آئن اسٹائن ریاضی میں پاس نہیں ہو پاتا تھا، نیوٹن کو مطالعہ انگلستان کی ٹیوشن رکھنا پڑی تھی اور نیل بوہر کا دینیات میں دل نہیں لگتا تھا۔ جینئس لوگوں کے بارے میں اِس قسم کی کہانیاں سب نے سُن رکھی ہیں۔ اِن کہانیوں سے ہمیں ایک نامعلوم سی خوشی ملتی ہے کہ نالائق ہونا کوئی بری بات نہیں، جینئس لوگ بھی اپنے اسکول میں فیل ہوتے تھے سو ہم بھی چھپے جینئس ہیں، بس زمانہ ہماری قدر نہیں کر رہا ہے۔ خیر یہ بات تو یونہی بیچ میں آ گئی، سنانے والا اصل قصہ کچھ اور ہے۔ جن دنوں آئن اسٹائن عمومی نظریہ اضافیت پر کام کر رہا تھا اُن دنوں اِس عظیم سائنس دان کا اپنے ایک ہم عصر ریاضی دان ’ڈیوڈ ہلبرٹ‘ سے خاموش مقابلہ شروع ہو گیا۔ ہلبرٹ نے آئن اسٹائن کا ایک لیکچر سنا تھا جس کے بعد اسے اندازہ ہو گیا کہ آئن اسٹائن بہت جلد اپنی نئی دریافت سے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچانے والا ہے۔
ہلبرٹ نے بھی اپنی کوششیں تیز کر دیں کہ کسی طرح وہ آئن اسٹائن سے پہلے یہ تھیوری پیش کردے۔ آئن اسٹائن تب ہر ہفتے برلن میں اِس موضوع پر لیکچر دیا کرتا تھا اور ہر مرتبہ وہ اِس تھیوری کے متعلق ریاضی کی ایک نئی مساوات پیش کرتا جو غلط ثابت ہوتی، تاہم وہ اِس بات سے اچھی طرح آگاہ تھا کہ ہلبرٹ بھی اِس دوڑ میں شامل ہے۔ بالآخر فقط چند دن کے فرق سے آئن اسٹائن اپنی تھیوری کے لئے ریاضی کی درست مساوات پیش کرنے میں کامیاب ہو گیا اور یوں تاریخ میں اُس کا نام امر ہوگیا۔ آئن اسٹائن کا خیال تھا کہ ہلبرٹ چونکہ اُس سے کہیں زیادہ سینئر اور طاقتور ہے تو ایسا نہ ہو کہ وہ اِس تھیوری کا سہرا اپنے سر باندھ لے مگر اُس نے ایسا نہیں کیا۔ گو کہ ڈیوڈ ہلبرٹ بھی محض چند دن کے فرق سے اسی نتیجے پر پہنچا تھا جس پر آئن اسٹائن پہنچا تھا مگر قسمت کی دیوی آئن اسٹائن پر ذرا پہلے مہربان ہو گئی۔ عمومی نظریہ اضافیت آج آئن اسٹائن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ واقعہ میں نے جس کتاب سے لیا ہے وہ آج کل میرے زیر مطالعہ ہے اور روزانہ ایک عجیب دنیا مجھ پر آشکار کرتی ہے۔
ڈیوڈ ہلبرٹ اور آئن اسٹائن دونوں ہی بلا کے ذہین تھے، دونوں جرمن تھے، کم و بیش ایک ہی قسم کے تعلیمی اداروں میں پڑھے تھے، شعبے بھی ایک سے تھے، دونوں کی عمر میں سترہ برس کا فرق تھا سو اِس لحاظ سے زمانہ بھی ایک ہی تھا، دونوں ایک ہی تھیوری پر کام کر رہے تھے اور محض چند دن کے فرق سے دونوں ایک ہی نتیجے پر پہنچے جو بیسویں صدی کی ایک عظیم دریافت ثابت ہوئی۔ اِس کے باوجود جو شہرت، شناخت اور کامیابی آئن اسٹائن کے حصے میں آئی، ہلبرٹ کو شاید اُس کا دسواں حصہ بھی نصیب نہیں ہوا۔ اسے مقدر کہتے ہیں مگر اِس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنے گھر بیٹھے نیٹ فلِکس پر فلمیں دیکھتے رہیں اور اچانک ایک رات عمومی نظریہ اضافیت آپ پر الہامی صورت میں نازل ہو جائے۔
قسمت کی دیوی اسی پر مہربان ہوتی ہے جو اُس دیوی کے آگے پیچھے پھرتا ہے۔ آئن اسٹائن اور ڈیوڈ ہلبرٹ دونوں کی کامیابی کا امکان برابر تھا، دونوں نے اپنے اپنے حصے کا کام بھرپور طریقے سے کیا، اس کے بعد مقدر کا کھیل شروع ہوا جس میں جیت آئن اسٹائن کی ہوئی۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ اچھے شاعر پر کلام نازل ہوتا ہے، اقبال کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اُس پر پوری پوری غزل اترتی تھی، غالب نے تو خود کہا کہ ’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘ لیکن یاد رہے کہ غیب سے یہ مضامین اسی پر نازل ہوں گے جو اس کھیل میں شامل ہوگا۔ Nichomachean Ethicsمیں ارسطو کہتا ہے: ’’اولمپک کے انعامات بہترین اور طاقتور لوگوں کو نہیں دیے جاتے بلکہ انہیں دیے جاتے ہیں جو اُن مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں کیونکہ جیت انہی (مقابلہ کرنے والوں) کو نصیب ہوتی ہے۔ زندگی کے بارے میں بھی یہی کلیہ کار فرما ہے۔ ضروری نہیں کہ زندگی میں بہترین اور اچھے لوگ ہی کامیاب ہوں، زندگی انہیں نوازتی ہے جو درست طرز عمل اپناتے ہیں‘‘۔
دنیا میں لوگوں کی لاٹریاں بھی نکلتی ہیں اور وہ راتوں رات ارب پتی ہو جاتے ہیں۔ اِس کے برعکس آپ نے ایسی وڈیوز بھی دیکھی ہوں گی جن میں کوئی راہ چلتا بندہ خواہ مخواہ گاڑی کے نیچے آ کر کچلا جاتا ہے ۔ مقدر کی یہ تمام شکلیں وہ ہیں جن پر انسان کا کوئی اختیار نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جن باتوں پر ہمارا اختیار ہے کیا ہم انہیں بھی مقدر کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن تو نہیں ہو جاتے؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک امریکی عالم نے اِس بات کا جواب ایک بہت خوبصورت دعا کی شکل میں دیا، دعا کچھ یوں ہے: ’’خدایا، مجھے اُن باتوں کو تسلیم کرنے کا حوصلہ دے جن پر میرا کوئی اختیار نہیں، اور اُن مشکلات سے نمٹنے کی ہمت دے جن پر میرا اختیار ہے اور ساتھ ہی مجھے اِن دونوں باتوں کے درمیان فرق کرنے کا فہم بھی عطا کر‘‘۔
تمام دعاؤں کے باوجود اور قسمت سے متعلق تمام تھیوریاں سمجھنے کے بعد بھی بعض لوگوں کی زندگی میں آزمائش ختم نہیں ہوتی اور وہ اپنی پوری ہمت اور محنت کے باوجود گھن چکر سے نکل نہیں پاتے۔ اِس معمے کا کوئی پڑھا لکھا حل تو نہیں مگر دنیا ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں لوگوں نے بدترین حالات کا مقابلہ کرکے اور مقدر کو شکست دے کر اپنی زندگیاں بدلیں۔ یہ کام کرنے کے لئے دو باتوں کا ادراک ضروری ہے، ایک، ہر چیز کو مقدر کے کھاتے میں ڈال کر کسی معجزے کی امید نہیں کی جا سکتی، دوسرے، یہ دنیا ناانصافی پر کھڑی ہے، اِس حقیقت کو جتنی جلدی ہو تسلیم کرکے زندگی میں آگے بڑھنا چاہئے، اپنا وقت کُڑھنے میں برباد کرنے کے بجائے اِس کام میں لگانا چاہئے جہاں قسمت کی دیوی آپ کا نوٹس لینے پر مجبور ہو جائے، بالکل اسی طرح جیسے وہ ڈیوڈ ہلبرٹ اور آئن اسٹائن میں سے کسی ایک کا نوٹس لینے پر مجبور ہوئی۔