قوم کے وسیع تر مفاد میں

اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس سے کچھ لوگ مایوس بھی ہوئے۔ لوگوں کو اس کانفرنس سے توقعات تھیں کہ اس کے نتیجے میں ان پر آنے والی افتاد سے کسی طرح نجات ملے گی مگر آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے میں حکومت پر تنقید تو بہت کڑی کی گئی مگر عملی اقدامات کی طرف کم ہی اشارے ملے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ہر جماعت کے سربراہ نے حکومت کی بری کارکردگی پر دل کھول کر تنقید کی۔

ہوشربا مہنگائی کا بھی بارہا ذکر ہوا، ڈالر کی بڑھتی قیمت، روپے کی گرتی قدر اور معاشی بحران کا بھی ذکر کیا گیا۔ یہ وہی سب کچھ ہے جس کا ذکر ہم روز کے اخباروں میں پڑھتے ہیں، یہی ذکر ہر خبر نامے میں ہو رہا ہوتا ہے تو پھر اس ساری گفتگو کے لئے آل پارٹیز کانفرنس کے جھنجھٹ کی کیا ضرورت تھی؟ اس کانفرنس سے تو لوگ توقع کر رہے تھے کہ اگر حکومت کے خلاف احتجاج کرنا ہے تو اس کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا؟ بتایا جائے گا کہ احتجاج کا مرکز کس شہر کو بنایا جائے؟ کتنے دن تک احتجاج جاری رہے گا؟

اگر اپوزیشن کی جماعتوں نے استعفے دینا ہیں تو اس کی تاریخ کیا ہے؟ اس کے مضمرات اور ثمرات کیا ہیں؟ اپوزیشن کے احتجاج میں نعرہ کونسا لگے گا؟ کون سی جماعت ہراول دستہ بنے گی؟ حکومت کو کیا الٹی میٹم جاری کیا جائے گا؟ کیا وزیر اعظم کا استعفی طلب کیا جائے گا؟ کیا ان ہائوس تبدیلی قبول کی جائے گی؟ میڈیا سے کون اور کیا بات کرے گا؟ اگر نئے الیکشن کی طرف بات جاتی ہے تو اپوزیشن کی حکمت عملی کیا ہو گی؟ یہ وہ تمام فیصلے تھے جو اس آل پارٹیز کانفرنس میں ہونا چاہئے تھے لیکن اگر معاملہ صرف حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کے بعد یومِ سیاہ منانے تک محدود رہے گا تو عوام کی اس اعلامیے سے تشفی نہیں ہوگی۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ اس آل پارٹیز کانفرنس میں کوئی اہم فیصلے نہیں ہوئے۔ کم از کم دو فیصلے ایسے تھے جن کو بہت اہم تصور کیا جا سکتا ہے۔ پہلا اہم فیصلہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا تھا۔ اس متفقہ فیصلے پر تمام جماعتوں کا اتحاد بھی ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن ارکان کو واضح عددی برتری حاصل ہے۔ اس کے باوجود یہ مرحلہ اتنا آسان نہیں۔ اس لئے کہ یہ فیصلہ اگر عمران خان کی حکومت کے خلاف ہوتا تو شاید اس میں اس قدر دشواری نہ ہوتی۔ یہ فیصلہ دراصل کسی اور کے خلاف اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ اس میں کامیابی جمہوریت پسندوں کی بہت بڑی کامیابی تصور کی جائے گی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ جب تک اس مرحلے کی نوبت آئے گی، کتنی پارٹیاں ثابت قدم رہ سکیں گی اور کتنی ’’قوم کے وسیع تر مفاد میں‘‘ اس اتحاد سے کنارہ کش ہو جائیں گی۔ دوسرا اہم فیصلہ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا تھا۔ اس پر بھی تمام پارٹیاں متفق تھیں اگرچہ اسکی تفصیلات طے ہونا باقی ہیں کہ اس احتجاج کا نقطہ آغاز کیا ہوگا اور انجام کی صورت کیا ہو گی لیکن اگر تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے حلقوں میں احتجاج کی اس تحریک کا آغاز کرتی ہیں تو اس سے حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں مل جائے گی اور عوام کو اپنے غصے کے اظہار کا ایک پلیٹ فارم میسر آئے گا۔

آل پارٹیز کانفرنس میں مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز سے خطاب کی خصوصی درخواست کی گئی۔ اس لئے کہ سب جانتے ہیں کہ اب بھی سیاسی منظر نامے کی سب سے مضبوط آواز نواز شریف ہے اور مریم نواز اپنے باپ کے نقش قدم پر بڑی ثابت قدمی سے چل رہی ہیں۔ مریم نواز نے شروع میں تو یہ عذر پیش کیا کہ جب میری پارٹی کے قائد خطاب کر چکے ہیں تو میرا کچھ کہنا بنتا نہیں لیکن پھر مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول بھٹو کی درخواست پر مریم نواز نے بولنا شروع کیا۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ اس خطاب میں جس دلیری اور بہادری کا مریم نواز نے مظاہرہ کیا اس کی وجہ سے دورانِ خطاب مکمل سناٹا چھایا رہا اور انکی تقریر کے خاتمے پر دیر تک ڈیسک بجائے گئے۔ انکے خطاب میں یہ بات واضح ہوئی کہ اگر اپوزیشن جماعتوں نے اس نااہل حکومت کے خلاف اب بھی کچھ نہیں کیا تو انکے ووٹرز انکو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ انکے کہنے کے مطابق ’’قوم کے وسیع تر مفاد میں‘‘ مصلحت آمیز سمجھوتے کرنے کا وقت گزر گیا ہے۔ اب عوام اور پاکستان کے وسیع تر مفاد میں بات کرنا ہوگی۔

حکومتِ وقت کے خلاف اپوزیشن پارٹیز کا اتحاد اور آل پارٹیز کانفرنس کوئی نئی بات نہیں۔ یہ روایت بہت پرانی ہے۔ ایسے اتحاد ہمیشہ بہت جذے سے بنتے ہیں لیکن ماضی میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے اتحادوں کو ان کے اندر سے ہی نقصان پہنچتا ہے۔ انہی اتحادیوں میں سے کچھ مقدمات سے ڈر جاتے ہیں، کچھ گرفتاریوں کے خوف سے الگ ہوجاتے ہیں، چند وقتی مراعات پر پھسل جاتے ہیں اور کچھ پر خوف غالب آجاتا ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اکتوبر کے آخری عشرے میں شروع ہونے والی اس احتجاجی تحریک سے کچھ پارٹیاں ’’قوم کے وسیع تر مفاد میں‘‘ الگ ہو جائیں گی۔ اس احتجاجی تحریک میں آخر میں صرف مسلم لیگ(ن)، مولانا فضل الرحمٰن اور چند چھوٹی جماعتیں ہی رہ جائیں گے کیونکہ موجودہ وقت میں ان جماعتوں کا بیانیہ کسی بھی سیاسی مصلحت سے عاری ہے۔ ویسے تو حکومت گرانے کے لئے یہ پارٹیاں کافی ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کے مخلص کارکن اور (ن)لیگ کی جی ٹی روڈ کی حمایت اس ملک میں کوئی بھی فیصلہ منوا سکتی ہے۔ اب رہا سوال کہ یہ تحریک کب شروع ہو گی، آخری وار کب ہو گا؟ حتمی نعرہ کب لگے گا تو یاد رکھئے اس کا فیصلہ بدترین سیاسی انتقام کا شکار، کوٹ لکھ پت میں قید، ایک ستر سالہ دل کا مریض کرے گا۔ اس سیاسی منظر نامے کا سب سے طاقتور کھلاڑی آج بھی نواز شریف ہی ہے۔ اگر نواز شریف اس سال کے آخری مہینوں تک جیل میں ہی ہوئے تو مریم نواز انکی آواز بنیں گی اور اپنے والد سے دو ہاتھ آگے بڑھ کر اس احتجاجی تحریک کی قیادت کریں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے