جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے مُقدمہ میں خود دلائل دینے فُل کورٹ کے سامنے پیش

پہلے صُبح آٹھ بجکر پچاس منٹ پر سُپریم کورٹ آیا تھا اور نو بجکر چالیس منٹ پر سینیٹ الیکشن سے متعلقہ صدارتی ریفرنس پر سُپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ کی رائے سُن کر جلدی جلدی وی لاگ ریکارڈ کرکے کولیگ عادل علی کے ساتھ تقریباً گاڑی دوڑاتا ہوا دفتر واپس پہنچا تھا۔ اب دوبارہ گیارہ بجکر پندرہ منٹ پر سُپریم کورٹ کے واک تھرو گیٹ سے گُزرا تو سامناسینیئرصحافیوں حسنات ملک اور ثںااللہ سے ہوگیا۔ دونوں سینیئرز نے پوچھا کہ صدارتی ریفرنس پر سُپریم کورٹ کی رائے کا آپ نے کیا مطلب لیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ٹیکنالوجی کے استعمال کرکے ووٹ کی رازداری ختم کردی گئی ہے اور الیکشن کمیشن کو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور جسٹس اعجازالاحسن کی مُشترکہ تجویز کے تحت ووٹ پر بار کوڈ ڈالنے کا اشارہ دیا گیا ہے۔ ایکسپریس ٹربیون کے سینیئر صحافی حسنات ملک نے میرے رائے سے اتفاق اور ڈان نیوز کے سینیئرصحافی ثنا اللہ نے اختلاف کیا۔ جوں جوں کورٹ روم نمبر ون کی طرف بڑھ رہا تھا راستے میں اپنے سینیئرز قیوم صدیقی، مطیع اللہ جان، عاصم علی رانا اور دیگر سے رائے شیر کرتا اور اُنکی سُنتا کمرہِ عدالت کے باہر پہنچ گیا۔ موبائل خاتون پولیس اہلکاروں کے پاس جمع کروا کر پورے ساڑھے گیارہ بجے کمرہِ عدالت میں داخل ہوا تو سرپرائز ملا کہ فُل کورٹ کے دس ججز تو ابھی نہیں پہنچے تھے لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پیٹشنر وُکلا کے لیے مخصوص نشستوں پر دلائل کے لیے مُخصوص روسٹرم کے بالکل قریب دائیں طرف بیٹھے ہیں۔

سفید شرٹ اور گرے کلر کی ٹائی اور سوٹ میں ملبوس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اگلی نشست پر دائیں ہاتھ اُنکی اہلیہ مسز سرینا عیسیٰ اور اُنکے ساتھ بیٹی بیٹھی تھیں جبکہ مسز سرینا عیسیٰ کے ساتھ ایف بی آر میں پیش ہونے والے نوجوان وکیل کبیر ہاشمی کالے سوٹ میں چند قدم پیچھے روسٹرم کے بالکل سامنے کھڑے تھے۔ کمرہِ عدالت میں زیادہ رش نہیں تھا اور صحافی تو کوئی بھی نہیں تھا۔ کورٹ روم نمبر ون سُپریم کورٹ کا سب سے بڑا کمرہِ عدالت ہے، جِس کی چھت کے ایک سو پچاسی خانے ہیں جبکہ اتنے بڑے کمرہِ عدالت کو روشن رکھنے کے لیے بائیس لیمپ اور پچیس ایل ای ڈی فلیش لایٹس نصب کی گئی ہیں۔ کمرہِ عدالت میں وڈیو لنک کے لیے نصب چار ایل ای ڈیز پر کراچی رجسٹری میں رشید اے رضوی ایڈوکیٹ بیٹھے نظر آرہے تھے جبکہ سینیئر قانون دان حامد خان ایڈوکیٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے پچھلی قطار میں براجمان تھے۔

تھوڑی دیر مُشاہدہ کرنے کے بعد چل کر نوجوان وکیل کبیر ہاشمی کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود پیش ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ کبیر ہاشمی نے ہاں میں جواب دیا تو صحافیوں کے لیے مخصوص نشستوں پر آکر بیٹھ گیا اور دوبارہ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور مسز سرینا عیسیٰ پر نظریں جما لیں۔ مسز سرینا عیسیٰ ہماری دیسی زُبان میں کچی پینسل سے اپنی دستاویزات پر کُچھ نوٹ کررہی تھیں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خاموش بیٹھے تھے اِس دوران انہوں نے وکیل کبیر ہاشمی کو دو بار قریب بُلا کر کُچھ بات کی۔ جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک ایڈوکیٹ اور بیرسٹر صلاح الدین احمد نہ تو کمرہِ عدالت میں موجود تھے اور نہ ہی وڈیو لنک پر کراچی رجسٹری میں گیارہ بجکر چالیس منٹ پر بالاخر کورٹ روم نمبر ون کا ججز کے داخلہ کے لیے مخصوص دروازہ کُھلا اور سبز شروانیوں میں ملبوس دربان کمرہِ عدالت میں تیزی سے داخل ہوائے کہ کورٹ آگئی ہے اور سب سے پہلے فُل کورٹ کا حصہ بننے والے نیے چہرے جسٹس امین الدین خان نے انٹری دی جبکہ اُنکے پیچھے چلتے ہوئے دیگر ججز بھی داخل ہوکر اپنی نشستوں پر آکر کھڑے ہوگئے اور کمرہِ عدالت میں موجود ہر شخص بشمول جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی معزز ججز کے احترام میں اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے اور تعظیم میں علامتی طور پر تھوڑا سا جُھک کر ججز کو سلام کیا۔

آج بینچ جب بیٹھا تو معزز ججز کی نشستیں بالکل بدل چُکی تھی اور جو اِدھر تھے وہ اُدھر اور جو اُدھر تھے وہ اِدھر آچُکے تھے۔ یعنی کہ بینچ کے نئے رُکن سول لا کے ماہر جسٹس امین الدین خان فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کے دائیں طرف سب سے آخر میں بیٹھے تھے جہاں اِس سے قبل جسٹس قاضی مُحمد امین احمد بیٹھتے تھے جبکہ اختلافی نوٹ لِکھنے والے ججز بھی دائیں ہاتھ ہی بیٹھے تھے جِن میں سے جسٹس مقبول باقر بینچ کے سربراہ کے بالکل دائیں ہاتھ اور اُن کے ساتھ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی بیٹھے تھے۔ دس رُکنی فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کے بائیں ہاتھ فیصلے سے اتفاق کرنے والے ججز بیٹھے تھے جِن میں سے سب سے پہلے جسٹس منظور ملک پھر جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور اُن کے ساتھ جسٹس سجاد علی شاہ اور پھر جسٹس مُنیب اختر جبکہ سب سے آخر میں جسٹس قاضی مُحمد امین احمد بیٹھے تھے۔

بینچ کے بیٹھتے ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود روسٹرم پر اکر کھڑے ہوگئے جبکہ اُنکے پہلو میں کھڑے ایک نسبتاً عُمر رسیدہ وکیل نے بینچ کو آگاہ کیا کہ مُنیر اے ملک بیمار ہیں اِس لیے پیش نہیں ہوسکے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی بتایا کہ مُنیر اے ملک نے اُنہیں یہی پیغام بھیجا تھا۔ دس رُکنی فُل کورٹ کے سربراہ اور اگلے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عُمر عطا بندیال جو اب سُپریم جوڈیشل کونسل کے رُکن بھی ہیں، انہوں نے وُکلا کے لیے مخصوص روسٹرم پر موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے استفسار کیا کہ آپ خود دلائل دیں گے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اثبات میں جواب دیا اور فُل کورٹ سے درخواست کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں آغاز کروں اور جسٹس عُمر عطا بندیال نے اجازت دے دی۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت اہم مُقدمہ ہے جِس میں بہت کُچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ یہ احتساب اور شفافیت کا معاملہ ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فُل کورٹ کے دس ججز سے کہا کہ آپ کے سامنے صرف ایک جج کے کنڈکٹ کا ہی نہیں بلکہ حکومت اور سُپریم جوڈیشل کونسل کے کنڈکٹ کا بھی معاملہ ہے۔ اِس موقع پر جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ اِس مُقدمہ پر لوگوں کی نظر اِس لئے نہیں کے وہ مُجھ سے مُحبت کرتے ہیں بلکہ ہم ججز پر عوام کی نظر ہوتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میری ساکھ کا معاملہ تو سُپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے ہے اور مُجھے کسی قسم کی شہرت کا شوق نہیں لیکن میرے خلاف جو صدارتی ریفرنس دائر ہوا وہ ایک پاکستان کے سربراہِ مُملکت صدر عارف علوی نے ادارے (سُپریم کورٹ) کے سربراہ (چیف جسٹس سُپریم کورٹ) کو بھجوایا گیا تھا لیکن آخر کیسے صرف اِن دو اعلیٰ عہدیداروں کے ہاتھ موجود ریفرنس میڈیا کو لیک ہوگیا؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اُٹھایا کہ میں نے کسی پر الزام نہیں لگایا لیکن حکومت نے آج تک نہیں بتایا کہ کیا یہ ریفرنس انہوں نے جاری کیا یا کیسے میڈیا تک پہنچا۔

اِس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ مسز سرینا عیسیٰ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اپنا دُکھ بیان کیا کہ ہم ناقابلِ بیان تکلیف سے گُزرے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دائیں ہاتھ بیٹھی اپنی اہلیہ مسز سرینا عیسیٰ کی طرف دیکھتے ہوئے اُنکو مُخاطب کرکے کہا کہ میں آپ سے افسوس کا اظہار کرتا ہوں کیونکہ آپ اِس سلوک کی بالکل حقدار بالکل نہیں تھی جو کُچھ آپ کے بارے میں روزانہ عدالتی سماعت میں بولا گیا کیونکہ جج بننے کے لیے میں نے دستخط کئے تھے ناں کہ آپ نے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ نظرِ ثانی کی اپیلوں کی باقاعدہ سماعت سے قبل عدالتی کاروائی ٹی وی چینلز پر براہِ راست نشر کرنے کی اپنی استدعا پر دلائل دینا چاہیں گے۔ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے توجہ دلائی کہ وفاق کی طرف سے اٹارنی جنرل اور دیگر موجود نہیں ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ اٹارنی جنرل کو اتنی تو مہربانی کرنی چاہیے تھی کہ کسی کو کمرہِ عدالت میں بھیج دیتے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ ابھی ہم نے وفاق کو نوٹس ہی نہیں کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ سے استدعا کی کہ وہ چاہتے ہیں کہ سماعت تیز چلائی جائے کیونکہ بینچ کے ایک رُکن جج نے جلد ہی ریٹائر ہونا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ سماعت دوبارہ کسی آئینی نُکتہ یا بینچ کی تشکیل کے لیے لٹک جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اشارہ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کے بالکل ساتھ بیٹھے جسٹس منظور ملک کی طرف تھا جو اگلے ماہ اپریل میں ریٹائر ہونے جارہے ہیں۔

جسٹس عُمر عطا بندیال نے کمرہِ عدالت میں موجود اٹارنی جنرل کی ٹیم کے ایک رُکن کو روسٹرم پر بُلا کر پوچھا کہ آپ سماعت کے نوٹس لے رہے ہیں؟ اٹارنی جنرل کی ٹیم کے رُکن نے جواب دیا کہ میں صرف ذاتی حیثیت میں سماعت کا مُشاہدہ کررہا ہوں۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے معاون سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ نظرِ ثانی درخواستوں کی سماعت ہے جِس میں مُختصر دلائل ہوں گے اور اگر ہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کے مُطابق اِس کی تیز سماعت کرتے ہیں تو ہمیں سماعت میں لمبا وقفہ نہیں لیں گے تو آپ نوٹس لیتے رہیں تاکہ جب تک یہ اپیل کُنندگان کے دلائل مُکمل ہوں اٹارنی جنرل صحت یاب ہوکر آجائیں اور دلائل دے لیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فُل کورٹ سے اجازت مانگی کہ جب تک باقائدہ نظرِ ثانی اپیلوں کی سماعت شروع نہیں ہوتی وہ آج کے دِن اپنی درخواست پر دلائل دینا چاہیں گے کہ ریاستی ٹی وی، پی ٹی وی اور پیمرا کو اُنکے کیس کی سماعت کو نشر کرنے کی ہدایت دی جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بینچ سے کہنا تھا کہ وہ مُختصر بات کریں گے اور کیونکہ باوجود عدالت میں اُنکے خلاف کُچھ ثابت ہوسکا اُنکا میڈیا اور سوشل میڈیا پر یکطرفہ ٹرائل کیا گیا اور اب وہ چاہتے ہیں کہ بےشک عوام کا ایک چھوٹا حصہ ہی کیوں نہ ہو وہ چھوٹا حصہ بھی اُنکے بارے میں بدگُمانی کا شکار مت رہے کہ اُنکے مالی معاملات میں شفافیت نہیں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ میری کردار کُشی کی گئی اور اب میں چاہتا ہوں کہ لوگ ٹی وی چینلز پر میرے کیس کی سماعت براہ راست دیکھ کر جانیں کہ حقیقت کیا ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہم اپنے پیرامیٹرز میں دیکھیں گے کہ کیا رولز ہمیں ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اِس موقع پر جسٹس عُمر عطا بندیال نے اہم آبزرویشن دی کہ ہمارے سامنے آپ (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کی کردار کُشی والا کوئی مواد موجود نہیں ہے۔ دس رُکنی فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ ہم آپ کی درخواست کو بھی دیکھیں گے لیکن دوسری ساییڈ کو بھی سُنیں گے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کے معاون کو روسٹرم پر بُلا کر پوچھا کہ آپ نے درخواست پڑھی ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو جسٹس عُمر عطا بندیال نے ہدایت کی کہ آپ درخواست پڑھ لیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شفافیت کی خاطر ایسا چاہتے ہیں اور ہم دیکھیں گے کہ قانون ہمیں ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوبارہ اپنے دلائل دینے چاہے تو بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اپنے بائیں ہاتھ بیٹھے جسٹس منظور ملک سے سرگوشیوں میں مشورہ شروع کردیا اور اِس دوران ہی انہوں نے خاکی اور کالے رنگ کی سُپریم کورٹ رولز اور عدالتی فیصلوں کی ایک کتاب اُٹھا کر جسٹس منظور ملک کو پکڑائی جِس کا جسٹس منظور ملک نے کُچھ لمحات تک مطالعہ کیا اور اِس کے بعد انہوں نے جسٹس عُمر عطا بندیال کو کُچھ کہا اور پھر بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اپنے دائیں ہاتھ بیٹھے جسٹس مقبول باقر سے مشاورت شروع کردی۔

گیارہ پچپن پر شروع ہونے والی یہ مُشاورت تقریباً بارہ بجے تک چلتی رہی اور اِس کے بعد جسٹس عُمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مُخاطب کرکے کہا کہ سُپریم کورٹ کے رولز کے تحت نظرِ ثانی اپیلوں میں وہی وکیل دلائل دے سکتا جِس نے مُقدمہ میں دلائل دیئے ہوں اور یہی سُپریم کورٹ کے فیصلوں میں بھی قرار دیا گیا ہے تو اگر آپ کے وکیل مُنیر اے ملک بیمار ہیں تو وہ اپنی میڈیکل رپورٹس کے ساتھ تحریری بیان جمع کروا دیں کہ وہ دلائل دینے سے معذرت کررہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ مُنیر اے ملک نے کراچی سے اسلام آباد آنے کے لے فلائیٹ تک بُک کروا رکھی تھی لیکن آخری لمحے پر بیمار ہونے کی وجہ سے سفر نہ کرسکے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم سُپریم کورٹ کے رولز میں صرف ایک مُقدمے لیے نرمی نہیں کرسکتے۔ درخواستگزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ بالکل میں بھی نہیں چاہوں گا کہ رولز نرم نہ کیے جائیں اور ہر مُقدمہ میں رولز اور قانون کا اطلاق کیا جائے۔ بیس منٹ کی مُختصر سماعت کے بعد فُل کورٹ سماعت کل تک کے لیے موخر کرکے اُٹھ گیا۔

ججز کمرہِ عدالت سے نکل گئے تو ہم تین رپورٹرز عبدالقیوم صدیقی، ناصر اقبال اور راقم بھاگ کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پاس پہنچ گئے۔ سینیر صحافی عبدالقیوم صدیقی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے سوال پوچھا کہ آپ سماعت کو براہِ راست کیوں نشر کروانا چاہتے ہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا آپ میری درخواست پڑھ لیجئیے۔ صحافی عبدالقیوم صدیقی نے اب کی بار پیشکش کردی کہ اگر آپ چاہیں تو میں براہِ راست سماعت کا اہتمام کرسکتا ہوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ آپ اپنی بات سے مُکر تو نہیں جائیں گے میں آپ کی پیشکش سے عدالت کو آگاہ کردوں؟ عبدالقیوم صدیقی نے جواب دیا کہ بالکل کردیں۔ اِس کے فوری بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ مسز سرینا عیسیٰ اور بیٹی کے ساتھ کمرہِ عدالت سے چلے گئے۔

کمرہِ عدالت سے نکلتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیا المیہ ہے کہ سُپریم کورٹ کا ایک جج اپنی کردار کُشی اور اپنی اہلیہ کے لیے انصاف مانگنے ذاتی حیثیت میں اپنے ساتھی ججز کے سامنے آکھڑا ہوا ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سُپریم کورٹ رولز اور فیصلوں کا حوالہ تو دیا لیکن اِن ہی رولز کے برعکس سُپریم کورٹ نے مسز سرینا عیسیٰ کے خلاف فیصلہ سُنا رکھا ہے جو اِس صدارتی ریفرنس میں فریق بھی نہیں تھیں اور اب اُنکا شوہر اُنکے اور اپنے لیے فُل کورٹ سے انصاف کا طلبگار ہے۔ یہ ہر لحاظ سے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک غیر معمولی سماعت تھی کہ سُپریم کورٹ کے ایک جج کمرہِ عدالت میں بطور درخواست گزار پیش ہوکر اپنے ساتھی ججز کے سامنے دلائل دے رہے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے