کوہ نور گول کھنڈ کی کسی کان سے نکلا تھا‘ یہ دنیا کا سب سے بڑا ہیرا تھا‘ وزن 38 اعشاریہ دو گرام تھا‘ بے رنگ تھا لیکن ہر رنگ کو سوگنا بڑھا کر منعکس کرتا تھا‘ یہ مراٹھا راجپوت مہاراجوں سے ہوتا ہوا علائوالدین خلجی تک پہنچا اور پھر یہ بادشاہوں کے ہاتھوں سے پھسلتا چلا گیا‘ خلجی خاندان سے لودھی خاندان میں آیا‘ ظہیرالدین بابر اور ابراہیم لودھی کے درمیان پانی پت میں جنگ ہوئی۔
کوہ نور لودھیوں سے مغلوں کے پاس آ گیا‘ نادر شاہ درانی نے 1739 میں دہلی فتح کیا‘ احمد شاہ رنگیلا بادشاہ تھا‘ بادشاہ نے کوہ نور اپنی پگڑی میں چھپا رکھا تھا‘ جاسوسوں نے نادر شاہ درانی کو اطلاع کر دی‘ درانی نے دربار سجایا‘ احمد شاہ رنگیلا کو سامنے بٹھایا اور ’’ہم دونوں آج سے پگڑی بدل بھائی ہیں‘‘ کا اعلان کر کے اپنی بوسیدہ سی پگڑی احمد شاہ کے سر پر رکھ دی اور اس کی قیمتی ترین پگڑی اتار کر اپنے سر پر سجا لی‘ درباریوں نے واہ واہ‘ سبحان اللہ سبحان اللہ کے نعرے لگائے اور نعروں کی ان آوازوں میں دنیا کے قیمتی ترین ہیرے کی ملکیت بدل گئی۔
یہ مغلوں سے درانیوں میں منتقل ہو گیا‘ 1747 میں نادر شاہ درانی قتل ہو گیا‘ ریاست ایران اور افغانستان دو حصوں میں تقسیم ہو گئی‘ افغانستان احمد شاہ ابدالی کے حصے آ گیا‘ ابدالی نے کوہ نور بھی ہڑپ کر لیا یوں یہ ابدالی خاندان میں چلتا ہوا افغانستان کے آخری بادشاہ شاہ شجاع تک پہنچ گیا‘ شاہ شجاع کو1809 میں جان بچا کر افغانستان سے بھاگنا پڑا‘ یہ 1813 میں پنجاب پہنچا اور راجہ رنجیت سنگھ سے پناہ کی درخواست کر دی‘ رنجیت سنگھ کو کوہ نور کی بھنک پڑ چکی تھی۔
مہاراجہ نے شاہ شجاع سے خود ہی کوہ نور قبول کر لیا‘خانہ بدوش افغان بادشاہ کے پاس رنجیت سنگھ کو ہیرا پیش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا‘ وہ مہاراجہ کی زندگی کا شاندار ترین لمحہ تھا‘ وہ کوہ نور کو ہاتھ میں پکڑ کر دیر تک مبہوت بیٹھا رہا تھا‘ ہوش آئی تو اس نے اس لمحے کو یاد گار بنانے کا فیصلہ کر لیا‘ فقیر عزیزالدین کو مشورے کے لیے طلب کیا گیا‘ وزیر باتدبیر نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا‘ آپ مغلوں کے شہر میں حکمران ہیں‘ آپ کے دائیں بائیں مغلوں کی درجنوں نشانیاں بکھری ہیں‘ آپ ان کے درمیان کوئی اپنی نشانی چھوڑ جائیں‘ مہاراجہ کو آئیڈیا پسند آگیا۔
اس نے اورنگزیب عالمگیر کی بادشاہی مسجد اور اکبر اور شاہ جہاں کے قلعے کے درمیان باغ لگانے اور باغ کے درمیان بارہ دری بنانے کا اعلان کر دیا‘ یہ باغ بعد ازاں حضوری باغ کہلایا‘ بارہ دری بنانے کا کام خلیفہ نورالدین کو سونپا گیا‘ خلیفہ نے بادشاہ سے عرض کیا ’’ حضور بارہ دری کے لیے سنگ مرمر چاہیے اور پنجاب میں سنگ مرمر کی کوئی کان نہیں‘ پتھر کہاں سے آئے گا‘‘ جمعدار خوش حال سنگھ اس وقت مہاراجہ کی عدالت میں موجود تھا‘ رنجیت سنگھ نے اس کی طرف دیکھا‘ خوش حال سنگھ نے ہنس کر عرض کیا ’’حضور لاہور میں سنگ مرمر کی دنیا کی سب سے بڑی کان موجود ہے۔
آپ نے آج تک اس پر توجہ نہیں فرمائی‘‘ مہاراجہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا‘ خوش حال سنگھ نے عرض کیا ’’جناب مغلوں کی ہر عمارت‘ ہر مقبرہ سنگ مرمر کی کان ہے‘‘ مہاراجہ نے قہقہہ لگایا اور خلیفہ نورالدین کو مغل مزارات‘ محلوں اور مسجدوں سے سنگ مرمر نوچ کر بارہ دری بنانے کا حکم دے دیا‘ سکھ فوج گئی اور آصف الدولہ‘ نور جہاں اور جہانگیر کے مقبروں اور موتی مسجد اور بادشاہی مسجد کی محرابوں سے سنگ مرمر اتار اتار کر حضوری باغ میں ڈھیر کر دیا اور خلیفہ نور الدین نے اس سے بارہ دری تعمیر کر دی‘ بارہ دری 45 فٹ اونچی اور تین منزلہ تھی‘ تہہ خانے میں اترنے کے لیے 15 سیڑھیاں نیچے جانا پڑتا ہے‘ درمیان میں بارہ دری ہے اور اس سے اوپر چوبارہ تھا‘ یہ چوبارہ 1932 میں آسمانی بجلی گرنے سے تباہ ہوگیا لیکن بارہ دری اور حضوری باغ آج بھی سلامت ہے‘ یہ راجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی کے بعد لاہور میں سنگھ دور کی واحد علامت ہے‘ رنجیت سنگھ اس میں اپنی عدالت لگاتا تھا۔
میں نے درجنوں مرتبہ دن کے وقت یہ بارہ دری دیکھی‘ مجھے کسی دوست نے بتایا‘ کامران لاشاری نے ایک نیا سیاحتی اینی شیٹو لیا ہے‘ یہ ہر ہفتے کی رات لاہور قلعے اور حضوری باغ کو ’’نائٹ ٹورازم‘‘ کے لیے کھولتے ہیں‘ میں دنیا کے درجنوں تاریخی شہروں کے نائٹ ٹورز لے چکا ہوں‘ میں نے قرطبہ‘ غرناطہ اور سیوا کے قدیم شہروں میں بھی بے شمار راتیں گزاریں اور میںقاہرہ‘ اسکندریہ‘ تانجیر‘ فاس‘ رباط اور مراکش شہر میں بھی راتوں کو پیدل پھرتا رہا اور میں نے پیرس‘ لندن‘ میڈرڈ‘ ایتھنز‘ بخارہ‘ خیوا‘ سمرقند‘ تہران‘ استنبول‘ پیٹرا‘ شیان اور دہلی میں بھی رت جگے کاٹے‘ میں نے تاریخ کو ہر زاویئے سے رات کے سکوت میں اپنے دائیں بائیں سرکتے دیکھا لیکن لاہور کا قلعہ‘ حضوری باغ اور بادشاہی مسجد رات کے وقت کیسی دکھائی دیتی ہے میں اس تجربے سے محروم تھا چنانچہ میں نے اپنے بچوں کو ساتھ لیا اور اولڈ لاہور ایٹ نائٹ کے تجربے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔
یقین کیجیے یہ میری زندگی کے شاندار ترین تجربوں میں سے ایک تجربہ تھا‘ لال شاہ ہمارا گائیڈ تھا‘ شاہ صاحب کا خاندان چار سو سال سے قدیم لاہور کا باسی ہے‘ یہ لوگ پونے دو سو سال سے محرم میں اندرون شہر سے تعزیہ بھی نکالتے ہیں‘ ہم فوڈ اسٹریٹ سے روشنائی گیٹ کے ذریعے حضوری باغ میں داخل ہوئے‘ پورا علاقہ فلڈ لائیٹس سے جگمگا رہا تھا‘ گیٹ پر مغلیہ دور کی یونیفارم میں دربان کھڑے تھے‘ سینے پر ڈھال تھی‘ ہاتھوں میں نیزے تھے‘ سر پر مغلیہ پگڑیاں تھیں‘ تن پر مغلیہ فراک تھے اور پائوں میں کھُسے تھے‘ ہم ایک ہی جست میں چار سو سال پیچھے چلے گئے‘ کمپائونڈ میں روشنائی کے نام پر دو گیٹ ہیں‘ فوڈ اسٹریٹ کا روشنائی گیٹ انگریز دور میں بنا تھاجب کہ مغلوں کے دور کا اصل گیٹ حضوری باغ کی دوسری طرف ہے۔
یہ لاہور کے بارہ دروازوں میں سے ایک تھا‘ یہ مغلیہ دور میں رات کے وقت مشعلوں سے جگمگاتا رہتا تھا‘ گیٹ کے بالکل ساتھ راوی بہتا تھا‘ لوگ کشتیوں کے ذریعے یہاں پہنچتے تھے اور دربانوں کو تلاشی دے کر شہر میں داخل ہو جاتے تھے‘ حضوری باغ میں کارواں سرائے تھی‘ مہمان سرائے میں رہتے تھے اور بادشاہی مسجد کے قریب سے گزر کر شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میں داخل ہو جاتے تھے‘ انگریزوں نے بادشاہی مسجد اور قلعے کے درمیان دیوار بنا کر گیٹ لگایا اور شہر کو قلعے‘ بادشاہی مسجد اور حضوری باغ سے کاٹ دیا‘یہ دیوار اور یہ گیٹ آج بھی قائم ہے‘ ہم نے علامہ اقبال کے اداس مزار پر حاضری دی‘ فاتحہ پڑھی اور چکر کاٹ کر بارہ دری کے قریب پہنچ گئے‘ بارہ دری کی سیڑھیوں پر مغلیہ لباس میں بانسری نواز بیٹھا تھا۔
وہ بانسری کی دھنیں اڑا رہا تھا‘ رات کا وقت‘ اندھیرے اور روشنیوں کا ملاپ‘ اداس اکیلا حضوری باغ اور اس میں بانسری کی لے‘ یہ سب تصویر بن کر دل پر اتر رہا تھا‘ راجہ رنجیت سنگھ بارہ دری میں عدالت لگاتا تھا‘ ہمیں وہاں مہاراجہ اور چوب داروں کے چلنے کی آوازیں آ رہی تھیں یوں محسوس ہوتا تھا مہاراجہ ابھی آئے گا اور ہمیں الٹا لٹکانے کا حکم دے دے گا‘ ہم ڈر کر چل پڑے‘ ہم حضوری باغ سے قلعے میں داخل ہو گئے‘ قلعے کی روشیں‘ دیواریں اور راستے فلڈ لائیٹس سے روشن تھے‘ لاہور قلعے کی مغربی دیوار دنیا کی سب سے بڑی ’’پینٹنگ وال‘‘ تھی۔
مغلوں نے اس پر پچی کاری بھی کرائی تھی اور پکے رنگوں سے تصویری تاریخ بھی لکھوائی تھی‘ یہ دیوار زمانہ برد ہو گئی تھی‘ کامران لاشاری نے یہ دوبارہ بنوا دی‘ میں دیوار کے سامنے رک گیا‘ وقت ابھی تک وہاں رکا ہوا تھا‘ یہ دیوار واقعی عظیم فن پارہ ہے اگر قلعہ نہ ہوتا تو بھی یہ دیوار لاہور کی شناخت کے لیے کافی ہوتی‘ ہماری آخری منزل شیش محل تھا‘ یہ محل بھی شاہ جہاں نے تاج محل کی طرح اپنی محبوب ملکہ ممتاز کے لیے بنوایا تھا‘ محل شروع میں سونے کا بنایا گیا تھا‘ ملکہ کو علم ہوا تو اس نے بادشاہ سے کہا‘سونا چاندی آگرہ میں بھی بہت ہے‘ مجھے ایسا محل چاہیے جس میں تارے ٹنگے ہوں‘بادشاہ بادشاہ ہوتے ہیں۔
شاہ جہاں نے حکم دیا‘ سونے کا محل توڑ دیا گیا اور اس کی جگہ شیش محل بنا دیا گیا‘ محل کے اندر ملکہ کے بیڈ روم اور ڈرائنگ روم کی چھتوں پر چھوٹے چھوٹے شیشے اس کاریگری کے ساتھ جوڑے گئے ہیں کہ آپ ایک دیا جلائیں اور یوں محسوس ہونے لگے گا جیسے تارے آسمان سے اتر کر کمرے میں داخل ہوگئے ہیں‘ تاروں کاتاثر دینے کے لیے چھت سے ہکوں کے ذریعے تیل کے لیمپ لٹکائے جاتے تھے‘ محل کی جالیوں سے ہوا آتی تھی‘ ہوا لیمپوں کو ہلاتی تھی‘ ہلتے ہوئے لیمپوں کی روشنی چھت کے شیشوں میں ہلکورے لیتی تھی اور یوں تارے جگمگ جگمگ کرنے لگتے تھے‘ لال شاہ نے موبائل فون کی لائٹ آن کی اور ملکہ کی چھت پر تارے چمکنے لگے‘ شیش محل میں ممتاز محل کی اداسی بکھری ہوئی تھی‘ ملکہ کبھی اس محل میں داخل نہ ہو سکی‘ وہ 17 جون 1631کو برہان پور میں 14 ویں بچے کی زچگی کے دوران انتقال کر گئی‘ یہ محل اور یہ کمرہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں مائی جنداں کے استعمال میں رہا اور آخر میں انگریز کیپٹن کے قبضے میں چلا گیا۔
شیش محل کے صحن میں ہر ہفتے کی رات کتھک ڈانس کی محفل ہوتی ہے‘ بادشاہ کے لباس میں بادشاہ بھی آتا ہے‘ ملکہ بھی اور دربان بھی‘ شاہی سازندے بھی اور مغلوں کا دور بھی‘ یہ بھی لائف ٹائم تجربہ تھا اور ہمارا آخری وزٹ شاہی باورچی خانہ تھا‘ انگریز نے باورچی خانے کو جیل میں تبدیل کر دیاتھا‘ بھٹو اور جنرل ضیاء الحق دور کی شاہی قلعہ جیل اسی جگہ ’’آباد‘‘ تھی‘ کامران لاشاری نے اسے دوبارہ باورچی خانہ بنا دیا‘ آپ اس میں داخل ہوں تو یہ عمارت بھی آپ کو شاہ جہاں کے دور میں لے جاتی ہے‘ میں باورچی خانے سے نکل رہا تھا تو میں بار بار کہہ رہا تھا‘ کامران لاشاری واقعی کامران لاشاری ہیں‘ ملک میں ان جیسا ایک بھی فنکار بیورو کریٹ موجود نہیں‘ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو ماضی کو حال میں زندہ کرنے کی صلاحیت دے رکھی ہے۔