ملک کے مختلف حصوں میں پولیو کے کارکنوں پر حملوں اور سکیورٹی خطرات کے پیشِ نظر، وفاقی حکومت نے پولیو کے خلاف مہم کے بعض مراحل معطل کردیے ہیں
پولیو کے قطروں میں حرام جانوروں کے اجزا شامل ہیں، یہ امتِ مسلمہ کو بانجھ بنانے کی مغربی، یہودی، ہندو سازش ہے۔ ثبوت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کو یہ قطرے نہیں پلوانا چاہتے ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ قید اور جرمانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔
کیوں اتنے پولیو ورکرز کی موت کے باوجود حکومت بچوں کو یہ قطرے پلوانے پر مصر ہے؟ اس کا مطلب ہے دال میں یقیناً کچھ کالا ہے۔ لہذا اگر میرا بچہ خدانخواستہ پولیو سے اپاہج ہو جائے اور اسے پوری زندگی گھسٹ گھسٹ کر بھی گذارنا پڑ جائے تو سودا مہنگا نہیں۔ اسے اللہ کی رضا اور مصلحتِ ایزدی سمجھنا چاہیے۔
اس بار بھی اگر امامِ کعبہ پاکستان تشریف لائیں تو ان کی امامت میں نماز پڑھنے کی سعادت ضرور حاصل کروں گا مگر پولیو کے قطرے جائز، بے ضرر اور مفید ہونے کے بارے میں ان کے ایک سے زائد فتاوی پر بالکل یقین نہیں کروں گا۔ انسان غلطی بھی تو کر سکتا ہے۔ بھلے امامِ کعبہ ہی کیوں نہ ہوں۔
اس بار جو حجاجِ کرام سعودی عرب جانے والے ہیں وہ پولیو کے قطرے پینے سے انکار کر دیں۔ اگر اس بنا پر سعودی حکومت انہیں ملک میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیتی ہے تو اس کا گناہ سعودیوں کے سر ہو گا۔ کم ازکم ہمارا ایمان تو بچ جائے گا۔
آپ جامعہ الاظہر میں پڑھنے ضرور جائیے۔ اس کے ہر فتوی پر آمنا و صدقنا کہئیے مگر پولیو کے قطرے پلانے کو اگر الاظہر کے مفتی ِاعظم ڈاکٹر محمد طنطاوی مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری قرار دیں تو اس پر یہ سوچ کر کان مت دھرئیے کہ جانے کس مجبوری کے تحت مفتیِ اعظم نے یہ فتوی دیا ہو۔ اللہ مفتیِ اعظم کی اس غلطی کو درگذر فرمائے۔
مسجدِ اقصی کو پنجہِ اسرائیل سے آزاد کروانے کو بے شک اپنے ایمان کا حصہ جانیے مگر مسجدِ اقصی کے امام ڈاکٹر محمد شیخ الصیام نے پولیو کے قطروں کو بچوں کو پلوانے کی جو درمندانہ اپیل کی ہے اسے اسرائیلی دباؤ کا نتیجہ سمجھ کر مسترد کرنا ہر اس شخص کا فرض ہے جو مسجدِ اقصی میں مرنے سے پہلے ایک نماز ضرور پڑھنا چاہتا ہے۔
اور اللہ تعالی معاف کرے دارلعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا سالم قاسمی کو، اور مرکزی جمیعتِ اہلحدیث ہند و جامعہ مسجد دہلی کے امام کو اور درگاہ خواجہ معین الدین چشتی کے سجادگان، اسلامی نظریاتی کونسل، جامعہ سلفیہ فیصل آباد، وفاق المدارس العربیہ پاکستان، جامعہ انوارالعلوم ملتان، علما و مشائخ کونسل پاکستان، جمیعتِ اہلِ حدیث، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، بنوریہ یونیورسٹی سائٹ کراچی، جامعہ العلوم کراچی، مفتی تقی عثمانی اور سینکڑوں دیگر جئید علماِ کرام کو جو آج بھی سمجھتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلوانے میں کوئی خرابی نہیں صرف بھلائی ہے۔
اللہ تعالی ان علما و مدارس اور اداروں کو راہِ راست پر لائے آمین۔
اس بار بھی رمضان اور عید کے چاند کے لیے حسبِ سابق خطیب جامع مسجد قاسم علی خان پشاور مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی شہادت پر روزہ رکھیے گا اور عید بھی منائیے گا مگر پولیو ویکیسن کی افادیت اور اس کے بارے میں پروپیگنڈے پر کان نہ دھرنے کے بارے میں قرآن و احادیث کی روشنی میں مفتی صاحب نے جو فرمایا ہے اس پر کان دھرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ضروری تو نہیں کہ اگر رویت ہلال کے بارے میں مفتی صاحب کی رائے صائب ہو تو ہر معاملے پر ان کی رائے تسلیم کی جائے۔ اور پولیو ویکسین کے بارے میں تو ہرگز نہیں۔
آپ کو یہ بھی کہا جائے گا کہ سوائے افغانستان اور پاکستان تمام مسلمان ممالک پولیو ویکسین کے سبب اس موزی مرض سے نجات پا چکے ہیں۔لہذا دنیا کیا کہے گی اگر پاکستان جو اسلام کا قلعہ ہے وہ ایک وائرس پر بھی فتح نہ پا سکے۔
بعض لوگ آپ کو یہ بتا کر بھی ڈرائیں گے کہ جب 1994 میں انسدادِ پولیو کا پروگرام شروع ہوا تو اس وقت پاکستان میں سالانہ بائیس ہزار بچے پولیو وائرس سے متاثر ہو کر جسمانی طور پر معذور ہو جاتے تھے۔ اس برس اب تک الحمدللہ صرف آٹھ کیسز سامنے آئے ہیں۔اگر انسدادِ پولیو پروگرام پچیس برس پہلے شروع نہ ہوتا تو آج پاکستان میں اس عرصے میں مزید ساڑھے پانچ لاکھ بچے معذور ہو چکے ہوتے۔
یہ سب دلائل فضول ہیں۔ اگر میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے زندگی بھر خدانخواستہ گھسٹ گھسٹ کر چلیں تو آپ کون ہوتے ہیں مجھے سمجھانے والے۔ کیا آپ میرے بچے کو مجھ سے زیادہ چاہتے ہیں؟