معراج النبی ﷺ کے بارے میں نظریات

معراج کب ہوئی‘ اس کے بارے میں ایک سے زائدا قوال وروایات ہیں ‘ لیکن روایات کا یہ اختلاف واقعہ کی حقانیت پر اثرانداز نہیں ہوتا‘ کیونکہ اصل مقصود واقعے کا حق ہونا اور اس کا بیان ہے‘ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے تاریخ کا بیان ثابت نہیں ہے‘ کیونکہ تاریخ کا تعیُّن معراج کے ایک حقیقت ہونے اوراُس کے مقصد کے لیے ضروری نہیں ہے۔ راویانِ حدیث نے اپنی اپنی یادداشت کے مطابق حوالہ دیا ہے‘ تا ہم مشہور روایات کے مطابق یہ عظیم المرتبت اوربے مثال واقعہ ہجرتِ نبو ی سے کم وبیش ڈیڑھ سال قبل27رجب المرجب کی شب کو وقوع پذیر ہوا۔

غلام احمد پرویز صاحب سرے سے کسی معراجِ جسمانی یا مَنامِی (یعنی خواب کے عالم میں‘جسے ”رؤیا‘‘کہتے ہیں)کے قائل نہیں ہیں۔ بنی اسرائیل:1میں رات کے جس سفر یا سیر کا ذکر ہے‘ان کے نزدیک اِس سے مرادہجرت کا واقعہ ہے ‘جو رات کے وقت ہوا اور ”مسجدِاَقصیٰ‘‘سے مراد مدینۂ مُنوّرہ ہے ‘جو اُس وقت ”یثرب ‘‘کہلاتاتھا‘حالانکہ اس وقت یثرب میں کوئی مسجد موجودہی نہیں تھی۔

چنانچہ وہ”سُبْحَان َالَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں : ‘ ‘مکہ کی سرزمین حضور(اور آپ کی جماعت ) پر تنگ ہوچکی تھی‘ اس لیے آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ‘ جہاں کی فَضا آپ کے مشن کے لیے وسیع اورکشادہ تھی ۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ ”سَریٰ یَسْرِی‘‘ سے ہے اور ”لَیْلاً ‘‘ تاکیدِ مزید کے لیے ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ حضورنے ہجرت رات کے وقت فرمائی تھی‘(لغات القرآن ‘ ص:872)‘‘۔ مزید لکھتے ہیں:””اَلْمَسْجِدُالْاَقْصٰی‘‘ بہت دور کی مسجد ‘ عام طور پر اس سے مراد ”بیت المقدس‘‘ لیا جاتاہے‘ لیکن ہمارے نزدیک اس سے مراد مدینۂ منورہ ہے ‘ جو مکہ سے قریب تین سو میل دور ہے اور جس کی طرف نبیِ اکرم ﷺ رات کے وقت ہجرت کرکے تشریف لے گئے تھے اور جسے اب اس جماعت کی سجدہ گاہ بننا تھا‘ یعنی ان کے نظامِ اطاعت وفرماں پذیری کا مرکزی مقام‘(لغات القرآن‘ص:1370-71)‘‘۔

مولانا امین احسن اصلاحی بھی حالتِ بیداری میں معراجِ جسمانی کے قائل نہیں ہیں ‘بلکہ اِسے ”رُؤیا‘‘(یعنی خواب )سے تعبیر کرتے ہیں‘اس فرق کے ساتھ کہ انبیائے کرام کے رُؤیا ‘”رُؤیائے صادِقہ ‘‘ہوتے ہیں ‘جو ”وحی‘‘ کی ایک صورت بھی ہے ‘ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

”رہا یہ سوال کہ یہ جو کچھ آپ کو دکھا یا گیا ‘ ”رُؤیا ‘‘ میں دکھایا گیا یا بیداری میں‘ تو اس سوال کا جواب اسی سورہ میں آگے قرآن نے خود دے دیا ہے‘ فرمایا ہے:”وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ أَرَیْْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ‘‘ترجمہ: ”اور ہم نے اِس ”رُؤیا ‘‘ کوجو تمہیں دکھائی‘ لوگوں کے لیے فتنہ ہی بنادی‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہاں جس ”رُؤیا ‘‘ کی طرف اشارہ ہے ‘اُس سے اِس ”رُؤیا ‘‘کے سوا کوئی اور” رُؤیا ‘‘مراد لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘ جس کا ذکر زیرِ بحث آیت میں ”لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا‘‘ کے الفاظ سے ہوا ہے۔ لفظ ‘ِ’اِرَا ئَ تْ‘‘ قرآن میں متعدد مقامات میں ”رُؤیا ‘‘میں دکھانے کے لیے آیا بھی ہے اور مفسرین نے اس سے یہی ”رُؤیا‘‘ مراد بھی لی ہے۔ اس وجہ سے اس کا ”رُؤیا‘‘ ہونا تو اپنی جگہ پر واضح بھی ہے اور مُسلّم بھی‘ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ” رُؤیا ‘‘کو خواب کے معنی میں لینا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ خواب” خوابِ پریشاں ‘‘بھی ہوتے ہیں‘ لیکن حضرات انبیائِ علیہم السلام کو جو”رُؤیا‘‘ دکھائی جاتی ہے‘ وہ” رُؤیائے صادقہ‘‘ہیں اور وحیِ الٰہی کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں پر جس طرح فرشتے کے ذریعے سے کلام کی صورت میں اپنی وحی نازل فرماتاہے‘ اسی طرح کبھی ”رُؤیا‘‘ کی صورت میں بھی ان کی رہنمائی فرماتاہے‘(تدبر قرآن ‘ جلد:4 ص: 475)‘‘۔

مشہور سکالر جناب سرسید احمد خاں دیگر مُتَجَدَّدین سے دس قدم آگے ہیں ‘وہ تو سرے سے معجزات کے قائل ہی نہیں ہیں ‘اس لیے وہ اُن کی ایسی تعبیروتشریح کرتے ہیں جو عقل کے مطابق ہو یا بقول اُن کے قوانینِ فطرت کے مطابق ہو ؛چنانچہ سرسید احمد خاں ”معراج النبی ﷺ ‘‘ پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”رسول اللہ ﷺ کا جسمانی طورپر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف ہے اور عقلاً مُحال ہے ۔اگر معراج النبی ﷺ کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیاجائے ‘تویہی کہاجائے گا کہ اُنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دیناکہ اللہ اِس پر قادر ہے ‘یہ جاہلوں اور مرفوع القلم لوگوں کا کام ہے ‘یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں ‘سچے مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتے ۔قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابلِ قبول نہیں ہے۔ایسی تمام دلیلوں کو اُنہوں نے راوی کے سَہواور خطا ‘ دوراَزکار تاویلات ‘فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا ‘(تفسیرالقرآن ‘ جلد2ص:122-123)‘‘۔یہ سرسید احمدخاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے ۔الغرض سرسید معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور فاتر العقل قرار دیتے ہیں ‘ہمیں وحیِ ربانی کے مقابل کھڑی ہونے والی عقل کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طعن قبول ہے ‘کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی عشقِ مصطفی ﷺ کا تقاضا ہے۔

اس سے آپ پر واضح ہوگیا کہ جناب سرسید احمد خاں کے نزدیک قانونِ فطرت اور عقل کے منافی مشہور روایات اور صحیح احادیث بھی قابلِ قبول نہیں ‘لہٰذا اُن کے نزدیک ایسی تمام روایات واحادیث رَد کردی جائیں گی ۔اس کے برعکس ہر مسلمان کے نزدیک معیارِ حق وحی ربانی اور فرمانِ رسول ہے‘ نہ کہ قوانین ِ فطرت ۔ ہم وحیِ ربانی کو ماورائے عقل توکہہ سکتے ہیں ‘لیکن اسے ضدِّ عقل(Irrational)ہرگز نہیں کہہ سکتے اورعقلی بنیاد پر وحی ربانی کو رَد کرنے کے مقابلے میں عقل کی نارسائی کا اعتراف بہتر شِعار ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ایسے اُمور وجود میں آرہے ہیں ‘جن کو آج سے چند سوسال پہلے کا انسان اِسی طرح قوانینِ فطرت کے خلاف اور عقلی اعتبار سے مُحال تصورکرتا ۔ آج ہم اپنی جسمانی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ انسان سائنسی علم اور ٹیکنالوجی کی بدولت فضاؤں میں محوِپروازہے‘ ہزاروں سیٹلائٹ فضا میں مُعلّق ہیں ۔ انسانی ساختہ راکٹ کی طاقت سے خلائی شٹل چاند پر پہنچی اور واپس صحیح سالم اُتر آئی اور ابھی انسانیت کا یہ سفرِ ارتقا جاری ہے۔اگر آج سے پانچ سوسال پہلے کے انسان کے سامنے کوئی اس طرح کا دعویٰ کرتا ‘توکیا اِسی طرح مُحالِ عقلی اور قانونِ فطرت کے خلاف قرار دے کر اُسے رَدنہ کردیاجاتا‘ اسی لیے تو علامہ اقبال نے کہا تھا :
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے
کہ عالَم بشریت کی زد میں ہے گردوں

یعنی واقعہ معراج نے انسان کے لیے بالائی فضاؤں اور خلاؤں میں کمندیں ڈالنے کے امکانات روشن کیے ۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت بلاشبہ انسان کی پیداکردہ مادّی طاقت اور عقلِ انسانی کے مقابلے میں لامحدود ہے ‘اِسی لیے تو غالب نے معراج النبی ﷺ کی رفعتوں کے بارے میں کہاتھا :
ہر کس بقدر خویش بجائے رسیدہ است
آں جاکہ جائے نیست ‘تو آنجار سیدہ ای

مفہوم: ”تمام اصحابِ کمال (یعنی انبیائے کرام علیہم السلام) اپنی اپنی استعداد اور شان کے مطابق رفعتوں کے ایک مقام تک پہنچے‘ یا رسول اللہﷺ!مگر آپ رفعتوں اور بلندیوں کے اُس مقام(یعنی حضوریِ بارگاہِ ربّ العالمین) تک پہنچے کہ جہاں زمان ومکان کی حدیں ختم ہوجاتی ہیں ‘‘ اسی کو لامکاں سے تعبیر کرتے ہیں‘اسی تناظر میں امام احمد رضا قادری نے کہا :
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے ‘ سر عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہیں جن کے ہیں یہ مکاں ‘ وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں

علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں: ” سدرۃ المُنتہیٰ کیاہے‘انسانی فہم واِدراک کی سرحد کے اخیر پر ایک درخت ۔کیااس کوشُؤُوْن وصفات ِالٰہی کی نیرنگی نے ڈھانک لیا‘کیاانسانی فہم وادراک کی اخیر سرحد کادرخت صرفشُؤُوْن وصفات کی نیرنگی کا مظہر ہے‘کیا یہاں پہنچ کر کون ومکان اوروجوب وامکان کا عقدۂ مشکل حل ہوگیا ‘کیا دل بھی دیکھتاہے ‘حضور ﷺ نے دل کی آنکھوں سے کیادیکھا‘دیدۂ چشم سے کیا نظر آیا‘آپ ﷺ کو اس سفر میں آیاتِ ربانی دکھائی گئیں ‘مگر یہ مشاہدۂ قلب تھایا معائنۂ چشم‘ع:”رازِ ایں پردہ نہاں است ونہاں خواہد بود‘(سیرۃ النبی ‘ جلدسوم‘ص:268)‘‘۔الغرض علامہ شبلی نعمانی واضح موقف اختیار نہیں کرتے ‘اس عبارت کے سیاق وسباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ شبلی نعمانی معراجِ جسمانی کے قائل نہیں ہیں‘ لیکن شاید وہ مَصْلِحَۃً اپنے اس موقف کو بیان نہیں کرنا چاہتے تاکہ اُن کے مشن میں رکاوٹیں پیدا نہ ہوں‘ کیونکہ جمہورِ علمائے اسلام تو معراجِ جسمانی کے قائل ہیں‘ اس لیے وہ فارسی جملہ استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”یہ حقیقت کہ معراج جسمانی تھی یا عالمِ رؤیا میں ہوئی ‘یہ مشاہدۂ قلب تھا یا معاینۂ چشم‘ اس راز پر پردہ پڑا ہوا ہے اور اسے پردے ہی میں رہنا چاہیے ‘‘۔”شُؤُوْن‘‘کا مفہوم ومعنی ہے: ”قدرتِ الٰہی کے بڑے بڑے مظاہر اور باری تعالیٰ کی عظیم شانیں‘‘جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”وہ ہرآن نئی شان میں ہے‘ (الرحمن:29)‘‘۔

اِسی لیے تو بعض اہلِ علم کہتے ہیں : معراج کے موقع پر زمان ومکان کی نبضیں رُک گئیں اور رسول اللہ ﷺ کے لیے اللہ کی قدرت سے وجوبِ امکان کے فاصلے سمٹ گئے ‘علامہ شبلی نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد یقینا ملاحظہ فرمایاہوگا : ”نگاہِ(مصطفی) نے جو دیکھا ‘ قلبِ (مصطفی) نے اُس کی تکذیب نہیں کی (یعنی تصدیق کی ) ‘کیا تم اُن سے اُس پر جھگڑ تے ہو‘جواُنہوں نے دیکھا ‘(النجم: 11-12)‘‘۔

رسول اللہ ﷺ کے اِس دعوائے معراج کے پہلے مخاطَب اہلِ مکہ تھے ‘وہ ا ہلِ زبان بھی تھے اور اُنہوں نے دعوے کی حقیقت کو جان بھی لیاتھا ۔اگریہ محض خواب میں مسجدِ حرام سے مسجدِا قصیٰ یا آسمانوں کی سیر کرنے کادعویٰ ہوتا ‘تواِس پر اتنی بحث وتمحیص کی نوبت ہی نہ آتی۔ آج بھی کوئی شخص عالمِ خواب میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب کی سیر کا دعویٰ کرسکتاہے۔ اعتراض کا سبب تو یہی تھاکہ اُنہوں نے اس دعوے کو خواب پر محمول نہیں کیا ‘بلکہ عالمِ بیداری میں بظاہر ایک ناقابلِ یقین سفرکا دعویٰ سمجھا ۔اسی لیے توقرآن نے اسے فتنہ یعنی آزمائش قرار دیاہے اوراس کسوٹی کے ذریعے مومنینِ صادقین اور معانِدین و مُنکرین کو چھانٹ کر جداکردیا ۔ کُفارِ مکہ نے اسے قوانینِ فطرت کے خلاف اور عقل کی ضِد جانا اور حضرتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے معراج کی بابت سوال ہوا:کیا آپ نبی ﷺ کے اس دعوے کی تصدیق کریں گے کہ وہ رات کو بیت المقدس گئے اور صبح سے پہلے واپس آگئے‘ انہوں نے فرمایا: بالکل! میں ضرور اس سے بھی زیادہ عقل کے لیے حیران کن چیزوں کی تصدیق کروں گا‘ وہ صبح وشام آسمان کی خبریں لاتے ہیں اور میں اُن کی تصدیق کرتا ہوں‘ (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد‘ ج:3ص:94)‘‘۔

بشکریہ دنیا نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے