مجھے ہرگز خبر نہیں کہ شہباز شریف نے ذاتی طورپر اس واقعہ کو کیسے لیا ہوگا۔ گزشتہ جمعہ کی سہ پہر قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھے ہوئے البتہ میں اس وقت بہت حیران ہوا جب لاہور سے منتخب ہوئے جواں سال حماد اظہر نے جواِن دنوں ریونیو کے وزیر بھی ہیں اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے قائد حزب اختلاف کے بارے میں انتہائی سخت فقرہ کستے ہوئے انہیں تقریر سے روکنے کی کوشش کی۔
شہباز شریف محض ’’دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف‘‘ والی نگاہ ڈالتے ہوئے اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری دریں اثناء ایوان کو ’’پُرسکون‘‘ بنانے کی کاوشوں میں مصروف رہے۔ حکومتی بنچوں نے ان کی نیم دلانہ استدعا پر قطعاََ توجہ نہیں دی۔ قائد حزب اختلاف پارلیمانی روایات کے مطابق عمران حکومت کے تیار کردہ پہلے بجٹ پرایک تفصیلی تقریر کے ذریعے ایوان میں اس کے بارے میں عام بحث کا آغاز نہ کر پائے۔مجھے سوفیصد یقین ہے کہ حکومتی اراکین بلاول بھٹو زرداری کو بھی بجٹ پر تقریر کی اجازت نہیں دیں گے۔
خواجہ آصف جیسے دبنگ،تجربہ کار اور بلندآواز رکن اسمبلی کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال بھی پیش کردہ بجٹ کے ان نکات کو اجاگر نہیں کر پائیں گے جن کے اثرات کو میرے اور آپ جیسے تنخواہ دار یا چھوٹے کاروبار سے متعلق افراد اپنے ذرائع آمدنی کی محدودات کے سبب برداشت کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔تحریک انصاف کی حکومت بہت سوچ بچار کے بعد اپنا ئی حکمت عملی کے ذریعے اس امر کو یقینی بنانے پر تلی بیٹھی ہے کہ اپوزیشن ارکان کو اس کے پیش کردہ بجٹ پر تفصیلی تقاریر کا موقعہ فراہم نہیں کیا جائے گا۔ آصف علی زرداری کو کسی صورت ’’پروڈکشن آرڈر‘‘ والی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیب کی حراست سے ایوان میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
چند روز قبل سندھ سے تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں پر مبنی اراکین قومی اسمبلی کے ایک وفد کی وزیر اعظم سے ایک طویل ملاقات ہوئی ہے۔یہ تمام اراکین یکسو ہوکرعمران خان صاحب کو قائل کرتے رہے کہ آصف علی زرداری کو ’’ڈھیل‘‘ ملی تو وہ ’’سب پہ بھاری‘‘ نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔وزیر اعظم نے انہیں اطمینان دلایا کہ ڈھیل کی گنجائش موجود نہیں۔بعدازاں ایک ٹویٹ کے ذریعے انہوں نے شاعرانہ اشاروں وکنایوں میں لوگوں کو اس امرپر قائل کرنے کی کوشش بھی کی کہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو پروٹوکول فراہم کرنے والی روایت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور غوث بخش مہر جیسے اتحادیوں کو حوصلہ دینے کے لئے انہوں نے مذکورہ میٹنگ میں ’’جلدہی‘‘ سندھ کا تفصیلی دورہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مجھے خبر نہیں کہ اس دورے کا آغاز اسی ماہ میں ہوگا یا وزیر اعظم بجٹ پاس ہوجانے کے بعد سندھ میں رابطہ عوام مہم کا آغاز کریں گے جس کا حتمی مقصد نظر بظاہر مراد علی شاہ کی زیر قیادت بنائی صوبائی حکومت سے نجات کی راہ ڈھونڈنے کے سوا اور کچھ ہو نہیں سکتا۔اس کالم کا آغاز مگر حماد اظہر کے ذکر سے ہوا ہے۔موصوف سے میری بالمشافہ ملاقات ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ٹیلی وژن پروگراموں میں حصہ لیتے ہوئے لیکن وہ اعدادوشمار کی بنیاد پر ٹھوس دلائل تیار کرتے ہوئے اپوزیشن کے پرخچے اُڑاتے سنائی دئیے۔ ذاتی حملوں سے انہوں نے ہمیشہ گریز کیا۔کابینہ کا حلف برداررکن نہ ہوتے ہوئے عمران حکومت کے پہلے بجٹ کے اصل خالق ڈاکٹر حفیظ شیخ اپنی ’’تخلیق‘‘ کو قومی اسمبلی میں تقریر کے ذریعے پیش نہیں کرسکتے تھے۔یہ فریضہ حماد اظہر نے سرانجام دیا۔ پہلی بار قومی اسمبلی میں ایک اہم ترین تقریر کرتے ہوئے قطعی ہڑبونگ کے ماحول میں ایک طولانی مسودہ پڑھتے ہوئے حماد اظہر نے ایک لمحے کو بھی گھبراہٹ نہیں دکھائی۔
اپنی تقریر کو بہت اعتماد سے مکمل کیا۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ ان کے دائیں ہاتھ والی نشست پر رعونت بھری لاتعلقی سے براجمان رہے۔ مجھے دُکھ ہوا کہ حماد اظہر کو ایک مشکل ترین فریضہ خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کے بعد ان کے سینئر ہوتے ہوئے شاباشی والی تھپکی سے بھی نہیں نوازا۔شہباز شریف کو بجٹ کے بارے میں تقریر سے روکنے کے لئے حماد اظہر نے لیکن جمعہ کی سہ پہر جو فقرہ انتہائی طیش میں کسا اس نے مجھے حیران سے زیادہ پریشان کیا۔ میاں اظہر کے جواں سال فرزند کے رویے نے میری اس سوچ کی ٹھوس انداز میں تصدیق کردی کہ سیاست نے ہمارے معاشرے کو اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم کردیا ہے۔لاہور کی گلیوں میں ’’آنکھ کا لحاظ‘‘ ہر شخص اپنانے پر مجبور ہوا کرتا تھا۔ میں اپنے ماں باپ کے سامنے جوان ہونے کے بعد سگریٹ پینا شروع کرچکا تھا۔
اپنے قدیمی محلے کے بازار اور گلیوں سے گزرتے ہوئے لیکن میں آج بھی سگریٹ سلگانے کی جرأت سے محروم ہوں۔وہاںموجود بزرگوں،خاص طورپر بوڑھی عورتوں کی ممکنہ ڈانٹ ڈپٹ سے خوف آتا ہے۔قومی اسمبلی سے گھر لوٹتے ہوئے میرے ذہن میں 1999کی جنوری کا وہ دن یاد آگیا جب حماد اظہر کے والد میاں اظہر قومی اسمبلی کے دوسرے فلور پر لگی لفٹوں کے سامنے کھڑے میرے وہاں سے گزرکر پریس گیلری جانے کا بے تابی سے انتظار کررہے تھے۔ لاہور سے تعلق رکھنے کے سبب ہم دونوں ایک دوسرے کے خاندانی پس منظر سے بخوبی آگاہ تھے۔ میاں اظہر سے بالمشافہ ملاقات مگر نہیں ہوئی تھی۔ان دنوں میں ایک انگریزی اخبار کے لئے پریس گیلری والا کالم لکھا کرتا تھا۔
اس کالم میں تواتر کے ساتھ میں نے لکھنا شروع کردیا کہ نواز شریف کی جماعت کے چند ممکنہ ’’باغی‘‘ میاں اظہر کی چھتری تلے جمع ہوناشروع ہوگئے ہیں۔وہ جب قومی اسمبلی میں تشریف لاتے ہیں تو حکومتی بیک بنچوں پر ان کے گرد حکومتی اراکین کا جمگھٹا لگ جاتاہے۔مجھے دیکھتے ہی میاں اظہر نے میرا نام لے کرپکارا اور ایک کونے میں لے گئے۔ وہاں سرگوشیوں میں انہوں نے مجھے مطلع کیا کہ میں جب بھی اپنے کالم میں ان کا ذکر کرتا ہوں تو اس کے چھپنے کے فوری بعد انہیں نواز شریف کے والد کا فون آجاتا ہے۔میں نے رپورٹروں والی ڈھٹائی اختیار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا میں اپنی تحریروں کے ذریعے من گھڑت تاثر پھیلارہا ہوں۔
میاں اظہر نے فوراََ جواب دیا کہ ان کے لئے نواز شریف کی ’’چالاکیاں‘‘ برداشت کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ان کے والد مگر ’’میرے والد کی جگہ ہیں۔ان کا دل دکھانے کی ہمت مجھ میں موجود نہیں‘‘۔یہ فقرے کہنے کے بعد انہوں نے لاہوری انداز میں اپنے ہاتھ باندھتے ہوئے مجھ سے درخواست کی کہ میں ان کا ذکر اپنے کالموں میں کرنا چھوڑدوں۔ میں نے اجتناب برتنے کا وعدہ کیا اور اس پر قائم بھی رہا۔گزشتہ جمعہ کے روز حماد اظہر کی جانب سے کسے فقرے کی بدولت مگر میں نے دریافت کر لیا ہے کہ لاہور سے منسوب ’’آنکھ کا لحاظ‘‘ اب قصۂ پارینہ ہے۔ یقین مانیں جی مچل رہا ہے کہ آئندہ چند دنوںمیں اگر لاہور جانے کا اتفاق ہوتو اس محلے میں جائوں جس کی گلیوں میں جوان ہوا تھا۔ سرجھکا کر چلتے ہوئے سگریٹ سلگائوں اور انتظار کروں کہ مجھے وہاں موجود بزرگ،خاص کر کوئی بوڑھی خاتون اس گستاخی پر کب ڈانٹے۔ یاشاید کوئی بھی نہ ڈانٹے۔