یہ علاقہ زمانہ قدیم میں ایک جانب بیرونی حملہ آوروں کی گزرگاہ رہا تودوسری جانب ماضی میں مقامی جنگجومزاج حملہ آوروں کی آماجگاہ بھی بنا رہا۔ ایک طرف ہن، یونانی، عرب ،ترک اور مغل یہاں سے گزر کر ہی ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تو دوسری طرف اس علاقے میں جنم لینے والے غزنی اور غور کے جنگجووں نے بھی ہندوستان پر حملوں اور اسے زیر نگیں بناکر گہرے اثرات مرتب کیے۔تب یہ علاقہ خراسان کہلاتا تھا۔ اسی بکھرے ہوئے خراسان کو احمد شاہ ابدالی کے دور میں افغانستان کی موجودہ شکل ملی، جس کے بعد افغانستان بیرونی حملہ آوروں کیلئے ترنوالہ رہا نہ ہی مشرق سے مغرب ، مغرب سے مشرق یا شمال سے جنوب کی جانب کسی حملہ آور کو اِسے عبور کرنے کی جرات ہوسکی۔ افغانستان کو جنگجو مزاج اقوام کا علاقہ بھی کہا جاتا ہے، افغانستان کی ثقافت بھی جنگجوانہ عناصر کی حامل ہے۔ بنیادی طور پر افغان ثقافت کی تین اہم بنیادیں ہیں، ایرانی ثقافت، پشتون ثقافت اور اسلام! اس میں اسلام کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ افغانیوں کیلئے ان کا ملک، قبیلے سے وفاداری، مذہب، اپنا شجرہ نسب اور سب سے بڑھ کر آزادی بہت اہم ہیں۔ مذہب کے ساتھ ساتھ شاعری اور موسیقی بھی ان کی زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں۔ افغانستان ایک تاریخ رکھتا ہے جسکے نشان جابجا آثارِ قدیمہ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔پولو سے ملتا جلتا کھیل بز کشی افغانوں کا قومی کھیل ہے، اگرچہ تعلیم کی شرح کم ہے مگر قرآن و مذہب کی تعلیم اور شاعری خصوصاً قدیم فارسی شاعری انکی زندگی اور خیالات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ افغانستان نے ماضی میں بڑی بڑی شخصیات کو جنم دیا،اگرچہ بعض بڑی شخصیات کو دنیا عرب سمجھتی ہے حالانکہ وہ افغانستان کے علاقے خراسان میں پیدا ہوئے۔ مثلاً امام ابو حنیفہؒ کے قریبی اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا، اسی طرح بو علی سینا جسے اسلامی اور مغربی دنیاو¿ں میں اپنے وقت کا سب سے بڑا طبیب اور حکیم گردانا جاتا ہے، اس کا تعلق بلخ سے تھا، بو علی سینا کے والدبعد میں عرب خطے کی جانب ہجرت کرگئے، مولانا رومیؒ کی پیدائش اور تعلیم بھی بلخ ہی میں ہوئی تھی۔ مشہور فلسفی ابو الحسن الفارابی کا تعلق افغانستان کے صوبہ فاریاب سے تھا، اسی طرح پندرہویں صدی کے مشہور فارسی صوفی شاعر نور الدین عبدالرحمن جامی کا تعلق افغانستان کے صوبہ غور کے گاو¿ں جام سے تھا۔افغانستان کے کھانے بھی لاجواب ہوتے ہیں جن میں سے کابلی پلاو، خمیری روٹی اور تکے کباب دنیا بھر میں اپنی قسم کے مزیدار ترین کھانوں میں شامل ہیں، افغانی قہوہ کا تو جواب ہی نہیں۔
اپنی زرخیز ثقافت اور قدیم تہذیب و تمدن کا امین ہونے کے باوجود آج افغانستان کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں کیا جاتا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ روس اور امریکہ کی کشمکش اور اس علاقے میں انکے مذموم مقاصد بھی ہیں۔ گزشتہ کئی صدیوں سے بالعموم اور بیسویں صدی سے بالخصوص افغانستان مسلسل جنگ کا شکار رہا ہے ، جس کی وجہ سے افغانستان کو معاشی ترقی کی مہلت ہی نہ مل سکی۔ افغان جنگ کے دوران افغانستان کی خاصی آبادی ایران اور پاکستان کو ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئی، اس ہجرت نے افغانوں کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا اور نئی پود کو پڑھنے لکھنے اور کوئی ہنر سیکھنے کے مواقع بھی نہ مل سکے۔ افغانستان سے جن لوگوں نے ہجرت نہ بھی کی تو اُنہیں بھی جنگ نے مصروف رکھا۔ مجبوراً اسلحہ کی تجارت، جنگ بطور سلسلہ روزگار اور افیم و پوست کی تجارت ہی ان کا مقدر بنی رہی، اسکے علاوہ افغانوں کی ایک بڑی تعداد سمگلنگ سے بھی وابستہ ہوگئی، یہی وجہ ہے کہ انار اور انگور جیسے میووں کی سرزمین افغانستان میں اب پوست کے علاوہ دوسری کوئی اجناس کاشت ہی نہیں کی جاتی۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق2001ءکے بعد اگرچہ افغانستان کی معیشت نے قدرے ترقی کی مگر اس سلسلے میں کوئی قابلِ اعتماد اعدادوشمار نہیں ملتے۔ البتہ افغانستان سے باہر رہنے والے افغانیوں نے اب کچھ سرمایہ کاری شروع کی ہے۔ مثلاً 2005ءمیں دبئی کے ایک افغانی خاندان نے ڈھائی کروڑ ڈالر سے کوکا کولا کا ایک پلانٹ افغانستان میں لگایا لیکن اسکے باوجود افغانستان کو اب بھی زیادہ تر غیر ملکی امداد پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ 2006ءمیں افغانستان کے زرِ مبادلہ کے بیرونی ذخائر صرف پچاس کروڑ امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھے۔ افراطِ زر افغانستان کا ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے اور افغانی روپیہ کی قیمت بھی مسلسل گرتی رہی ہے مگر اب حالات کچھ بہتر ہیں، 2003ءکے بعد افغانستان میں14 نئے بنک بھی کھلے جن میں کئی غیر ملکی بنک بھی شامل ہیں۔افغانستان کے مسلسل انتشار میں رہنے کا نقصان صرف افغانوں کو ہی نہیں ہوا بلکہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کو بھی افغانستان کے اندرونی انتشار کے اثرات برداشت کرنا پڑے۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان میں بھی انتہاپسندی، شدت پسندی، عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی وبا نے جنم لیا۔ پاکستان میں بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، قتل و غارت اور خودکش دھماکوں جیسی بیماری بھی افغانستان کے اسی انتشار کا نتیجہ ہے۔ ان بیماریوں کی وجوہات جاننے اور علاج تجویز کرنے کیلئے منعقدہ ” ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس“ اسلام آباد میں منعقد ہوئی،اس کانفرنس کی خاص بات افغان صدر اشرف غنی اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی شرکت بھی ہے۔ یہ ”ہارٹ آف ایشیائ“ ہے کیا؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
قارئین کرام!! ایک کام کریں، اگر آپکے پاس انٹر نیٹ کی سہولت موجود ہے تو فوری طور پر انٹرنیٹ آن کریں، گوگل کو لاگ آن کریں، گوگل سرچ انجن میں ”میپ آف افغانستان“ لکھیں اور یہاں سے افغانستان کے نقشے کا ایک واضح پرنٹ نکال لیں، اس کے بعد گوگل سرچ انجن میں انگریزی کا لفظ ”ہارٹ“ (یعنی دل) لکھیں، اب دل کی واضح تصویر بھی لے لیں، تیسرے نمبر پر گوگل سرچ انجن میں ”ہینڈ گرنیڈ“ لکھیں اور اِس دستی بم کی واضح تصویر کابھی پرنٹ نکال لیں، بہتر ہوگا کہ تینوں پرنٹ لینے سے پہلے نقشے، دل اور دستی بم کی اشکال کو ”ری سائز“ کرکے ایک سائز کا کرلیں اور پھر ان کا پرنٹ لے لیں، اسکے بعد نقشے، دل اور دستی بم کی اشکال کو کاغذ پر سے قینچی کے ساتھ کاٹ لیں۔ اب تینوں کٹی ہوئے پرنٹس کو ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر دیکھیں، آپ حیران رہ جائینگے کہ افغانستان کے نقشے، دل اور دستی بم کی شکل میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ تینوں ایک ہی شکل کے معلوم ہوتے ہیں، دل کی شکل کا ہونے اور ایشیا میں بالکل وسط میں ہونے کی وجہ سے بجاطور پر افغانستان کو ایشیا کا دل (ہارٹ آف ایشیا) بھی کہا جاتا ہے۔ حقیقت میں بھی افغانستان واقعی ایشیا کا دل ہے، جس طرح دل کا کام خون کو پمپ کرکے جسم کے دوسرے حصوں کو منتقل کرنا ہوتا ہے، اسی طرح افغانستان بھی جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان ترسیل اور نقل و حمل کو ”پمپ“ کرنے کا باعث بنتا ہے۔ جس طرح اگر دل بند ہوجائے تو جسم کی موت واقع ہوجاتی ہے، بالکل اُسی طرح افغانستان بند ہونے (افغانستان میں انتشار) کا مطلب پورے ایشیا کی موت ہے۔ اسی طرح دل کیساتھ ساتھ افغانستان کی شکل چونکہ دستی بم سے بھی ملتی ہے، اس لیے افغانستان کو ایشیا کا دستی بم بھی کہا جاسکتا ہے،یعنی جس کے ہاتھ میں یہ ”دستی بم“ ہوگا، وہ اِ س دستی بم کے زور پر دنیا سے کوئی بھی کام بزور طاقت کراسکتا ہے اوراپنے مطالبات منظور کراسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں سے بالخصوص اور دو صدیوں سے بالعموم دنیا کی بڑی طاقتیں دنیا کے اس دِل اور دستی بم کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کرتی چلی آرہی ہیں۔ 70ءاور 80ءکی دہائی میں ایشیا کے اِس دل اور دستی بم پر اپنی ملکیت جتانے اور قبضہ منوانے کی کوشش میں دنیا کی ایک بڑی طاقت سوویت یونین کا شیرازہ تو بکھر گیا، اُسکے بعد 90ءکی دہائی سے لےکر اب تک امریکہ اور اسکے اتحادی ایشیا کے اِس دل اور دستی بم پر قبضہ جمانے کی کوشش میں جتے ہوئے ہیں۔
قارئین کرام!! دل اور دستی بم دونوں ایک جانب اگر بڑی نازک اور حساس چیزیں ہیں تو اسکے ساتھ ساتھ بڑی طاقتور اور خوفناک چیزیں بھی ہیں، افغانستان کو اگر واقعی ایشیا کا دل سمجھ کر آگے بڑھا جائے تو ایشیا دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے یورپ اور امریکہ سے کہیں آگے نکل سکتا ہے۔ اسی طرح اگر افغانستان کو اگر صرف ”ہینڈ گرنیڈ“ ہی سمجھا جاتا رہا اور اسے ہاتھ میں لینے کیلئے افغانستان کو مسلسل انتشار کا شکار رکھا گیا تو مذاق ہی مذاق میں یا کھیل ہی کھیل میں اِس دستی بم کی ”پن“ کسی وقت بھی کھل سکتی ہے۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں اس ”دل“ کے بالواسطہ اور بلاواسطہ اسٹیک ہولڈر کا تیار کردہ ”اسلام آباد اعلامیہ“ یقینا اس بات کا تعین کردےگا کہ ہم نے افغانستان کو دل سمجھ کر آگے بڑھنا ہے یا دستی بم سمجھ کر تباہی کے دھانے پر ہی بیٹھے رہنا ہے؟ویسے بھی اب فیصلہ ہو ہی جانا چاہیے کہ ایک عرصہ سے کشت و خون کا شکار افغانستان نے کیا بننا ہے؟دستی بم یا دل کا زیرو بم؟
بشکریہ روزنامہ ‘نوائے وقت’