ریپ ہونے کی صورت میں محکمہ ہذا ذمہ دار نہ ہوگا

اِس دنیا میں روزانہ ہر عمر کی عورت کا ریپ ہوتا ہے،تین سال کی بچی سے لے کر پچھتر برس کی بڑھیا تک۔ رنگ، نسل، مذہب، قومیت اور لباس کی کوئی قید نہیں۔ ساڑھی، برقع، نیکر، عبایا، جینز، حجاب، فراک، اسکرٹ، شلوار، کچھ بھی پہنا ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ عورت رات کے دو بجے اکیلی سڑک پر ہو یا بس میں اپنے دوست کے ساتھ، کسی بھرے پُرے دفتر میں ہو یا نائٹ کلب میں، پنج وقتہ نمازی ہو یا کسی مرد کی طرح ڈرنک کرتی ہو، میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگاتی ہو یا یتیم بچیوں کی پناہ گاہ کی محافظ ہو، ڈومنی ہو یا پردہ دار، چہرہ بغیر میک اپ کے رکھتی ہو یا غازے کی تہیں سجاتی ہو، قائداعظم کے مزار کے احاطے میں ہو یا اپنی قبر میں، ریپ کرنے والا اُس کی لاش نکال کر بھی ریپ کرے گا اور مردوں کے اِس معاشرے میں کچھ لوگ ہوں گے جو کہیں گے کہ کفن میں چہرہ ڈھانپا نہیں گیا تھا اِس لیے ریپ ہوا۔

موٹر وے پر تین بچوں کی ماں کے ساتھ گینگ ریپ ہوا، اِس سے زیادہ بھیانک جُرم کا تصور ممکن نہیں لیکن یہ جملے اب بےمعنی ہو چکے، جس ملک میں ایسی گھناؤنی واردات کے بعد یہ بحث شروع ہو جائے کہ کیا اُس عورت کو رات کے وقت ویران موٹر وے پر سفر کرنا چاہئے تھا یا نہیں اور یہ بحث چھیڑنے والے نہ صرف پڑھے لکھے لوگ ہوں بلکہ اُن کا تعلق سول سروس سے ہو تو باقی اندازہ خود لگالیں کہ اُس معاشرے کا عام مرد کیسے سوچتا ہوگا۔ آپ کے لئے اگر یہ اندازہ لگانا اب بھی مشکل ہو تو بطور مرد میں مدد کر دیتا ہوں۔ ہم مرد ایسے سوچتے ہیں کہ عورت کوئی مخلوق نہیں، یا کم از کم ہم مردوں (م پر زبر ہے پیش نہیں) کی طرح انسان نہیں، یہ ہم سے کمتر ہے، کمزور ہے اور کم عقل ہے، اسے اپنے بھلے برے کا کچھ پتا نہیں چلتا، اسی لئے ہمیں گاہے گاہے اسے بتانا پڑتا ہے کہ تمہارے لئے کون سا لباس موزوں ہے، تمہیں گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے یا نہیں، کون سی ملازمت تمہیں کرنی چاہئے یا سرے سے کرنی ہی نہیں چاہئے، اگر رات کو گھر سے باہر نکلنا پڑے تو کس وقت تک تمہیں واپس آ جانا چاہئے، اپنے ساتھ کس عمر کے بچے یا مرد کو لے جانا چاہئے تاکہ لوگ تمہیں آوارہ یا لاوارث نہ سمجھیں، وغیرہ۔

اسی طرح ہم مرد یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عورت کی زندگی کی معراج اُس کی شادی ہے کیونکہ ہمارے نزدیک عورت کا بنیادی مقصد بچے پیدا کرنا، اُن کی پرورش کرنا اور اپنے خاوند اور سسرال کی خدمت کرنا ہے ۔ ہم مرد اگر سگریٹ پئیں تو یہ ہمارا اسٹائل ہے، اِس سے ہمارے کردار پر کوئی حرف نہیں آتا، عورت کے لئے سگریٹ پینا تو دور کی بات، اگر اُس نے ٹھیک سے دوپٹہ نہیں لیا ہو تو یہ وجہ اسے ریپ کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہم مرد یہ بھی سوچتے ہیں کہ جو عورتیں اپنے حقوق کے لئے مارچ کرتی ہیں، آزادیٔ نسواں کے نعرے لگاتی ہیں یا جدید لباس میں سوشل میڈیا پر بیباک تبصرے کرتی ہیں، دراصل وہ تمام اوباش عورتیں ہیں، اِس بات کا ہم مردوں کے پاس کوئی ثبوت تو نہیں مگر ہمارا کہنا ہی کافی ہے۔

مردوں کا یہ معاشرہ جس ذہنی پستی کا شکار ہے اُس کا علاج ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے۔ اِس علاج کا ایک طریقہ تو ہے کہ اِس موضوع پر دنیا میں جو فلمیں بنائی جاتی ہیں وہ ذہنی افلاس کے مارے اِن مردوں کو دکھائی جائیں اور تفریح کے بہانے اِن کی ذہنی نشو نما کی جائے تاکہ انہیں ریپ کا مطلب سمجھ میں آ جائے۔ اِس ضمن میں فدوی تین فلمیں تجویز کرتا ہے۔ پہلی فلم ہے ’پِنک‘۔ اِس فلم کی کہانی تین لڑکیوں کے گرد گھومتی ہے جو ایک اپارٹمنٹ میں اکٹھی رہتی ہیں، مختلف ملازمتیں کرتی ہیں اور آزاد زندگی گزارتی ہیں، ایک رات کسی پارٹی میں اُن کی ملاقات چند اوباش نوجوانوں سے ہو جاتی ہے جو اِن لڑکیوں کی بیباکی کا غلط مطلب سمجھ کردرازدسری کی کوشش کر بیٹھتے ہیں۔ دوسری فلم کا نام ہے Guilty، اِس فلم میں کالج میں پڑھنے والی ایک لڑکی کو چند لڑکے بظاہر اُس کی مرضی سے ہوسٹل کے کمرے میں لے جاتے ہیں، لڑکی کی چال ڈھال اور لباس سے یوں لگتا ہے جیسے وہ اُن میں سے ایک لڑکے پر فریفتہ ہے، بعد میں وہ لڑکی اُس لڑکے پر ریپ کا الزام لگا دیتی ہے، کالج میں کوئی اِس الزام کو سچ نہیں مانتا، مگر حقیقت اِس کے برعکس نکلتی ہے۔ تیسری فلم مختصر دورانیے کی ہے، نام ہے دیوی، یوٹیوب پر با آسانی دیکھ سکتے ہیں، بارہ منٹ کی یہ فلم ریپ کے موضوع پر بننے والی ایک اچھوتی فلم ہے۔

اگر یہ فلم دیکھنے کے بعد بھی کسی مرد کا ذہن نہیں بدلتا اور وہ مختلف حیلے بہانوں سے عورت کو ہی ریپ کا ذمہ دار سمجھتا ہے تو پھر ایسے مرد کا کوئی علاج نہیں، اسے پولیس کی نوکری ہی کرنی چاہئے (پولیس سروس کے اپنے قابل دوستوں سے معذرت کے ساتھ)۔ کیونکہ اگر کوئی شخص تیس سال پولیس کی نوکری کرنے، غیرملکی تربیتی کورس بھگتانے اور انواع و اقسام کی ڈگریاں سمیٹنے کے بعد بھی گینگ ریپ کا شکار ہونے والے عورت کے بارے میں کہے کہ اسے رات کو موٹر وے پر سفر کرنے کے بجائے جی ٹی روڈ پکڑنی چاہئے تھی کیونکہ وہاں رونق زیادہ ہوتی ہے تو سمجھ لیں کہ ایسا افسر بالکل ٹھیک جگہ بیٹھا ہے، بےشک ہم مرد ایسے ہی سوچتے ہیں۔ اب پولیس کو چاہئے کہ اخبار میں اِس قسم کا اشتہار شائع کروائے کہ ’’خبردار، آگے علاقہ ریپ ہے۔ ہر خاص و عام عورت کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اکیلی گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرے اور رات کو تو بالکل سفر نہ کرے، ہر حال میں کسی محرم مرد کو ساتھ رکھے، ویران شاہراہ پر گاڑی نہ گھمائے، اپنے لباس کا خیال رکھے، گینگ ریپ ہونے کی صورت میں محکمہ ہذا ذمہ دار نہ ہوگا‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے