ہاں! ان کے سوا جنہوں نے بھید کو پا لیا۔ اضطراب سے کسی کو چھٹکارا نہیں۔ ان کے سوا جو اٹھتے بیٹھتے اور پہلوئوں کے بل لیٹے مالک کو یاد کرتے رہے ہیں۔ فراغ انہی کے لیے ہے، اس دنیا میں بھی!
ایک زخم آج برادرم خاور نعیم ہاشمی نے لگایا کہ 43 برس پہلے کا ایک خط چھاپ دیا، جو ان کے گرامی قدر والد کی وفات پر لکھا گیا تھا۔ وہ آدمی جس کی لکھی نعت آج بھی کانوں میں رس گھولتی اور دامانِ رحمت کی یاد دلاتی ہے۔ ع
شاہِ مدینہ! یثرب کے والی
دوسرا یار عزیز خالد مسعود خان ہے، کسی کیپٹن کے تذکرے میں لکھا: یہ ہارون الرشید والا کپتان نہیں۔ فراقؔ یاد آئے۔
شام بھی تھی دھواں دھواں دل بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔ تیسرا محترم اشتیاق آسی کا۔ ان سے پیمان کیا تھا کہ کسی دن ریل کی حالتِ زار پہ تفصیل سے بات کریں گے۔ یاد دلانے کے لیے وہ فون کرتے ہیں۔ شرم کے مارے سنتا نہیں کہ ایک پورے دن کی تاب و توانائی کہاں سے لائوں۔ رکو میرے بھائی کسی دن آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔ ہاتھ باندھے خود ہی حاضر ہوں گا۔
سنبھلنے دے مجھے اے ناامیدی کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
جنرل اشفاق پرویز کیانی سے میں بگڑتا کہ چپ ہی سادھ لی۔ کہاں وہ دنیا بھر کے دھندے اور کہاں اس قدر سکوت۔ ایک بار تو یہاں تک کہہ دیا کہ کیوں نہیں گدڑی پہن کر داتا دربار جا بیٹھتے۔ اس پر انہوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی کا وہ جملہ دہرایا، جو کبھی ناچیز ہی نے ہی عرض کیا تھا۔ 1971ء میں امیر جماعت اسلامی کی حیثیت سے، ان کے آخری انٹرویو میں ایک سوال کا جواب ”جماعت کی امارت سے میں ریٹائر ہوں، زندگی سے نہیں‘‘۔
گراں بار فرائض کے آخری دن تھے۔ جنرل صاحب نے یاد کیا، خلافِ معمول شام ڈھلے، وگرنہ ملاقات ہمیشہ ساڑھے نو بجے رات برپا ہوتی۔ شب کے آخری پہر تک جاری رہا کرتی۔ سخت جان آدمی صرف تین گھنٹے سوتا ہے یا دن میں ایک ذرا سا وقفہ۔ کہا: میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب اخبار پڑھوں گا اور نہ ٹیلی ویژن دیکھوں گا۔ صاحبزادی سے میں نے وعدہ کر لیا ہے۔ جو جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ جنرل مزدوروں کی طرح کام کیا کرتا۔ سلیقے سے کرب سہتا اور سلیقے سے فرائض انجام دیتا۔ اب یہ خیال ہوتا ہے کہ انہوں نے بالکل درست فیصلہ کیا۔ رفتہ رفتہ اگرچہ کچھ معمولات بحال کر لئے۔ مجھے تو یہ بتایا کہ خاکسار کا کالم پڑھتے ہیں، پھر بھتیجے بلال الرشید کا بھی دیکھنے لگے، جو ذاتی معاملات میں بھی ان سے مشورہ مانگتا۔ کچھ دن بعد فرمائش کی: خورشید ندیم سے ملوا دیجئے۔ ایک دن کہا: خالد مسعود خان سے بات کرنے کو جی چاہتا ہے۔ تب عرض کیا: ادبیات سے آپ کو شغف ہے، اظہارالحق کو بھی پڑھا کیجئے۔
افتخار عارف سے اردو ادب کی سو منتخب کتابوں کی فہرست بنوائی۔ کیا خوبصورت لائبریری ہے۔ ایک دن ممتاز مفتی کا باقی رہنے والا ناول ”علی پور کا ایلی‘‘ نکال کر دکھایا۔ بتایا کہ چار عشرے قبل یہ کتاب خریدی تھی۔ میں دنگ رہ گیا، نئی کی نئی۔ پھر بتایا کہ یہ ہنر انہوں نے کہاں سے سیکھا ہے۔ کیا اہتمام اس کے لیے کیا جاتا ہے۔
پوچھا کہ پورا دن وہ کیسے بتاتے ہیں۔ بولے: کرنے کے بہت سے کام ہوتے ہیں۔ پوتے سے باتیں کرتا ہوں، گالف کھیلتا ہوں، کتابیں پڑھتا ہوں، دوستوں سے ملتا ہوں۔ بے شک تنہائی کو آباد کرنے کے سو قرینے ہیں، مگر تنہائی میّسر بھی ہو، سلیقہ بھی میّسر ہو۔
گہری نیند میں تھا کہ کسی نے کواڑ کھٹکھٹا دیا۔ نمازِ فجر کے ہنگام سوتا ہوں۔ بڑے بھائی تھے، جو رحیم یار خاں سے آئے تھے۔ لمبی نیند مگر کوشش کرتا ہوں کہ ایک ذرا سی کسر باقی ہو تو اٹھ بیٹھوں۔ وہ تین گھنٹے اخبار پڑھوں، بروقت کالم لکھوں اور ایک بار پھر پندرہ بیس منٹ کے لیے آنکھیں موند لوں۔ آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تازہ تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ آدمی کو دو بار سونے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
سرکارؐ یاد آئے جو قریباً شب بھر جاگتے دوپہر میں ہمیشہ مختصر سا قیلولہ کیا کرتے۔ سید احمد سرہندیؒ کا کہنا یہ ہے ”اطاعتِ رسولؐ میں خواب نیم روز قیام الّیل سے بہتر ہے‘‘۔
لازمی طور پر زندگی ایک ترتیب چاہتی ہے۔ وہ ترتیب ہی کبھی قائم نہ ہو سکی۔ ریگ زاروں، بیابانوں اور خیالات کے جنگلوں میں بیت گئی۔ اب کچھ ٹھہرائو ہے تو تکان دم لینے نہیں دیتی۔ کام کاج ہے، تقاریب ہیں اور نئی کتابوں کے لیے دیباچوں کی فرمائش۔ یہ آخری کام سب سے زیادہ ادق۔ معذرت کرتا ہوں مگر ایسے بھی ہیں کہ مان کر نہیں دیتے۔
اپنے سوا شکوہ بھی کس سے ہو؟ کون سی نعمت ہے جو اللہ نے عطا نہ کی تھی۔ مگر مگر
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جُڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے، مجھے کھا گئے
اللہ کا شکر ہے کہ ہزار بے قاعدگیوں کے باوجود، اس عمر میں صحت اچھی ہے۔ پہلے سے بہر حال بہتر۔ اکثر کو کہولت میں بلڈ پریشر، ذیابیطس یا قلب کا عارضہ لاحق ہوتا ہے۔ ان سب سے اللہ نے بچا رکھا ہے۔ بے قاعدگی ہی سہی، آدھی ادھوری ورزش بھی کر لیتا ہوں۔ اب یہ احساس مگر شدید ہونے لگا ہے کہ پچاس برس کی عملی زندگی گزارنے کے بعد، کوئی دن فرصت کے بھی چاہئیں۔ یورپ کے مرغزاروں سے پیغام پہ پیغام چلے آتے ہیں مگر جا نہیں سکتا۔ نور نظر نے لکھا کہ رمضان المبارک کے دن گلاسگو میں گزار لیجئے۔ مگر افسوس۔
خالد مسعود خان پہ ر شک کرتا ہوں کہ گھوڑے پہ سوار مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک دوڑتے پھرتے ہیں۔ پچھلے دنوں ریل سے برما اور پھر موٹر سائیکل پر تھائی لینڈ کے منصوبے کی تفصیل بیان کی۔ ایمان کی تو یہ ہے کہ میں کانپ گیا۔ اجنبی دیار، تنہائی اور یہ جسارت۔ اس آدمی کو اللہ نے کیا پتھر کا کلیجہ دیا ہے۔
طلسم خوابِ زلیخا و دام بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
کچھ دن کے لیے اپنے دوست عدالت خان کے ہاں سوات جانا چاہتا ہوں۔ آڑو کے باغات میں پھول کھلے تو سندیسہ بھیجا کہ خود اسلام آباد سے آ کر مجھے لے جائیں گے۔ اپنی پیاری مرسڈیز میں جو کچھ پرانی ہے مگر فرّاٹے بھرتی ہے۔ وہ بھول گئے تو یاد نہ کرایا۔ کس برتے پہ کراتا؟ ہجوم کار ہے اور ان میں سلجھائو پیدا کی ناکام کوشش۔
ہر روز کالم، کبھی اس کے ساتھ ٹی وی پروگرام۔ فیض احمد فیضؔ نے لکھا ہے: ایک قاری کبھی یہ اندازہ نہیں کر سکتا کہ کتنے بے شمار مترادفات لکھنے والا مسترد کرتا ہے۔ فیضؔ بڑے آدمی تھے۔ آئندہ زمانوں پہ اپنا نفس چھوڑ گئے۔ ہم کہاں کے دانا ہیں، کس ہنر میں یکتا ہیں مگر سیاستدانوں کے بیانات اور ان کے مداحین کرام کے کوثر و تسنیم سے دھلے جملوں میں سے، سچائی، صداقت تلاش کرنے کی کوشش کم جاں گسل نہیں۔
سکردو شہر آواز دیتا ہے۔ شہر سے بائیس کلومیٹر کے فاصلے پر وادیوں میں سے ایک وادی ہے‘ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خاک داں میں فردوس بریں کی یاد دلاتی ہے۔ ہر جانب پہاڑ، پہاڑوں کے دامن میں باغ۔ باغوں کے بیچ میں جھیل، جھیل میں تیرتی خوش رنگ مچھلیاں۔ کناروں پہ گھاس اور گھاس کے تختوں میں بہتے چھوٹے چھوٹے جھرنے اور موزوں فاصلوں پر لکڑی سے تراشی گئی آرام گاہیں۔ کہیں قرار نہیں، کہیں قرار نہیں۔
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
ہاں! ان کے سوا جنہوں نے بھید کو پا لیا۔ اضطراب سے کسی کو چھٹکارا نہیں۔ ان کے سوا جو اٹھتے بیٹھتے اور پہلوئوں کے بل لیٹے مالک کو یاد کرتے رہے ہیں۔ فراغ انہی کے لیے ہے، اس دنیا میں بھی!