چھوٹے حل کو اتنا چھوٹا بھی نہ سمجھیں!

’’یورو بیرو میٹر‘‘ مختلف ایشوز پر سروے کرنے والا یورپ کا ایک مستند ادارہ ہے، یہ ادارہ مختلف معاملات پر عالمی معیار کے مطابق سروے کر کے اپنی ویب سائیٹ پر جاری کرتا ہے۔2011ء میں ’’یوروبیرو میٹر‘‘کی جانب سے دنیا کے بڑے مسائل پر ایک سروے کیا گیا تو اِس کے بڑے حیران کن نتائج سامنے آئے۔

مثال کے طور پر لوگوں کی نظروں میں دو فیصد ووٹوں کے ساتھ دنیا کا دسواں بڑا مسئلہ ’’اپنے مسائل سے آگاہی کا فقدان‘‘ نکلا کیونکہ لوگوں کی اکثریت کو معلوم ہی نہیں تھا کہ دراصل اُن کا اصل اور بڑا مسئلہ کیا ہے؟ سروے میں تین فیصد لوگوں کے مطابق نویں نمبر پر اہم ترین مسئلہ جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ تھا، لوگوں نے ایٹمی ہتھیاروں سے دنیا کو لاحق خطرہ کو نواں بڑا خطرہ اور مسئلہ قرار دیا۔ چار فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ آٹھویں نمبر پر اہم ترین مسئلہ وہ جنگی تنازعات ہیں جن کی وجہ سے مختلف علاقوں کا امن تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے۔ چار فیصد لوگوں نے اس سروے میں رائے دی کہ دنیا کا ساتویں نمبر پر اہم ترین اور بڑا مسئلہ متعدی، متعفن اور مہلک بیماریوں کا پھیلاؤ اور اُن بیماریوں کا علاج دریافت نہ ہونا ہے۔

اسی سروے میں پانچ فیصد شرح کے حساب سے چھٹے نمبر پر اہم ترین مسئلہ دنیا کی آبادی میں خوفناک شرح سے بڑھتے ہوئے بے ہنگم اضافے کو قرار دیا گیا۔ پانچویں نمبر پر دنیا کا اہم ترین مسئلہ توانائی کے بحران کو قرار دیا گیا کیونکہ سات فیصد لوگوں کو خدشہ تھا کہ دنیا سے توانائی کے ذخائر کا جلد خاتمہ ہو جائے گا۔ گیارہ فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ عالمی دہشتگردی ہے، یوں اس سروے کے مطابق یہ مسئلہ چوتھے نمبر پر بڑا مسئلہ قرار دیا گیا۔ اس سروے میں سولہ فیصد لوگوں نے اقتصادی کساد بازاری کو دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ کہا اور یوں یہ مسئلہ تیسرے نمبر پر سب سے بڑا مسئلہ قرار پایا۔ اسی سروے میں بیس فیصد لوگوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کو ایک بڑا مسئلہ سمجھتے ہوئے اِسے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ اسی طرح اس سروے میں لوگوں نے غربت، بھوک اور پینے کے صاف پانی کی قلت کو دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے، اس کے حق میں اٹھائیس فیصد ووٹ دیے۔ یہ سروے اس لحاظ سے دلچسپ تھا کہ غربت، بھوک اور پینے کے صاف پانی جیسے مسائل کے بارے میں تو سبھی جانتے ہیں کہ یہ دنیا کے بڑے مسائل ہیں، اسی طرح توانائی کا بحران، آبادی میں اضافے، دہشتگردی، جوہری پھیلاؤ، جنگی تنازعات اور مہلک بیماریوں کے بارے میں بھی آج ایک عام شخص بھی جانتا ہے کہ یہ دنیا کے بڑے مسائل ہیں اور یہی عالم اس سروے میں سامنے آنے والے دیگر مسائل کے بارے میں لوگوں کے شعور کا بھی ہے، لیکن ’’ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی حدت میں اضافے‘‘ کو بیس فیصد لوگوں نے دنیا کا دوسرا بڑا مسئلہ قرار دے کر خود سروے کرنے والوں کو بھی حیران کر دیا۔

یہ نتائج اس لیے بھی حیران کن تھے کہ چند سال پہلے تک ماحولیاتی تبدیلیوں کی جانب کسی کی توجہ بھی نہیں جاتی تھی، لیکن اب ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق لوگوں میں بڑھتے ہوئے شعور نے یورپ میں ماحول کو صاف ستھرا رکھنے اور آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ بنانے کی تحریک کو مہمیز کر رکھا ہے۔ ماحولیات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اسی تحریک کے نتیجے میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں دنیا بھر کی قیادت اور سمیت چالیس ہزار مندوبین نومبر اور دسمبر کے وسط میں سر جوڑے بیٹھے رہے۔ کانفرنس کے دیگر شرکاء میں مختلف آجروں، صنعت کاروں اور زراعت سے منسلک فریقین کے حقوق اور خواہشات کی علمبردار تنظیموں سمیت چالیس ہزار افرادکے ساتھ ساتھ مختلف ماحولیاتی تحفظ کے اداروں کے نمائندے بھی شامل تھے۔ دو ہفتے تک جاری رہنے والی پیرس کانفرنس کا مقصد ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کو کم کر کے اس درجے تک لانا تھا تاکہ موسمیاتی نظام کو انسان کی اپنی پیدا شدہ خطرناک آلودگی سے بچایا جا سکے۔ اس کانفرنس کے اختتام پر سامنے آنے والی خبر کے مطابق کانفرنس کے شرکاء ماحولیات کے حتمی معاہدے پر رضامند ہو گئے ہیں اور فرانس نے اس معاہدہ کو ایک جرات مندانہ اور متوازن معاہدہ قرار دیا ہے۔

اس معاہدے کے مطابق کانفرنس کے شرکاء عالمی درجہ حرارت کو دو درجے اضافے تک محدود کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔
عام زبان اور مختصرالفاظ میںاس معاہدے کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آلودگی، بالخصوصً نامیاتی ایندھن یعنی گیس یا کوئلے کے استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گیسوں کے اخراج پر قابو پانے کیلئے دنیا کی تمام حکومتوں میں باہمی اتفاق ہو گیا ہے۔ اگرچہ یہ معاہدہ ہوگیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کانفرنس کے شرکاء کے اس معاہدے پر رضامند ہونے کے باوجود اصل مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوا کیونکہ مشکلات کا آغازاُس وقت ہوگا جب 195 ممالک کواس بات پر متفق کرنے کا مرحلہ آئے گا کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے ’’کس طرح‘‘ نمٹنا ہے۔ ناقدین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ اتنا سنگین یا فوری طور پر حل طلب نہیں ہے کیونکہ اس کے حل تک پہنچنے کیلئے مزید 20 سال تک انتظار ممکن ہے، اس کے برعکس ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے کے حل تک پہنچنے کادفاع کرنے والوں کا موقف ہے کہ اس فیصلے کیلئے اتنا وقت اس لیے درکار ہے تاکہ اس پر تمام فریقین کا اتفاق رائے ہو جائے، قارئین کرام!!اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ دنیا صرف آرام، سکون اور امن کا نام نہیں ہے بلکہ یہ دنیا مسائل، الجھنوں، پیچیدگیوں اور ایشوز سے بھی بھری پڑی ہے، لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ جس طرح مسائل کا حل دانش کا متقاضی ہوتا ہے، اسی طرح اجتماعی مسائل کا حل اجتماعی دانش میں مضمر ہوتا ہے۔

ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ مسئلہ اجتماعی ہو اور اُسے کسی خاص طبقے، خطے یا قوم کے سر تھوپ دیا جائے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ مغرب خود لیزر ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا رہے اور تیسری دنیا کو اپنے ہی خطے سے نکلنے والے دستیاب معدنی وسائل استعمال کرنے سے بھی روک دیا جائے۔ یوروبیرومیٹر کے سروے کے مطابق اگر مغربی اقوام واقعی ماحولیاتی تبدیلیوں کو دنیا کا ایک بڑا مسئلہ سمجھتی ہیں تو انہیں اپنی حکومتوں پر دنیا کے دیگر ممالک (بالخصوص پسماندہ ممالک) کو وسائل اور متبادل ٹیکنالوجی کی آسان اور سستی فراہمی یقینی بنانے کیلئے دباؤ ڈالنا ہوگا۔ اگر ایسا ممکن ہوجائے تو پیرس معاہدے پر عملدرآمد کیلئے مزید بیس سال انتظار کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، اس آسان سے فارمولے پر عمل کرنا کوئی راکٹ سائنس بھی نہیں ہے کہ کسی کی سمجھ میں نہ آئے۔ مغرب اس نسخے کو ایک بار آزماکر دیکھے تو سہی، ماحولیاتی تبدیلیوں کا مسئلہ بیس سال نہیں بلکہ صرف بیس سیکنڈ میں حل ہوجائے گا اور عالمی درجہ حرارت بڑھانے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔اے عالم مغرب! بصد احترام کہنا چاہتے ہیں کہ اِس چھوٹے حل کو اتنا چھوٹا بھی نہ سمجھیں!۔

بشکریہ روزنامہ”نوائے وقت”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے