ممتاز عالم دین ، جمیعت علمائے اسلام کے مرکزی رہ نما علامہ سید عبد المجید ندیم شاہ طویل علالت کے بعد آج صبح راولپنڈی میں انتقال کر گئے ۔ان کی عمر 75 برس تھی ۔وہ کافی عرصے سے عارضہ قلب سمیت کئی بیماریوں کا شکار تھے ۔
آج صبح ناشتے کے بعد انہیں ڈاکٹر کے پاس جانا تھا ۔ اسی دوران ان کی طبیعت خراب ہو گئی ۔انہیں فوری طور پر پنجاب انسٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے جایا گیا تاہم وہ راستے میں ہی خالق حقیقی سے جاملے ۔ان کی نماز جنازہ آج شب آٹھ بجے گلزار قائد راولپنڈی میں ادا کی جائے گی ۔
علامہ سید عبد المجید ندیم شاہ نے خطابت میں نیا انداز متعارف کرایا ۔ ان کی خطابت کا طوطی چہار دانگ عالم بولتا تھا ۔ الفاظ اور اصوات کی رم جھم ، ان کی خطابت سامعین کو اپنے حصار میں جکڑے رکھتی ۔
وہ قرآن یوں پڑھتے تھے کہ سامع قرآن کے ساتھ قرآن کے سائے میں سفر کر تا تھا ۔ میں نے بچپن میں جس خطیب کو سب سے پہلے سنا ، وہ علامہ سید عبد المجید ندیم شاہ صاحب ہی تھے ۔
ایک بار سمال انڈسٹریز ایبٹ آباد کی مسجد میں عظمت قرآن کانفرنس سے خطاب کر نے تشریف لائے ۔ میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا ۔مسجد میں داخل ہوئے اور سیدھے منبر پر جا بیٹھے ۔ موجودہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف بھی ان کے ہمراہ تھے ۔سٹیج سیکرٹری مولانا عبدالغفور راشد تھے ۔ انہوں نے نعت پڑھنے کے لیے مجھے دعوت دی تو شاہ صاحب نے روک دیا ۔ مجھے برا لگا ۔ پھر انہوں نے مجھے بلایا کہ تم نے کیا پڑھنا تھا ۔ میں نے کھڑے ہو کر انہیں پنجابی کی حمد "مخلوق ساری دا داتا خدا ہے ” کا بتا یا جس پر انہوں نے مجھے کہا کہ اچھا تو چلو سنا دو ۔
محترم خورشید احمد ندیم صاحب اور حامد میر صاحب کے ساتھ ہم اکثر شاہ صاحب کے پاس جاتے تھے ۔ مولانا فضل الرحمان صاحب اور حامد میر صاحب کے درمیان تھوڑی سی رنجش پیدا ہوئی تو شاہ صاحب نے مجھے فون کیا ۔ ادھر شاہ صاحب کی اہلیہ کا چہلم تھا ۔ ہم اکٹھے ہوئے ۔ کھانے کے بعد شاہ صاحب کے کمرے میں صلح بھی ہو گئی ۔ وہ محبت کر نے والے انسان تھے ۔
ایک بار میں نے جیو ٹی وی کے زیر اہتمام ربیع الاول کی مناسبت سے کانفرنس کا اہتمام کیا ۔ میں نے شاہ صاحب کو دعوت دی اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین صاحب کو بھی بتایا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ انہیں ضرور مدعو کریں ۔ جس روز ہمارا پروگرام تھا ، اس شام انہوں نے بنگہ دیش جانا تھا ۔ ان کے صاحبزادے بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ انہوں نے کہا
"بیٹا میری تین بجے کی فلائیٹ ہے لیکن میں اپنے برخوردار کی بات نہیں ٹال سکتا ، ضرور آؤں گا ” وہ گھر سے تیار ہو کر آئے اور ہمارے پروگرام کے بعد سیدھے ائیر پورٹ روانہ ہو گئے ۔
ان کی تفسیر سورة فاتحہ ،اللہ رسول اور صحابہ کی پسند سمیت کئی تقریریں اتنی مشہور ہوئیں کہ کیسٹیں فروخت کرنے والوں کے کاروبار میں اللہ نے برکت ڈال دی۔
ہمارے بچپن میں ان کی کیسٹیں محرم الحرام ،ربیع الاول اور رمضان میں گاڑیوں اور بسوں میں چلا کر تی تھیں ۔لوگ انہیں سن کر دم بخود ہو جاتے ۔ میں نے کئی بار ان کا خطاب سنتے ہوئے لوگوں کو گاڑیوں میں لوگوں کو روتے دیکھا ۔
انہوں نے فن خطابت کو نئی جلا بخشی ، انہوں نے روایتی قصے کہانیوں اور من گھڑت داستانوں کے بجائے قرآن و حدیث کو اپنی خطاب کی بنیاد بنایا ۔ وہ قرآنی واقعات کو بیان کر تے تھے اور یوں اصلاح عقائد کا کام کر تے ۔
ہم پشاور یونی ورسٹی میں اکثر سب ان کی سورہ فاتحہ کی تفسیر اور اللہ اور رسول کی پسند والی تقریر سنتے ہوئے سو جاتے تھے ۔ایک عہد تھا ، تمام ہوا ۔
علامہ مرحوم کی اہلیہ ٹھیک چار برس پہلے اسی تاریخ 3 دسمبر کو فوت ہو گئیں تھیں جبکہ ان کے صاحبزادے طاہر ندیم کو قتل کیا گیا تھا ۔مفتی فیصل ندیم ان کے قائم کردہ ادارے طاہر اکیڈمی کے نگران ہیں ۔
وہ آج چلے گئے جہاں سب کو جانا ہے ۔ اللہ ان کو اپنے دامن رحمت میں سمیٹ لے ۔
انا للہ و انا الیہ راجعون