16 دسمبر:دیسی لبرل اور ولایت پلٹ انتہا پسند

فرانس اور برطانیہ میں صدیوں لڑائی رہی۔ کیلے کا جزیرہ جغرافیائی طور پر فرانس سے جڑا ہوا ہے۔ بیچ میں بیس میل کا انگلش چینل ہے اور دوسری طرف انگلستان میں ڈوور کا ساحل۔ آسمان صاف ہو تو ڈوور کے ساحل سے کیلے کے جزیرے پر اترتے پرندے دیکھے جا سکتے ہیں۔ جیسے سیالکوٹ میں کسی اونچی جگہ کھڑے ہوں تو جموں کی روشنیاں نظر آتی ہیں۔ کیلے کے جزیرے پر فرانس اور انگلستان کا دعویٰ تھا۔ 1558 ء میں گھمسان کی جنگ ہوئی۔ برطانیہ لڑائی ہار گیا۔ ملکہ میری اوّل کو اس شکست سے ایسا صدمہ ہوا کہ اس نے دربار میں کہا ۔ ’’مرنے کے بعد میرا سینہ چیر کر دیکھا گیا تو میرے دل میں فلپ (مرحوم شوہر) او رکیلے کا جزیرہ رکھے ہوں گے‘‘۔ خیال آتا ہے کہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کا دل چیرا گیا تو اس میں دو جگہ 16دسمبر لکھا نظر آئے گا۔ 16دسمبر کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہماری قوم دولخت ہوئی اور 16دسمبر کوپشاور آرمی پبلک اسکول میں ہمارے لخت جگر ہم سے چھینے گئے۔ غور سے دیکھئے ۔ یہ دونوں زخم بتاتے ہیں کہ ایک ہی سوچ کا خنجر ہمارے دل کو زخم لگاتا رہا۔ یہ وہ سوچ ہے جس نے پاکستان کو ایک قومی ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ وفاق کے تقاضے نہیں سمجھے۔ جمہور کی حکمرانی نہیں مانی اور معیشت کو ایک اجتماعی نصب العین کے طور پر قبول نہیں کیا۔ ملکہ میری اوّل کا دل دو زخموں سے ایسا مجروح ہوا کہ وہ 1558 ء ہی میں چل بسی۔ ہمارے دل میں گڑھی خدا بخش کے قبرستان کا گلزار کھلا ہے۔ امریکی خانہ جنگی کے دوران گیٹس برگ کے مقام پر ایک ہی دن کی لڑائی میں فریقین کے چھیالیس ہزار جوان کھیت رہے۔ ابراہم لنکن نے قوم کا حوصلہ بندھاتے ہوئے کہا، ’ہمیں آگے بڑھنا چاہئے ۔شہیدوں کی قبروں پر بارش ہو چکی ہے‘۔ ہمارا دکھ یہ ہے کہ ہمارے شہیدوں کی قبریں پرانی نہیں ہوتیں اور دکھ کی بوندیں مسلسل ہمارے دل پر گرتی ہیں۔ ابھی پارا چنار کے بازار میں ہمارے 22 پھول نوچے گئے ہیں۔ کسی کو یارا نہیں کہ رک کے پوچھے ۔ یہ کس کا لہو ہے ؟یہ لہو کس نے گرایا ہے؟

برس دسمبر کے یہی دن تھے ۔ پشاور اسکول پر وحشت کے حملے کی خبر آئی۔ لمحہ بہ لمحہ اعداد و شمار بدلتے رہے۔ بہت سی تفصیل ایسی جانکاہ تھی کہ بیان نہیں کی گئی اور آج بھی بیان نہیں کی جا سکتی۔ جب دشمن ہماری گھات میں تھا تو ہم دھرنے کی رسومات میں مصروف تھے۔ پھر ایک جھرجھری لے کر ہمیں بتایا گیا کہ 15جون 2014ء سے شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب میں اب فیصلہ کن لڑائی ہو گی۔ گویا جون سے دسمبر تک ہماری لڑائی فیصلہ کن نہیںتھی۔ ہمیں تو یہ بھی باور نہیں ہوتا کہ 2014ء کے پہلے چھ مہینوں میں امن مذاکرات کے نام پر کیا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ کسے وسط ایشیا کے دستکاری نمونوں کی نمائش کا شوق تھا۔ کون ہیلی کاپٹر میں اڑا اڑا پھرتا تھا۔ اور کون تھا جسے ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی موت پر گہرا صدمہ ہوا تھا۔ 16دسمبر کی شام ہم نے یہ سب بھلا دیا۔ اجتماعی مکالمے میں زخموںپر نمک پاشی نہیں کی جاتی۔ سیاست حساب برابر کرنے کا نام نہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا جاتا ہے تاکہ انہیں پھر سے دہرایا نہ جائے۔

تاریخ میں بارہا ایسا ہواکہ قوموں نے ایک غلط فیصلے پر اصرار کیا۔ پیوستہ مفادات آڑے آئے۔ پھر ایک فیصلہ کن لمحے میں غلطی اور ناانصافی کو تسلیم کیا گیا اور بادل چھٹ گئے۔ دھوپ نکل آئی۔ راشد نے کہا تھا۔ ’لوگ پھر ہنسے ،دیکھو‘۔ درویش زیادہ نہیں جانتا لیکن اسی نصف صدی میںچین اور امریکہ عداوت کو چائو این لائی اور نکسن کے مصافحے میں پگھلتے دیکھا۔ اسپین کو جنرل فرانکو کی آمریت سے آگے بڑھتے دیکھا۔ جنوبی افریقہ کو نسل پرستی کی لعنت سے نجات پاتے دیکھا۔ یورپ میں سرحدی لکیروں کو مدھم ہوتے دیکھا۔ مشرقی یورپ میں تبدیلی دیکھی۔ ابھی ایران اور امریکہ کے معاملات میں جوہری تبدیلی آئی ہے۔ چین اور تائیوان میں رابطے ہوئے ہیں۔ ہم نے بھی ایک برس پہلے 16دسمبر کی شام 150 جنازوں کے پاس کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ہم دہشت گردی سے لڑیں گے اور اسے ختم کریں گے۔ ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کی ایک کانفرنس بلائی تھی۔ ہم نے آئین میں ایک ترمیم کی تھی۔ ہم نے ایک نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ریاست اور قوم کے تمام فیصلہ ساز ایک صفحے پر آگئے ہیں۔ ہمیں’ نسخہ ہائے وفا کی تالیف‘ کا پیغام دیا گیا تھا۔ ایک برس بعد مڑ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ’ مجموعہ خیال ابھی ورق ورق تھا‘۔

گزشتہ برس دسمبر کا تیسرا ہفتہ تھا۔ قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم پر بحث کے دوران ایک نورانی صورت بزرگ کاغذ کے ٹکڑوں پر کچھ لکھ کرارکان اسمبلی میں پیغام رسانی کر رہے تھے۔ کھٹک پیدا ہوئی کہ حضرت کیا چاہتے ہیں۔ خبر آئی کہ انہیں دہشت گردی کی تعریف میں مذہبی شناخت شامل کرنے پر اعتراض ہے اور چاہتے ہیں کہ ’ہر طرح کی دہشت گردی‘ کی ترکیب استعمال کی جائے۔ واضح رہے کہ یہ وہی عناصر ہیں جو

پندرہ برس تک درس دیتے رہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں فرق کیا جائے۔ القاعدہ اور طالبان میں تفریق کی جائے۔ فرقہ پرست تنظیموں اور پنجابی طالبان میں امتیاز کیا جائے۔ نیز یہ کہ طالبان اچھے اور برے ہوتے ہیں۔ اب انتہا پسند سوچ کے دفاع کا ایک اور انداز اپنایا جا رہا تھا۔ قوم نے دہشت گردی کے قلب کی طرف بندوق کا رخ پھیرا تو آواز آئی کہ دہشت گرد کی لغت تو بسیط ہے۔ ارادہ یہ تھا کہ بہت سی دھول اڑائی جائے تاکہ اس کی آڑ میں اپنے پسندیدہ دہشت گردوں کو پتلی گلی سے فرار ہونے کا موقع مل سکے۔ آئینی ترمیم میں واضح طور پر ’مذہبی دہشت گردی‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ حفیظ اہل زباں کب مانتے ہیں۔پہلے حکم تھا کہ کراچی میں طالبان نہیں ہیں۔ پھر ارشاد فرمایا کہ آپریشن کراچی ہی سے شروع ہونا چاہئے۔ دیکھئے! جرم کی کوئی سیاسی شناخت نہیں ہوتی۔ سیاسی رائے اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر استوار کی جاتی ہے۔ سیاسی رائے جرم نہیں ہوتی۔ جرم کے لئے کسی فریق کا نقصان ہونا بنیادی شرط ہے ۔ جرم ناانصافی ہے اور سیاسی نقطہ نظر انصاف کا مطالبہ ہے۔ جرم اور سیاست پر ایک چادر ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ جرم کو پناہ دی جائے اور سیاست کو جرم قرار دیا جائے۔ ’مذہبی دہشت گردی‘ کے عذر خواہ بہت باریک صناعی کی مدد سے نیشنل ایکشن پلان کا رخ رفتہ رفتہ سیاسی کارکنوں کے مبینہ جرائم اور بالآخر کرپشن کے پسندیدہ قافیے تک لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب ہمیں معلوم ہوا کہ دہشت گردوں کی اصل سرپرست تو وہ جماعتیں تھیں جنہیں 2013ء کے انتخابات میں حصہ لینے پر دہشت گردی کی دھمکی دی جاتی تھی۔ اور دہشت گردی کی مزاحمت وہ کر رہے تھے جو شریک سفر نہ تھے۔ یہ زیادہ پرانی تاریخ نہیں۔ پچھلے دس برس کے اخبارات اٹھا کر دیکھئے۔ دہشت گردوں کی مزاحمت کون کر رہا تھا، کس کا خون بہایا جا رہا تھا اور کون دہشت گردوں کی عذر خواہی کر رہا تھا۔ وہ ’پانچواں کالم‘ کون لکھ رہا تھا جس میں دہشت گردی کے خدوخال سرکاری گزٹ اور نوٹیفکیشن دیکھ کر طے کیے جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ ایک برس میں آپریشن ضرب عضب نے مذہبی دہشت گردی کی بنیادوں پر گہری ضرب لگائی ہے۔ملک کے وسیع علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے گئے ہیں ۔ ان کے رابطے ختم کیے گئے ہیں۔ تین ہزار سے زائد دہشت گرد مارے گئے ہیں ۔ لیکن یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ فیصلوں کی میزان میں دہشت گردی کی سوچ ابھی سلامت ہے۔ سیاسی قوتوں میں ابھی یہ اعتماد پیدا نہیں ہوا کہ وہ کھل کر دہشت گردی کے خلاف کھڑی ہوں۔ اعلیٰ سیاسی قیادت کے بیانات سیاسی سمت کی نشان دہی کیا کرتے ہیں لیکن رائے عامہ کا رخ دوسری اور تیسری صف کے مکالمے سے متعین ہوتا ہے۔

افغان جہاد کے دوران ہر ہفتے سیاسی جماعتیں ملک کے کونے کونے میں جلسے کر کے قندھار اور مزار شریف کا نقشہ سمجھاتی تھیں۔ اخبارات کے فورم ’افغان باقی، کہسار باقی‘ کے موضوع پر مذاکرے کرتے تھے۔ صحافی، اساتذہ اور سیاسی کارکن امریکہ کے فضائل بیان کرتے تھے اور روس کی تاریک تصویر کشی کیا کرتے تھے۔ یہ سب معززین پچھلے ایک سال میں نظر نہیں آئے۔ آپریشن ضرب عضب میں سیاسی قیادت توقعات پر پوری نہیں اتری لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کے درمیان احتیاط سے بداعتمادی کے بیج بوئے گئے ہیں ۔ 16دسمبر محض ہمارے بچوں کی برسی نہیں، ان عناصر کی نشان دہی کا دن ہے جو دہشت گردی کی آبیاری کرتے ہیں اور ’سود‘ کے احکامات کی آڑ میں قومی معیشت کو مفلوج کرتے ہیں۔ ’’دیسی لبرلز‘‘ کی مذمت سر آنکھوں پر لیکن ’ولایت پلٹ انتہا پسندوں، سے بھی خبردار رہنا چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے