قحط الرجال، ایک تلخ حقیقت

ہم قحط الرجال کے دور میں جی رہے ہیں، جہاں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد سے لیڈرشپ اور وژن کی توقع اکثر دھندلا جاتی ہے۔ یہ 2010 کی بات ہے۔ میں اور سلیم بھائی جماعت خانہ بازار گلگت سے گزر رہے تھے کہ جماعت خانہ کے دروازے سے ایک شخصیت نکلی اور جمنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئی۔

سلیم بھائی نے بتایا کہ یہ پی ایچ ڈی اسکالر، ڈاکٹر میر احمد جان صاحب ہیں، جو کسی کالج کے پرنسپل ہیں۔ میرا دل بے ساختہ چاہنے لگا کہ کاش انہیں سلام کر سکتا۔ میرے نزدیک پی ایچ ڈی اسکالرز عظیم اور وژنری لوگ ہوتے ہیں۔ تب میں کراچی کے گیارہ سالہ تعلیمی دورانیہ میں بہت سے پی ایچ ڈی اسکالرز سے مل چکا تھا۔ اور کئی ایک اداروں کے پرنسپلز، ناظم تعلیمات اور ڈائریکٹرز سے بھی استفادہ کرچکا تھا۔

وقت گزرتا گیا۔ جب 2011 میں لیکچرار مقرر ہوا تو ڈاکٹر جان اور ڈاکٹر سلیم جیسے کئی پرنسپلز اور ڈائریکٹرز سے ملاقات ہوئی۔ میں نے سوچا کہ یہ لوگ ضرور اپنے اداروں کے روشن ستارے ہوں گے۔ ان سے مل کر علمی اور اخلاقی رہنمائی حاصل ہوگی۔ مگر رفتہ رفتہ میری امیدیں دم توڑنے لگیں۔

کئی پرنسپلوں اور ڈائریکٹرز سے ملنے کے بعد معلوم ہوا کہ ان میں سے بہت سے افراد محض اپنے عہدوں کے نشے میں مست تھے۔ لیڈرشپ اور وژن تو دور کی بات، وہ اپنے ماتحتوں کو غیر ضروری مسائل میں الجھا کر خوش ہوتے اور اپنی انا کی تسکین کا سامان ڈھونڈتے۔ اور یہ کام وہ بلا تفریق کرتے۔ کاش! یہ سب کچھ میرے علم میں نہ ہوتا ۔

میں نے درجن بھر ڈائریکٹرز اور پرنسپلز کو قریب سے دیکھا اور ان کی ماتحتی میں کام کا موقع بھی ملا۔ بہت ساروں سے تو مجبوری کے باوجود بھی ملنے کا دل نہیں کررہا تھا، مجبوراً ملنا پڑتا تھا۔ مجھ جیسا آدمی ویسے بھی دفاتر کے گھن چکروں سے دور رہتا، مگر جن کو علم و دانش اور فکر و نظر کے ارباب خیال کیا جاتا ہے ان کا بھی یہ حال ہو تو پھر بندہ مایوسی کی چھتری تلے ہی زندہ رہتا ہے ۔

کاش! کہ ان میں سے چند ہی حقیقی رہنما نکلتے جو تعلیمی اداروں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے، اساتذہ کی عزت کرتے، کسی کا کام آکر خوش ہوتے اور نوجوان نسل کی بہترین تربیت کے لیے موثر حکمت عملی اپناتے۔

یہ کہانیاں ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ حقیقی عظمت صرف ڈگریوں اور عہدوں سے نہیں بلکہ کردار، وژن، اور دوسروں کی رہنمائی کے جذبے سے حاصل ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے اردگرد کی دنیا میں ایسے لوگوں کو تلاش کرنا اور خود بھی وہ شخصیت بننا چاہیے جو ترقی کا سبب بنے، نہ کہ رکاوٹ۔ دنیا میں حقیقی لیڈرز کی کمی نہیں، بس ان کی شناخت اور قدر کرنے کی ضرورت ہے۔

آئیں، عہد کریں کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں استعمال کریں گے، رہنمائی کا حق ادا کریں گے، اور جہاں بھی ہوں گے، مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنیں گے۔ یہی حقیقی کامیابی کا راستہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے