھا۔ اہلِ علم سے دنیا کبھی خالی نہ ہوئی کہ بندوں کا رب غفور الرحیم ہے۔ اس کی کائنات میں علم کی توقیر بالاتر ہے۔زندگی فہم سے سنورتی ہے اور شعور سے سجتی ہے۔
خود اقبالؔ کے عہد میں خواجہ مہر علی شاہ ایسا نادر روزگار کارفرما تھا۔ قلب روشن اور ہتھیلی پہ چراغ۔ ان کے بعض ارشادات تو ایسے ہیں کہ غور و فکر کی توفیق ہوتو، آن کی آن میں گرہ کھول دیتے ہیں۔ با ایں ہمہ یہ عہد اقبال ہی سے منسوب ؔ تھا۔ اس پر یہ انکسار کہ شاعری کیا ، زہد کی دنیا میں بھی مثال کم ہو گی۔
اللہ اللہ، پروردگار کی کیسی کیسی نشانیاں ہیں!
مارا باندھا اخوت کالج گیا تھا، لیکن لوٹ کر آیا تو روح شاداب تھی۔ منتخب باذوق لوگ اور وہ شائستہ ماحول، جس کی آرزو تو ہمیشہ ہوتی ہے، امکان شاذ ہی۔ خاص طور پر چاروں صوبوں، گلگت بلتستان، کشمیر اور قبائلی پٹی سے منتخب کیے گئے وہ نوجوان، عزم و ولولے سے، جن کے چہرے تمتما رہے تھے۔
جوشِ کردار سے شمشیرِ سکندر کا طلوع
کوہِ الوند ہوا جس کی حرارت سے گداز
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ تقریب شروع ہونے سے پہلے ہی 5 کروڑ کے عطیات مل گئے۔ ایک دوست سے ملنے گئے۔ کچھ دیر انتظار کرانے کے بعد، ایک بھاری بھرکم لفافہ دیا۔ بتایا گیا کہ ایک کروڑ روپے کے انعامی بانڈ ہیں۔ پانچ برس سے جو کھولے نہیں گئے، دیکھے نہیں گئے۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ کچھ انعام بھی نکلا ہو۔ رسان سے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ نمبروں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ 55 لاکھ روپے کے انعامات ہیں۔ ان صاحب کو بتایا گیا، کسی تامّل کے بغیر انہوں نے کہا: کارِ خیر ہی کے لیے اللہ نے سنبھال رکھنے کی توفیق دی۔ یہ سب کچھ اخوت کالج کی نذر ہے۔
رب کریم کے کرم سے، شب و روز آج کل یوں بیت رہے ہیں کہ اقبالؔ یاد آتے ہیں۔
تیری بندہ پروری سے میرے دن گزر رہے ہیں
یہ احساس تو رہتا ہے کہ ناچیز کبھی اپنے خاندان کا حق ادا کر سکا اور نہ دفتری زندگی میں کوئی ترتیب ۔ ہمیشہ سے ایک زود حسی اور بے ترتیبی۔ ہاں مگر آخر کار کچھ قرار ہے۔ مطالعے کا وقت بڑھا لیا ہے۔ تنہائی خوش آتی ہے۔
کون لکھنے اور بولنے والا ہے، حاسدوں اور گالی دینے والوں سے، جو مامون ہو۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے : کوئی صاحبِ نعمت نہیں، جس سے حسد نہ کیا جائے۔ ارشاد مگر یہ بھی ہے کہ حسد کا جو شکار ہوگا، نعمت اس کے لیے بڑھا دی جاتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ دل اب بیشتر ٹھکانے پہ رہتا ہے۔ شکایت جاگتی ہے تو غالب نہیں آتی۔
کئی عشروں میں صحت اتنی اچھی کبھی نہ تھی۔ عمر کا مرحلہ البتہ وہ ہے کہ اضمحلال کبھی آ بھی لیتا ہے۔ مگر علالت کبھی آن اترے تو دل کا چین نہیں گنواتی۔
قدرت کی ان بے پایاں عنایات کے باوجود شب کبھی ویران ہونے لگتی ہے۔ سویر کبھی ناشاد۔
سب کچھ حاصل مگر چاروں اور ویرانی۔ 22 کروڑ انسانوں کی اس قوم کے لیے کوئی ساحل نہیں۔
ساحل کی کوئی خبر ہی نہیں۔
ایک اداسی ہے کہ ٹوٹتی ہی نہیں ۔
کل شام اپنے دوست شوکت پراچہ سے ملنے گیا۔ 47 برس سے جرمنی میں ہیں۔ اس کے باوجود پاکستانی پاسپورٹ۔ایک بہت وسیع کاروبار بلکہ کئی طرح کے، بہت سے ملکوں میں۔انہی صدمات کے ذکر میں، ہم سب جس سے دو چار ہیں، حالِ دل بیان کیا تو لگا کہ اپنی نہیں، اپنے سامع کی کیفیات بیان کر رہے ہیں۔ پھر اچانک وہ بات انہوں نے کہی کہ ڈوبتی نائو سنبھلنے لگی۔ کہا: مجھے بتائیے کہ ملک کے لیے میں کیا کر سکتا ہوں؟ کیا کوئی تعلیمی ادارہ بنا دوں؟
ضرورت مندوں کے لیے کچھ سستے مکان تعمیر کر دوں؟ عرض کیا: پراچہ صاحب فقط اس سے کیا ہوگا؟ اپنا فرض ادا ہو جائے گا۔ دل کا بوجھ اتر جائے گا مگر آخری نتیجہ کیا؟ ہماری روحیں تو وہی گھائل کی گھائل رہیں۔ کچھ اور درکار ہے۔ پھر اپنے آپ سے کہا: ہم ناکردہ کار تھے، خطا کار تھے۔ اللہ کی بجائے بتوں سے ہم نے امیدیں باندھیں۔
مہلت مگر باقی ہے۔ بندوں کو پروردگار جب فرصت دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شکست اور ناکامی ظفر مندی میں بدل سکتی ہے۔ سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں مگر مایوسی نہیں۔ قنوطیت کے سامنے سپر انداز ہونے کا ہرگز کوئی جواز نہیں۔
اخبار اٹھایا تو خبر اچھی تھی۔ 8 بلین ڈالر عالمی مالیاتی فنڈ سے ملیں گے ۔ امید ہے کہ سات آٹھ ارب ڈالر عالمی بینک سے۔ سوچنے، کھوج لگانے اور تلاش کرنے کے لیے کچھ مہلت تو میسر آئی۔
پھر کچھ با خبر لوگوں سے رابطہ کیا تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ ان میں سے ایک نے کہا: آپ کو کچھ خبر بھی ہے کہ آئی ایم ایف والے کہہ کیا رہے ہیں؟ ان کا مطالبہ ہے کہ سارے ملک کے سناروں کا ریکارڈ مرتب کیا جائے۔ لوٹ مار کی دولت سے سونے کی خریداری بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے۔جس میں سے کچھ دہشت گردی میں برتی جا سکتی ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ چشمہ میں ایٹمی بجلی گھروں پہ کتنا روپیہ آپ نے لگایا ہے اور اس سے کیا حاصل ہوا؟ وہ الخالد ٹینک کے بارے میں سوالات کرتے رہے۔
یقین ہی نہ آیا۔ اب بھی نہیں۔ پھر انہوں نے کہا: میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ وزیر خزانہ چلے جائیں گے۔ شوکت ترین اور ہارون اختر کے نام زیر غور ہیں۔ عرض کیا: اس کی تو تردید ہو چکی۔ بولے: اس سے کیا ہوتا ہے۔یو ٹرن تو ایک سعادت ہے۔
سپیکر پرویز الٰہی نے وزیراعلیٰ سے ملاقات کی ہے۔ اس وقت کیوں جب آئی جی کا تبادلہ ہوا؟ جب یہ کہا جا رہا ہے کہ سپیکر اور گورنر ایک دوسرے کے مدّ مقابل ہیں۔ وزیراعلیٰ اور گورنر کی بول چال بند ہے۔ دعویٰ کرنے والے جب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ برطرفی کے خطرے سے دوچار بزدار صاحب کو پشت پناہی کا یقین دلایا ہے۔ افسر شاہی میں جب اکھاڑ پچھاڑ ہے۔ جب قیادت کسی ایک ہاتھ میں نہیں۔ طاقت اور حکمرانی کا کوئی، محور نہیں۔
بے سمتی، بے سمتی، اس میں افواہیں نہ پھوٹیں تو کیا پھوٹے گا؟ اس میں کنفیوژن نہ بڑھے تو اور کیا ہوگا؟معیشت کی کوئی سمت ہے اور نہ سیاست کی۔ نہیں ، نہیں، کاروبارِ حکومت بہت دن اس طرح نہیں چل سکتا۔ بہت دن خلا نہیں رہ سکتا۔
کسی نہ کسی کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ جن کی ذمہ داری ہے، وہ نہ کریں گے تو کوئی اور کرے گا۔