دنیا کے سبھی مذاہب کی بنیادی تعلیمات زیادہ تر اخلاقیات پر مشتمل ہیں، سبھی مذاہب محبت، ہمدردی، رواداری، حسنِ سلوک اور انسان و کائنات دوستی پر زور دیتے ہیں۔
ہندو مت، یہودیت، بدھ مت، عیسائیت، اسلام، سکھ مذہب وغیرہ کی کتابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
باہم دست و گریباں رہنے والے اسلامی فرقوں کی کتابیں بھی ملاحظہ کر لیجیے اخلاقیات و حسنِ سلوک کی بہت تاکید ملے گی، لیکن اِس سب کے با وجود اہلِ مذہب متحمل، روادار اور انسان دوست کیوں نہیں بن سکے؟
میری نظر میں بنیادی خرابی مذاہب کی تعلیمات میں نہیں، اہلِ مذہب کی تفہیم میں ہے۔
جہاں بھی "انسانوں” سے حسنِ سلوک، ہمدردی کا ذکر ہے، اہلِ مذہب اُسے صرف اپنی ذات یا اپنے ہم مذہب کی حد تک محدود جانتے ہیں۔ اُن سے فکری مخالفت رکھنے والا "انسانیت” کے دائرے میں شمار نہیں ہوتا، یوں اُن کی ہمدردی مخصوص گروہ سے وابستہ ہو جاتی ہے۔
مثال کے طور پر ایک صحیح حدیث ملاحظہ ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے "المسلم من سلم الناس میں یدیہ و لسانہ” کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھوں اور زبان سے دیگر انسان محفوظ ہوں۔
اِس حدیث مبارکہ میں دیگر انسانوں میں مسلم و غیر مسلم میں کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا، اِسی حدیث کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے "المسلم من سلم المسلمون۔۔۔” کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ ہوں، یوں اِس حدیث مبارکہ کی افادیت محدود ہو کے رہ جاتی ہے۔
اسلام میں پڑوسی، ہم سفر، استاد، رشتہ دار، ماں و باپ وغیرہ کے حقوق کا جہاں تذکرہ ہے وہاں مسلم و غیر مسلم کی کوئی قید نہیں ہے، یہ حقوق سبھی انسانوں کو حاصل ہوں گے۔
اچھا اسلامی بنیادی اخلاقیات جیسے سچ بولنا، امانت ادا کرنا، اچھے اخلاق سے پیش آنا، بڑوں کا احترام کرنا وغیرہ میں بھی مسلم و غیر مسلم کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔
کافی میں امام جعفر صادق فرماتے ہیں:
کہ دوسرے دوست کا کم از کم اتنا حق بنتا ہے کہ اُس کے لیے بھی وہی پسند کرو، جو تُم اپنے لیے پسند کرتے ہو اور جسے اپنے لیے ناپسند کرتے ہو، اُس کے لیے بھی نا پسند جانو۔
اب یہ بھی عمومی ضابطہ ہے۔ اِسی طرح "نہج البلاغہ” میں حضرت علی علیہ السلام ایک خط میں اپنے ایک گورنر کو حسنِ سلوک و دیگر نصیحتیں فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لوگوں کی دو قسمیں ہیں یا تمہارے دینی بھائی ہیں یا تجھ جیسے انسان ہیں (انسان ہونے کے ناطے دونوں میں فرق نہیں ہے)۔
اب روایات میں جہاں لفظ مسلم/مؤمن ہی آیا ہے بظاہر مخاطب حضرات کو مد نظر رکھ کر ایسا کہا گیا ہے۔
قابلِ ذکر یہ بات ہے کہ نبی گرامی قدر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکی زندگی میں کفار سے بھی حسنِ سلوک اختیار فرمایا، مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیثیت ایک حاکم کی تھی، اب غیر مسلموں کو "ریاست مخالف/باغی” کی نظر سے دیکھا گیا ہے، دنیا میں کسی ملک کا شہری، اُس ملک کے آئین سے غداری کرے تو سزائے موت کا مستحق قرار پاتا ہے، لیکن نبی گرامی قدر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں معاہدہ کر کے "ریاست مخالف” عناصر کو بھی رہنے کا مکمل حق دیا، اس بات کو مدنظر رکھا جائے تو اخلاقی احادیث میں آنے والے الفاظ "مسلم/مؤمن” کی وجہ سمجھی جا سکتی ہے۔
مقاصدِ شریعت کو مد نظر رکھے جائے تب بھی "اخلاقیات” کے دائرہ کار جب تک پوری انسانیت تک نہ بڑھا دیا جائے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے، اخلاقیات کے فوائد سے معاشرتی سطح پر تب ہی بہرہ ور ہوا جا سکتا ہے جب سبھی انسانوں کو انسان سمجھا جائے، ورنہ تو ایک ہی مسلک کے پیرو کار اپنے فکری مخالف کو انسان نہیں جانتے۔
کہتے ہیں غیبت حرام ہے تو صرف ہمارے ہم مسلک کی، چوری جائز نہیں تو صرف ہمارے ہم مسلک کی، اچھا اگر آپ کا مخالف بھی یہی سوچ اپنالے تو معاشرے کی کیا حالت ہوگی، اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں۔
اپنے ہم شکل ہونے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہونے کے ناطے ہمیں بلا امتیاز سبھی انسانوں سے حسنِ سلوک کرنا ہوگا تب یہ دنیا جنت نظیر بنے گی۔