علاقہ دامان کی تیسری نسل کا خواب

دنیا بننے کے بعد انسان نے جہاں جہاں بستیاں بسائیں، وہیں پر تہذیبوں نے بھی جنم لیا، اس لئے دنیا میں ہر تہذیب میں جہاں اس کے مختلف رواج اور روایات ملتی ہیں وہیں پر اس کا سب سے اہم جز بہتے دریا بھی ہوتے ہیں اور یہیں پانی اپنے سنگ جینے والے انسانوں کی زندگی کی سب سے بڑی ضمانت بھی ہوتا ہے، ڈیرہ اسماعیل خان کا تعلق پاکستان کے ان علاقوں سے ہے جو اپنے دریاؤں کی وجہ سے دنیا میں پہچان رکھتے ہیں لیکن بہت سے دیگر علاقوں کی طرح اس کے دریا اوربہتا پانی بھی اس کے مکینوں کی زندگی میں کوئی بہار نہ لاسکے اور وہ اب بھی غربت کی بدولت غیرانسانی حالات میں جی رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا کا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ یہ تین صوبوں کے سنگم پر واقع ہے ، یہ ہے تو خیبرپختونخوا میں لیکن دوجانب سے یہ بلوچستان اورپنجاب سے بھی لگا ہوا ہے ، اس لئے اس کو تین صوبوں کے ملاپ کا مقام بھی کہا جاتا ہے، ڈی آئی خان کی معیشت سینکڑوں سالوں سے زراعت کے گرد گھومتی تھی، جس میں اس کے علاقہ دامان کی صدیوں پرانی تہذیب و تمدن بھی آبی گزرگاہوں سے منسلک رہی ، خطہ دامان کی بقاء یہاں سے گزرنے والے پانچ موسمی دریاؤں پرسے جڑی ہے، جن میں ٹانک زام، گومل زام، شیخ حیدر زام، درابن زام اور چودھوان زام شامل ہیں۔ ان پانچ دریاؤں کی قدرتی طور پر 32 شاخیں (رود) نکلتی ہیں۔ قدیم زمانے میں لوگ انہی قدرتی وسائل سے آبپاشی اور روزمرہ استعمال کا پانی حاصل کرتے تھے۔ انگریز جب یہاں آئے توانہوں نے علاقہ دامان میں آبپاشی کے لئے یہی رود کوہی نظام آبپاشی متعارف کروایا۔

یہ سب یہاں چل رہا ہے اور اس میں مسلسل نئے اقدامات بھی نظرآرہے ہیں ، لیکن یہ سارے اقدامات یہاں کے معصوم بچوں کے ہاتھ میں کتاب اورقلم نہ دے سکے ،بلکہ اب بھی والدین گھر کا خرچہ چلانے کے لئے معصوم بچوں کو بھیڑ بکریاں چرانے کے لئے ایک خاص رقم کے بدلے سال بھر کے لئے کسی کو دے دیتے ہیں ، یہ بچے سال بھر چراگاہوں کی تلاش میں قریوں قریوں پھرتے ہیں ،اکبر خان بھی انہی بچوں میں سے ایک ہے، جسے اس کے والدین نے سال بھر کے لئے پچاس ہزار روپے کے عوض کسی کو بھیڑ بکریاں چرانے کے لئے دیا ہوا ہے، وہ کہتا ہے کہ اس کی خواہش ہے وہ پڑھے، کشتی کھیلے اور کھیل کود کرے لیکن اگر وہ کھیلے گا تو اس کے گھر والے کیا کھائیں گے، وہ کہتا ہے کہ اس کا تعلق تحصیل کلاچی کے علاقہ لونی سے ہے لیکن اُن کے والد نواب خان لونی سے روڑی روزگار کی تلاش میں آئے اور یہیں پر آباد ہوگئے، نواب خان بھٹیاری شادی بیاہ و دیگر خیرات میں روٹیاں پکاتے ہیں۔

اکبرخان کہتا ہے کہ ننگے پاوں جنگلوں اوربیابانوں میں گھومتے پھرتے اسے ایک سال تک کے لئے جانوروں کو چرانا ہے اورچارے کی تلاش میں دوردراز کے سفر کرتا ہے، سارا دن ان بھیڑ بکریوں کو چراتا ہے اور رات کسی چرواہے کے وانڈے پر گزار لیتا ہے لیکن کیا جائے جب لوگ اپنی زمینوں کو پانی دیتے ہیں تو پھر اس کے بکریوں اوربھیڑوں کے لئے چارہ ملنا مزید مشکل ہوجاتا ہے اور پھر اسے مزید زیادہ دور علاقوں میں جانا پڑتاہے۔

اکبر خان ایک بچہ نہیں بلکہ اس کی کہانی بہت سارے ایسے بچوں کی کہانیاں ہیں جن کے معصوم بچپن ان جنگلوں بیابانوں میں بھیڑ بکریوں کو ہانکنے میں گزر جاتے ہیں۔

ان علاقوں میں مون سون کے موسم میں بہنے والے پانی کو ذخیرہ کیا جاتا تھا اور سردیوں کے موسم میں مخصوص طریقہ سے آبپاشی کے لیے استعمال میں لایا جاتا تھا، اس سسٹم میں کلیات اور رواجات کے ذریعے حقوق آبپاشی تیار کئے گئے تھے۔ رود کوہی کے ذریعے کم وبیش دس لاکھ ایکڑ اراضی کو قابل کاشت بنایا جاتا تھا۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق 1901 میں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی صوبہ این ڈبلیو ایف پی سب سے زیادہ زرعی محصول رہنے والی تحصیل تھی۔ تخلیق پاکستان اور انگریزوں کے چلے جانے کے بعد رود کوہی نظام آبپاشی رفتہ رفتہ زوال پزیر ہونے لگا، جس سےعلاقے میں زرعی معیشت سکڑ گئی، آہستہ آہستہ علاقہ دامان کی عوام غربت و افلاس اور لاقانونیت جیسے مسائل سر اُٹھانے لگے، مشکلیں دن بہ دن بڑھتی جارہی تھی 40فیصد عوام غربت کی لکیر پر اور 40فیصد عوام لکیر سے نیچے زندگی بسرکرنے پر مجبورہوگئی۔ اور ان تمام مشکلوں کا یہ تھا کہ جدید تکنیک کے ذریعے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔

چنانچہ حکومت نے گومل زام ڈیم کی بروقت تعمیرکی کوشش کی ، جس کی نشاندہی آج سے 131 سال پہلے برطانوی حکومت نے دریائے گومل کے مقام پر ذخیرہ آب کے لیے ضلع ٹانک سے 100 کلومیٹر کے فاصلہ پر جنوبی وزیرستان کے علاقہ کھجوری کچ کے مقام پہ کی تھی، لیکن جنگ عظیم دوم کی وجہ سے اُس وقت ڈیم کی تعمیر نہ ہو سکی، پھر 1962 میں سابق صدر ایوب خان کے دور حکومت میں پہلی بار ڈیم کی فیزابیلیٹی اورتعمیر کے کام کا آغازکیا گیا مگر نا معلوم وجوہات کی بنا پر ڈیم کا کام روک دیا گیا۔ کم و بیش 40 سال بعد جنرل پرویز مشرف نے بھی اس قومی نوعیت کے منصوبہ پر دوبارہ کام شروع کرالیا،7 ارب کی لاگت سے اس منصوبہ نے پانچ سال میں مکمل ہونا تھا،اگرچہ اس وقت ڈیم کا پہلا ٹھیکہ چائنہ کی نیشنل واٹر ریسورسز کمپنی کو ایوارڈ ہوا، اسی اثنا میں دہشت گردوں نے دو چینی انجیئنیرز کو اغواء کرلیا، اور جب ان کی بازیابی کی کوشش کی گئی تو تب اس دوران ایک انجینئیر ہلاک ہوگیا اور دوسرے کو بچا لیا گیا تھا، اس حادثےکے بعد چینی کمپنی نے گومل زام ڈیم پر تعمیراتی کام چھوڑ دیا.

پھر حکومت پاکستان کی درخواست پر امریکی حکومت نے ادارہ برائے ترقی ( یو ایس ایڈ) کے ذریعے 40ملین ڈالرز کی خطیر رقم بطور معاونت فراہم کی، جس کے بعد ڈیم پر تعمیراتی کام شروع ہوگیا مگر 2010 کے تباہ کن سیلاب اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے ڈیم پر تعمیراتی کام سست روی کا شکاررہا اور علاقہ دامان کے معاشی و معاشرتی بگاڑ میں اضافہ ہوتا چلاگیا.

ماہرین کہتے ییں کہ جنوبی وزیرستان میں زیرتعمیر گومل زام ڈیم کیثرالجہتی پراجیکٹ ہے، جس سے ملک میں بجلی کے پیداوار میں اضافہ ہوگا اور ساتھ ہی دریائے گومل، ژوب، وانا توئی کے ندیوں کا 1.14ملین ایکڑ فٹ تک کا پانی ذخیرہ کیا جائے گا۔ ان کے علاؤہ 231،893 ایکڑ اراضی کے تخمینی رقبے میں زراعت کی ترقی اور مویشیوں کی نشونما کے نتیجے میں چارے اور مچھلی کی کاشت کا باعث بنے گا، تیز سیلابوں کو قابوکرکے سیلاب بچاؤ ڈیم کے طور پر بھی کام کرے گا، ضلع ٹانک، ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور خاص طورپر تحصیل کلاچی جیسے ایک پسماندہ علاقے میں معاشرتی اور معاشی حالات کی بہتری کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری، ماحول کا تحفظ اور خوشحالی کا ذریعہ ہوگا۔

اس منصوبے کی تکمیل سے لوگوں کو بجلی کی پیداوار سے 700 ملین روپے، زراعت سے2.5 ملین روپے اور سیلاب کے نقصانات سے بچاؤ کے ضم میں 80 ملین روپے تک ہر سال بچت ہوگی ہوگی.

رپورٹس کے مطابق گومل زام ڈیم پر تعمیراتی کام 2002 میں شروع ہوا ،اور 2013 میں مکمل ہوا اور 2015ستمبر میں پہلی بار ڈیم کا پانی نہروں میں چھوڑا گیا، 2020 ستمبر میں اس ڈیم کے فعال ہوئے کو 5 سال گزر گئے ، لیکن عوام اس منصوبہ سے مطمئین نظر نہیں آرہی، عوام کے مطابق جوخواب ان کو دکھائے گئے وہ ابھی تک پورے نہیں ہو پا رہے،اکبر خان جیسا کم عمر بچا کھیلنے کود نے کی عمر میں 50 ہزار روپے کے عوض سال بھر جنگلوں اور بیابانوں میں سرد و گرم موسموں کی شدت کو کم عمری میں جھیلتے ہوئے ننگے پاؤں مال مویشی چرانے پر مجبور ہے، اکبرخان نے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ جب کہیں مجھے میرے ہم عمر لڑکے مل جاتے ہیں تو میں ان کے ساتھ کشتی لڑکر اپنا شوق پورا کرلیتا ہوں۔

اسی معاملے پر ہم نے ایک متعلقہ سرکاری افسر سے بات کی ، جن کی خواہش تھی کہ ان کا نام سامنے نہ لایا جائے ، ان کا کہنا تھا کہ لوگوں نے ڈیم بنانے سے جو امیدیں وابستہ کررکھی ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ڈیم بن جانے سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی، اس ڈیم نے یقینا عوام کو فائدہ کچھ حد تک پہنچایا ہے، جیسے جہاں جہاں سے نہریں گزریں، وہاں کی زمین کی قیمت بڑھ گئی، پہلے بارانی زمینوں سے جتنی فصل ملا کرتی تھی، اس میں 10فیصداضافہ ہوا ہے اور ملکی بجلی میں 8.7 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے لہذا اس ڈیم پر ابھی بھی کام چل رہا ہے جو کہ مزید 1 سال اور لے گا لیکن ایک منصوبے سے نہ غربت ختم ہوگی نہ لوڈشیڈنگ ختم ہوگی اور نہ سیلاب قابو میں آئیں گے.

ڈیرہ اسماعیل خان کے سینئر صحافی اسلم اعوان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر واقعی سبز انقلاب چاہتے ہیں تو گومل زام ڈیم کی طرح مزید 4 چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائیں جایئں، ٹانک زام پر، شیخ حیدر زام پر، درابن زام پر اور چودھوان زام پر تو تب ہی علاقہ دامان میں سبز انقلاب برپا ہوگا، معیشت کو ترقی ملے گی لوگوں کو روزگار ملے گا ڈیم کے فائدہ مند اہداف سے مردوں، عورتوں اور بچوں کو فائدہ حاصل ہوگا۔

ضروت اس امر کی ہے کہ حکومت شیخ حیدر زام ڈیم کی تعمیر کے لیے ٹھوس اقدامات اُٹھائے شیخ حیدر زام کی تعمیر سے تحصیل کلاچی اور تحصیل درابن کے سینکڑوں کلومیٹر پر محیط چیٹیل میدان سونا اُگلنے کے قابل ہوجائے گی، جس میں قابل ذکر علاقہ زڑکئی، کوٹ لالو، کوٹ مستان، کوٹ جان خانی، کوٹ مدے، کوٹ عیسی خان، گنڈی عاشق، کوٹ سلطان، کوٹ ولی، کربلا اور گھرہ محمود شامل ہیں جس سے اکبر خان جیسے سینکڑوں بچے اس کم عمری میں مال مویشی چرانے کی بجائے حصول تعلیم اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے قابل ہو جائیں .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے