بابر اعوان پاکستانی سیاست کی تفہیم کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہیں… ایک آزمائشی مقدمہ۔
مقدمہ یہ ہے کہ اقتدار کی کشمکش نے کتنے با صلاحیت لوگوں کو معاصرانہ چشمک کا ایندھن بنا دیا۔ یوں ملک اور قوم جس توانائی سے آسودہ ہو سکتے تھے، وہ ان کاموں میں صرف ہو گئی جن کا ماحصل ایک فرد یا گروہ کے جذبۂ انتقام کی تسکین تھا۔ جیسے سیاسی مقدمات۔ نندی پور بھی ایسا ہی ایک مقدمہ ہے۔
منصوبے کا آغاز مشرف دور میں ہوا۔ تب زاہد حامد وزیر قانون تھے۔ وہی جو بعد میں نون لیگ کے دور میں بھی اس منصب پر فائز رہے۔ یہ آٹھ ماہ کا دورانیہ ہے۔
2008 ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو فاروق نائیک وزیر قانون تھے اور آغا رفیق سیکرٹری لا۔ اس دوران میں اس منصوبے کے تحریری خدوخال طے ہوئے۔ یہی دور ہے جب پرویز اشرف پانی و بجلی کے وفاقی وزیر تھے۔ تب واپڈا کے لوگ چین گئے اور واپس آ کر بعض نئی شقوں کو منصوبے میں شامل کرانے کی کوشش کی۔
وزارت پانی و بجلی نے وزارتِ قانون سے یہ چاہا کہ ماضی کی تاریخ میں ان شقوں کو منصوبے کا حصہ بنا دیا جائے۔ وزارتِ قانون نے اس مطالبے کو ‘بزنس آف رولز‘ کے خلاف قرار دے کر قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد وزیر قانون بدل گیا اور سیکرٹری قانون بھی۔ اب یہ قلم دان بالترتیب افضل سندھو صاحب اور ریاض کیانی صاحب کے پاس تھے۔ اس دوران میں حاکم خان ڈرافٹس مین، عظمیٰ چغتائی، سب نے پچھلی تاریخوں سے اس اضافے کی منظوری سے انکار کیا۔ جولائی 2007ء سے دسمبر 2009ء تک، یہ سلسلہ یوں ہی دراز ہوتا رہا۔
دسمبر2009ء میں بابر اعوان وزیر قانون بنے اور اپریل 2011ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ 11 اپریل کو انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ یہ ایک سال اور چاہ ماہ کا دورانیہ ہے۔ وہ بھٹو ریفرنس کی تیاری کے لیے یکسو ہو گئے تاکہ اس نا انصافی کی تلافی کی جا سکے جو بھٹو صاحب کے ساتھ انصاف کے ایوانوں میں ہوئی۔ اب مولا بخش وزیر قانون تھے اور سعدیہ عباسی سیکرٹری قانون۔ اس کے بعد وزارتِ قانون ایک بار پھر فاروق نائیک صاحب کو سونپ دی گئی۔
اس سارے عرصے میں واپڈا کی طرف سے سات سمریاں وزارتِ قانون کو بھیجی گئیں۔ ایک سمری بھی بابر اعوان کے دورِ وزارت میں نہیں بھیجی گئی۔ افتخار چوہدری صاحب چیف جسٹس ہوئے تو انہوں نے سوئوموٹو کارروائی کی اور اس مقدمے کو زندہ کر دیا۔ کمیشن نے بابر اعوان کو بلایا نہ ان پر الزام عائد کیا۔ بابر اعوان کا اس سارے قضیے سے براہ راست کوئی تعلق ثابت نہیں۔ انہوں نے مقدمے کا سامنا کیا اور عدالت سے سرخرو ہونے تک، خود کو سیاسی مناصب سے الگ کر لیا۔ اب عدالت نے ان کی بریت کا فیصلہ سنا دیا۔ نہ صرف ان کی بلکہ سیکرٹری قانون ریاض کیانی کی بریت بھی۔
یہ ہے اس مقدمے کی مختصر روداد۔ میرا خیال ہے صرف ایک نکتہ ہی عدالت کے اطمینان کے لیے کافی ثابت ہوا کہ وزارتِ پانی و بجلی نے جب بھی وزارتِ قانون کو سمری بھیجی، بابر اعوان وزیرِ قانون نہیں تھے۔ عدالت کا اطمینان تو ہو گیا لیکن میرا نہیں ہو سکا۔ میں جو سیاسیات اور سماجیات کا ایک طالب علم ہوں اور اس مقدمے کو سیاست کا آزمائشی مقدمہ سمجھتا ہوں۔
خطہ پوٹھوہار کی طلبہ سیاست نے جن لوگوں کو نمایاں کیا، ان میں بابر اعوان نمایاں ترین ہیں۔ خدا نے صلاحیتیں عطا کرتے وقت سب سے زیادہ فیاضی کا معاملہ انہی کے ساتھ کیا۔ جو ‘طالب علم راہنما‘ مقبول ہوئے، وہ اس معاملے میں ان سے کوسوں دور ہیں۔ تقریر، تحریر، گفتگو، معاملہ فہمی، بزلہ سنجی۔ بہت کم ہیں جو ان کی ہم سری کا دعویٰ کر سکیں۔ مطالعے اور محنت نے ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ اگر وہ ایک راستے پر گامزن رہتے اور پگڈنڈیوں سے بچ سکتے تو یقیناً شورش کاشمیری اور کوثر نیازی کی صف میں کھڑے ہوتے۔
کوثر نیازی صاحب ہماری تاریخ کے تادمِ تحریر آخری آدمی ہیں‘ جنہوں نے خطابت اور شعرونثر سے ہماری سیاست و صحافت کو ہمہ رنگ بنایا۔ یہاں ان کے سیاسی فیصلوں کا اخلاقی پہلو زیرِ بحث نہیں۔ وہ ایک اچھے مقرر، اعلیٰ نثر نگار اور عمدہ شاعر تھے۔ ہماری سیاست یا صحافت میں پھر کوئی ایسا نہیں آیا جو ان سب صلاحیتوں سے متصف ہو۔ طالب علم راہنماؤں نے بالعموم، تقریر اور گفتگو کے فن کو ایسا نقصان پہنچایا کہ عوامی ذوق ہی کو پست کر دیا۔ اس میں سب سے زیادہ حصہ ‘فرزند راولپنڈی‘ کا ہے۔ تاریخ کا یہ کیسا جبر ہے کہ یہ ‘اعزاز‘ بھی خطہ پوٹھوہار ہی کو ملا۔
سیاست اگر مثبت خطوط پر استوار رہتی تو اس میں بابر اعوان جیسے لوگ زیادہ نمایاں ہوتے اور یوں سیاست پامال نہ ہوتی۔ سیاست جب پستی کی طرف مائل ہوئی تو بہت سے باصلاحیت لوگوں کو بھی اپنی جگہ بنانے کے لیے انہی پامال راستوں کا انتخاب کرنا پڑا۔ میں اسے پگڈنڈیاں کہتا ہوں جنہوں نے بابر اعوان جیسے لوگوں کو نندی پور جیسے مقدمات میں الجھا دیا۔ اس سے عصری سیاست آلودہ ہوئی۔ سیاسی جماعتوں میں بھی وہی لوگ نمایاں ہوئے جن کا اصل فن یہ تھا کہ وہ بازاری لہجے میں مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو صاحبہ میں یہ خواہش موجود تھی کہ پارٹی میں باصلاحیت لوگ نمایاں ہوں۔ انہوں نے پہلے بابر اعوان میں چھپے ایک اعلیٰ قانون دان کو دریافت کیا۔ وہ ان کے وکلا کی طویل صف میں سب سے پیچھے تھے۔ طویل تجربے والے نامی گرامی قانون دان ان سے آگے کھڑے تھے۔ بابر اعوان کی صلاحیتوں نے انہیں نمایاں کیا اور وہ اس صف میں سب سے آگے آ گئے۔ بی بی نے ان کی سیاسی صلاحیتوں کو بھی پہچان لیا۔ یوں وہ پیپلز پارٹی کی صفِ اوّل کے راہنماؤں میں شامل ہو گئے۔
ہمارا سیاسی کلچر آج احیا چاہتا ہے۔ لازم ہے کہ اسے مثبت بنیادوں پر استوا کیا جائے۔ یہ تب ہی ممکن ہو گا جب سیاسی جماعتوں کی قیادت اور پارلیمان میں ان لوگوں کا غلبہ ہو جو باصلاحیت ہوں اور سیاسی بحث کا معیار بلند کر سکیں۔ سیاست کے مباحث بھی تبدیل ہوں اور ان میں سنجیدگی آئے۔ تقاریر کا ادبی و اخلاقی معیار بھی بلند ہو۔ لوگوں پر جھوٹے مقدمے نہ بنیں اور با صلاحیت لوگوں کی توانائیاں ملک و قوم کے لیے استعمال ہوں۔ بابر اعوان کے خلاف نندی پور کا مقدمہ ہمیں اسی جانب متوجہ کر رہا ہے۔
عدالتی فیصلے نے بابر اعوان کو سرخرو کر دیا۔ اب تحریک انصاف چاہے تو پورے اعتماد کے ساتھ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ ان کے مقدمے کو وہ اپنی اخلاقی برتری کے لیے بطور ثبوت پیش کر سکتی ہے۔ اگر تحریکِ انصاف انہیں پارلیمنٹ میں لے آتی ہے اور حکومت کا حصہ بھی بنا دیتی ہے تو اس سے پارٹی کو تو فائدہ ہو گا ہی، سیاست میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔ اگر حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار پارلیمان کے معاملات کو چلانے کے لیے کسی ضابطہ اخلاق پر اتفاق کر لیں تو امید ہے کہ پارلیمانی بحثوں کا معیار بہتر ہو جائے گا۔
سیاست میں ذاتی دشمنی نہیں ہوتی۔ اس میں انتقام بھی نہیں ہوتا۔ اعلیٰ اخلاقی سطح رکھنے والے لوگ اصولوں اور نقطہ ہائے نظر کی سیاست کرتے ہیں۔ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ و ہ سیاسی ماحول کی اس طرح تطہیر کریں کہ یہاں با صلاحیت اور با اخلاق لوگ نمایاں ہوں۔ لوگوں کو اپنی جگہ بنانے کیلئے کسی ‘فرزندِ راولپنڈی‘ کو آئیڈلائز نہ کرنا پڑے۔ نوجوان سیاست دانوں کو معلوم ہو کہ مذہب، سماجی علوم، تاریخ اور ادب کا مطالعہ اور اعلیٰ ذوق ہی انہیں سیاست میں نمایاں کر سکتا ہے۔
میری دلی خواہش رہی ہے کہ بابر اعوان ان صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرسکیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں فیاضی سی عطا کی ہیں۔ کسی صلاحیت کا شکر یہی ہے کہ خیر کے فروغ کے لیے کام آئے۔ بابر اعوان اپنی ہر کامیابی کو خدا کی مہربانی سمجھتے ہیں۔ ایسا آدمی ہی شکر گزار بن سکتا ہے؛ تاہم ایک ذمہ داری ان کی بھی ہے جو سیاسی ماحول بنا رہے ہیں۔
وہ بابر اعوان جیسوںکو مقدمات کی پگڈنڈیوں میں الجھائے رکھتے ہیں یا انہیں سیاست کی کشادہ شاہراہ پر چلنے کا موقع دیتے ہیں۔