92 نیوز پر چلنے والی اس خبر سے من کا برہما شانت کر دیا۔ دلِ زار نے ہجومِ بلا کے فسانے تو بہت کہہ لیے ، اب کچھ جامِ فرحت فزا کی بات ہو جائے؟
یہ فیصل آباد کی ایک دکان کا منظر ہے ۔ دکان اتنی بڑی نہیں مگر تاجر کا دل کشادہ ہے ۔ اعلان عام ہے : عید کے لیے بچوں کے کپڑے رکھے ہیں ، جو خرید سکتا ہے خرید لے جو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا وہ مفت میں لے جائے اور اپنے بچوں کی عید میں خوشیاں بھرلے ۔
ایک غریب سا ، حالات کا مارا بچہ ایک سوٹ اٹھا تا ہے اور اس کے وجود میں پھوٹتے جلترنگ میں یہاں میلوں دور بیٹھ کر محسوس کر سکتا ہوں ۔ اس ننھے وجود پر اس لمحے جو خوشی اتری ، کاش بیان کی جا سکتی ۔ ایک ماں کرسی پر بیٹھی ہے ، اس کی ننھی سی بیٹی جا کر ایک فراک پسند کرتی ہے ۔ فراک ہاتھ میں آتے ہی یہ ننھا وجودخوشی سے گویاتتلی بن جاتا ہے ۔ تتلی اڑتی ہوئی ماں کے پاس آتی ہے ۔ کسی کو کیا معلوم کتنے موسم تتلی نے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹا ہو ۔ کون جانے اس دوران ماں پر کیا قیامتیں بیت چکی ہوں ۔
ذرا سنیے یہ بیٹی کیا کہہ رہی ہے : ’’میں نے اپنی مما سے کہا تھا کہ مجھے نا ، مجھے نا ، فراک لے کر دیں ، مما نے کہا میرے پاس پیسے نہیں ہیں‘‘۔ کیا آپ نے غور کیا بیٹی نے یہ سب مما سے کیوں کہا ؟ بابا سے کیوں نہ کہا ؟ شاید وہ یتیم ہو ۔ نوجوان تاجر اسے فراک تھماتا ہے اور بچی کہتی ہے : اللہ انہیں خوش رکھے ۔ تا جر تو یہاں بہت ہوں گے اور اس ماہ مقدس میں دولت بھی کمائیں گے لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا کوئی اس تاجر سا بھی ہو گا ؟ معلوم نہیں یہ تاجر کون ہے ۔ لیکن یہ ہمارا ہیرو ہے۔ہمارے معاشرے کا حقیقی ہیرو۔
یہ ایک اور منظر ہے ۔ رمضان المبارک کا چاند طلوع ہو چکا ہے ۔ شام ڈھل رہی ہے ۔ راولپنڈی سیٹلائٹ ٹائون میں ایک سڑک کنارے میں گاڑی میں بیٹھا ہوں ۔ دائیں طرف ایک گھر ہے ۔ ایک بوڑھی خاتون آتی ہے ، ڈور بیل بجاتی ہے ۔ دروازہ کھلتا ہے اور خاموشی سے اس عورت کو سامان پکڑا دیا جاتا ہے ۔ آٹے کا ایک بڑا سا توڑا ، چینی کا قریبا دس کلو کا پیکٹ ۔ گھی کا ایک بڑا ڈبہ ، جام شیریں کا ایک فیملی پیک، کچھ اور پیکٹ جن میں معلوم نہیں کیا ہے ۔ دینے والا کوئی احسان نہیں جتاتا ۔ خاموشی سے چیزیں بڑھیا کے حوالے کر کے دروازہ بند کر دیتا ہے۔ پھر ایک اور عورت آتی ہے اور یہی عمل دہرایا جاتا ہے ۔ پھر ایک اور ، پھر ایک اور ، پھر ایک اور۔۔۔میں نہیں جانتا یہ کس کا گھر ہے۔ کچھ خبر نہیں دینے والا کون ہے لیکن یہ جو کوئی بھی ہے یہ ہمارا ہیرو ہے۔ ہمارا حقیقی ہیرو۔
ایک کہانی اور سن لیجیے۔ میری اہلیہ گورنمنٹ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔ ان کے کالج میں ایک کام کرنی والی آیا ہیں ۔ یہ ان کی کہانی ہے ۔ ان کا خاوند فوت ہو چکا ہے۔ اپنی بیٹی کو انہوں نے مشکلوں سے میٹرک کرایا ۔ ٹیوشن کے اخراجات برداشت نہ کر سکیں یوں نمبر کچھ کم آئے اور میڈیکل میں داخلہ نہ ہو سکا۔ محلے میں ایک خاتون کو پتا چلا کہ ایک بیٹی کا خواب ٹوٹ گیا ہے۔ایک شام وہ خاتون ان کے گھر گئیں اور کہا یہ بیٹی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے تو یہ بیٹی ڈاکٹر ہی بنے گی ۔ آپ اس کا پرائیویٹ میڈیکل کالج میں داخلہ کروائیں اس کا سارا خرچ ہم دیں گے۔ ماں کالج میں جھاڑو لگاتی رہیں اور بیٹی میڈیکل کے تیسرے سال میں پہنچ گئیں۔
ایک روز اہلیہ نے بتایا ، وہ بچی میڈیکل کے تیسرے سال میں تھی کہ اس کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے والی خاتون کا انتقال ہو گیا ۔ خاتون کی بلندی درجات کی دعا کے بعد پریشانی کے عالم میں میری زبان پر پہلا سوال یہی آیا کہ اب بچی کی تعلیم کا کیا ہو گا ؟ انہوں نے بتایا : تعلیم جاری رہے گی ۔ اس خاتون کی تدفین کے بعد اس کے دونوں بیٹے اس عورت کے گھر آئے اور کہا ہمیں معلوم ہے ہماری ماں آپ کی بیٹی کے تعلیمی اخراجات ادا کر رہی تھیں ۔ آپ نے بالکل گھبرانا نہیں ہے ۔ جو کام ہماری ماں نے شروع کیا تھا ہم اس کام کو رکنے نہیں گے۔ آپ کی بیٹی کے اخراجات پہلے کی طرح آپ تک پہنچتے رہیں گے ۔ آپ کی بیٹی ، اللہ نے چاہا تو ، ضرور ڈاکٹر بنیں گی ۔۔۔۔یہ خاتون کون تھیں؟ ان کے بیٹوں کا نام کیا ہے ؟ وہ کہاں ہوتے ہیں؟ وہ کیا کام کرتے ہیں ؟ مجھے کچھ معلوم نہیں لیکن میں اتنا جانتا ہوں یہ عظیم خاتون اور اس کے یہ عظیم بیٹے ہمارے معاشرے کے ہیرو ہیں۔ ہمارے حقیقی ہیرو۔
برسوں پہلے مسجد عمر میں نماز فجر کے بعد مرحوم حضرت مولانا شہاب الدین نے درس قرآن دیتے ہوئے پوچھا : آپ میں سے کون ہے جو اللہ کو قرض دے ؟ اونگھتے ہوئے مجھے ایک جھٹکا سا لگا ، حضرت جی کو کیا ہو گیا ہے؟ بھلا اللہ کو قرض کیا کیا حاجت ؟ میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ۔ تب انہوں نے وہ آیت پڑھی: ’’ من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا ۔ کون ہے وہ جو قرض دے اللہ کو، قرض حسنہ ؟ اس آیت کو ہم سمجھ ہی نہیں پائے۔ جنہوں نے سمجھ لیا فلاح پا گئے۔ نجات پا گئے۔ یہی اس معاشرے کے ہیرو ہیں۔ انہی کے دم سے معاشرے کا وجود باقی ہے۔ انہی کی وجہ سے سماج میںخیر کا جذبہ زندہ ہے۔انہی کے دم سے معاشرہ قائم ہے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ مستعار لوں تو یہی لوگ زمین کا نمک ہیں۔
ایسے بے شمار ہیرو ہمارے ارد گرد بکھرے پڑے ہیں ۔ انہیں پہچانیے ۔ان کی قدر کیجیے ۔ان سے سیکھیے ۔ یہ جس مخلوق کو ہم نے ہیرو بنا رکھا ہے یہ رانگ نمبر ہے ۔ یہ آٹے کی ایک بوری ایک دفعہ دے کر تصویر کاآزار ساری عمر کے لیے غریب کی چوکھٹ پر لٹکا جاتی ہے ۔ قومی خزانے سے ایک مرلے کا کام کراتی ہے اور چار کنال کے بورڈز اپنی تعریف میں لگا دیتی ہے۔ معاشرہ اگر اپنی تعمیر چاہتا ہے تو اسے اپنے حقیقی ہیروز کی قدر کرنا ہو گی اور رانگ نمبرز کو ان کے مقام پر رکھنا ہو گا۔
ماہ مقدس کا نصف بیت گیا. سوال بہت سادہ ہے. من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا؟