کئی چیزیں آشکار ہوتی جا رہی ہیں۔ سب سے نمایاں یہ کہ ملک میں سیاسی خلا پیدا ہو چکا ہے۔ حکومت نام کی چیز تو ہے‘ لیکن فیصلہ سازی یا حکمت عملی کی کمی کی وجہ سے سیاسی محاذ پہ پُر اثر حکمرانی کا فُقدان ہے۔ جیسا کہ کور ے سے کورا آدمی سمجھتا ہے‘ خلا زیادہ دیر برقرار نہیں رہتا۔ جہاں ڈھلوان ہو پانی نے وہاں جانا ہے۔
دوسرا یہ کہ معاشی بحران تو ہے ہی لیکن ہمارے جیسے ملکوں میں جب بین الاقوامی معاشی اداروں، یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نسخہ جات استعمال کیے جاتے ہیں تو سیاسی محاذ پہ اُن کا لازمی جزو ایک مصر جیسی حکومت ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ کڑوی دوا لینے کیلئے موافق سیاسی نظام بھی ضروری ہوتا ہے۔ یعنی مضبوط آدمی یا جسے ہم مردِ آہن کہتے ہیں‘ والا نظام۔ 1973ء میں جب چلی میں فوجی بغاوت ہوئی اور اُس ملک میں آئی ایم ایف کے نسخہ جات استعمال ہونے لگے تو جنرل پنوشے کی مردِ آہن حکومت نے سازگار حالات مہیا کیے۔ جو صورتحال پچاس سال پہلے چلی میں تھی ویسی ہی صورتحال مصر میں آج روا ہے۔ مصر کے جنرل پنوشے فیلڈ مارشل عبدالفتاح السیسی ہیں اور وہ مصر میں وہی کر رہے ہیں جو اتنے سال پہلے چلی میں جنرل پنوشے نے کیا تھا۔
پاکستان میں جمہوری ادارے قائم ہیں۔ آئین بھی قائم ہے اور کم از کم کاغذ کی حد تک بنیادی حقوق بھی موجود ہیں۔ لیکن معاشی صورت حال ابتر ہے اور وہ ملک کو ایک خطرناک سمت کھینچے جا رہی ہے۔ اس صورتحال کا ادراک کرنے کے لئے کوئی بیک گراؤنڈ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ پچھلے انتخابات‘ یعنی 2018ء والے‘ کئی لحاظ سے منفرد نوعیت رکھتے تھے۔ انتخابات بظاہر تو قاعدے قانون کے مطابق ہوئے لیکن تمام صورتحال میں کچھ انوکھی ادائیں بھی دیکھی گئیں۔ انتخابات کے تمام مراحل پورے ہونے تک چند محکموں کی کارکردگی کلیدی حیثیت کی رہی۔ ان میں سرفہرست وہ محکمہ تھا جسے محکمہ زراعت کا لقب ملا۔
یہ تب ہوا جب ایک الیکشن کے امیدوار راتوں رات غائب ہو گئے اور چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ فلاں یا فلاں ادارہ اس صورتحال کا ذمہ دار ہے۔ دوسرے یا تیسرے روز جب امیدوار منظر عام پہ آئے تو انہوں نے تمام چہ میگوئیوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے کرائے کا کوئی مسئلہ محکمہ زراعت سے چل رہا تھا‘ اور اُسی محکمے کے افراد انہیں لے گئے تھے۔ الیکشن پراسیس کے دوران اسلام آباد میں چند مخصوص ٹھکانوں پہ بہت مصروفیات دیکھی گئیں۔ لیڈران آتے اور جاتے تھے ۔ کئی خوش قسمتوں کو اُن ڈیروں پہ جانے کا اعزاز حاصل ہوا ہوگا۔ حافظے کی کمزوری ہمیشہ لاحق رہی ہے لہٰذا پکی بات تو یاد نہیں لیکن خیال آتاہے کہ اُس راستے سے شاید ہم بھی گزرے ۔
بہرحال جو بھی ہوا وہ جو جنرل ضیاء الحق مرحوم کہا کرتے تھے کہ الیکشن کا عمل بے سود ہے جب تک مثبت نتائج حاصل نہ ہوں، تمام کاوشوں کے نتیجے میں الیکشن 2018ء کے مثبت نتائج ہی برآمد ہوئے ۔ اوراُن مثبت نتائج کا ہی نتیجہ ہے کہ جناب عمران خان ملک کے وزیراعظم ہیں۔ مثبت نتائج کا المیہ البتہ ہمیشہ رہتاہے کہ پہلے سے اِس یقین کا اہتمام مشکل ہوتاہے کہ تیار کردہ کارتوس چلنے والا ہے یا ٹھس ہوکے رہ جائے گا۔ میر ظفر اللہ جمالی بھی تو اپنے زمانے میں وزیراعظم بنائے گئے تھے لیکن ان کی کارکردگی ٹھس ہی رہی۔ یہاں بھی یہ اندیشہ ٔ دوردراز پید ا ہوچکاہے کہ پچھلے سال کی تمام کوششوں اورآنیاں جانیاں کے نتیجے میں بننے والی حکومت بھی ٹھس ہوتی نظر آرہی ہے ۔
اس اندیشے سے ایک بنیادی مسئلہ جنم لے رہاہے ۔ آئی ایم ایف کی کڑوی دوا لینے کیلئے ٹھس ہوجانے والی حکومت سے کام نہیں لیاجاسکتا۔ اس طبعی کورس کیلئے مرد ِ آہن والی حکومت ضروری ہوتی ہے ۔یہ کام جناب عمران خان سے نہیں ہو رہا۔ معاشی ٹیم انہیں بدلنی پڑی ہے اورایک نئی معاشی کونسل بھی بن چکی ہے جس میں عسکری نمائندگی کو یقینی بنایاگیا ہے ۔ علاوہ ازیں چند ماہ میں کچھ اہم فیصلے بھی ہونے کو ہیں۔ اس تناظر میں جو خطۂ چکوال کو حالیہ اعزاز حاصل ہواہے وہ اہمیت اختیار کرجاتاہے ۔
یہ اعزاز ہمیشہ سے اہم رہا ہے اورحالیہ سالوں میں کچھ پہلے سے بھی زیادہ۔ جنرل مشرف غلطی کر گئے تھے جب اُنہوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو آبپارہ اورگردونواح کا کمانڈر بنا دیاتھا۔ گزرے ہوئے حالات پہ نظر ڈالیں تو یہ کہا جاسکتاہے کہ اگر یہ فیصلہ مختلف ہوتا تو جنرل مشرف کے خلاف اُٹھنے والی وکلا تحریک شاید کامیابی سے ہمکنار نہ ہوتی۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جنرل کیانی نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو شہ دی اور جسٹس صاحب کو وہیں سے کچھ حوصلہ افزائی ملی ۔ اپنے لئے دوسری بڑی غلطی جنرل مشرف نے تب کی جب انہوں نے انہی کو بطور آرمی چیف چن لیا۔ جنرل کیانی کے آرمی چیف بنتے ہی جنرل مشرف کی پوزیشن کمزورہوگئی۔جب آصف علی زرداری کی سربراہی میں اُن کے خلاف مخالف سیاسی قوتیں کھڑی ہوئیںتو وہ بے بس نظر آئے ۔ اوراُن کیلئے ایوان صدر چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ تاریخ کے یہ اوراق پلٹنے کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ ہماری سیاست میں مقتدرہ حلقوں کا بڑاعمل دخل رہتاہے۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ آبپارہ میں حالیہ تبدیلی خاصی اہمیت کی حامل ہے ۔
عقلمندوں کے لئے اشارے ہی کافی ہونے چاہئیں۔ میاں رضا ربانی اپنے سیاسی سفر کے آغا ز میں فخریہ انداز میں اپنے آپ کو مرحوم عبدالحفیظ پیرزادہ کا معتمدِخاص کہلواتے۔ یہ پرانی بات ہے لیکن اُس زمانے کے لوگ اِس سے بخوبی واقف ہوں گے ۔ میاں رضا ربانی کا ذکرمماثلت بیان کرنے کیلئے کیا ۔ حالیہ تبدیلی کا یہ فیض جس کسی کو ملا ہے ‘ ان کی حیثیت یقیناً معتمد ِ خاص کی ہے۔ دوران ملازمت اہم پوزیشنوں پہ ان کے ہمراہ رہے ہیں۔ موجودہ اعزاز کو یوں سمجھیے کہ وہ اس اعتمادکی معراج ہے ۔ تو پھر سوال اُٹھتاہے کہ چند ماہ میں جو فیصلے ہونے ہیں وہ نارمل حیثیت کے ہوں گے…یعنی ایک بڑے صاحب گئے اور دوسرے آگئے… یا ہنگامی نوعیت کے بھی ہوسکتے ہیں ۔
کیونکہ جیسے اوپر عرض کیا اُفقِ سیاست میں خلا پیدا ہوچکاہے اور معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے جو طبعی کورس ناگزیر سمجھا رہاہے اس کیلئے بھی ایک خاص قسم کی حکمرانی درکار ہے۔ مدعا بیان کرنے کی کوشش میں میری اردو اس سے اوپر پرواز نہیں کرسکتی ۔ یہ والی اردو میں ساری عمر لکھ نہیں سکا ۔ لیکن موجودہ معاملات ہی ایسے ہیں کہ لُغتِ بابائے اردو مولوی عبدالحق کا سہارا لینا پڑتا ہے جس کی ایک ادنیٰ سی مثال آپ نے ملاحظہ کی ہوگی۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حالیہ تبدیلی مستقبل کے تناظر میں ہی سمجھ آسکتی ہے ۔ اگر اس کے کچھ معنی ہیں تو وہ بھی مستقبل کے سانچے میں ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔ بنیادی مسئلہ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت سہاروں پہ چل رہی ہے ۔ سال کے آخر تک یہ پتہ چل جائے گا کہ سہارے برقرار رہتے ہیں یا سہارا دینے والوں کی سو چ میں کچھ تبدیلی آتی ہے۔ چیف جسٹس صاحب بھی کیا کہہ گئے ہیں ؟کہ کہیں سے اچھی خبر نہیں آرہی ماسوائے عدالتی محاذ کے۔ عدالتی محاذ پہ ماضی قریب میں یقیناً بہت کام ہوا مگر عسکری محاذ کا ذکر نہ کرکے بات ادھوری رہ گئی۔ ذمہ دار حلقوں کا خیال ہے کہ قوم کو اگر کہیں سے سہارا مل رہاہے تو افواج پاکستان سے ۔ یہی صورتحال رہی توخلاوالا مسئلہ زیادہ گمبھیر صورت اختیار کرجاتاہے۔
بہرحال ہمارے گاؤں نزدیک ہیں پرانے تعلقات بھی ہیں ۔ میں نے رسماً مبارکباد WhatsApp پہ دے دی۔ اور رسماً کہا کہ بڑا اچھا فیصلہ ہے ۔ دیکھتے ہیں یہ گزرتا ہوا سال کس سمت ڈھلتاہے ۔