لبرل ازم کواگر برادرم وجاہت مسعود جیسے شارحین میسر آجائیں تواس کی قبولیت ِ عامہ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔مذہب کی طرح، لبرل ازم کا بھی نادان دوستوں سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ان کی پوری کوشش ہے کہ اس تصور کو شخصی ترجیحات اور ذاتی تمناؤں کے حصار میں قید کیے رکھیں۔وجاہت مسعود نے لبرل ازم کو اس سے آزاد کرنے کی سعی کی ہے۔میرا خیال ہے کہ اس سے مکالمے کا ایک دروازہ کھلا ہے۔کیا ہی اچھا ہو اگرنظریاتی بحث کواسی سنجیدہ اسلوب میں آگے بڑھا یا جا ئے۔
لبرل ازم ایک جامد تصور نہیں ہے۔ہونا بھی نہیں چاہیے۔اس کی ایک وجہ ہے۔لبرل ازم کی اساس انسانی عقل پر ہے۔عقل کا وظیفہ غور وفکر ہے جو ایک جاری عمل ہے۔یہی سبب ہے کہ فلسفے کے علما اسے ایک جامدمجموعہء خیال نہیں سمجھتے۔ان کے نزدیک اس تصور کی تفہیم سماجی عمل پر منحصر ہے۔انیسویں صدی میں، جب پہلی بارلبرل ازم کو ایک مجموعہ ٔخیال کے طور پر بیان کیا گیا تو اس عہد میں بھی بر طانوی لبرل ازم اور یورپی لبرل ازم میں فرق کیا گیا۔جمہوریت موجودہ صورت میں اس کا حصہ نہیں تھی ۔آج تو لبرل ازم کی مزید کئی شکلیں سامنے آچکیں۔تاہم اپنے بنیادی تخیل میں اس نے سوچنے کا جو اصول اورمنہج دیا،اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔اصول یہ ہے کہ انسان آزاد ہے اور اس پرخارج سے کوئی قدغن نہیں لگا ئی جا سکتی۔منہج یہ ہے کہ یہ انسانی عقل ہے جو اس کے لیے راہِ حیات کا تعین کرے گی۔ یوں لبرل ازم ایک نظریہ بھی ہے اور ایک لائحہ عمل بھی ۔
وجاہت مسعود نے لبرل ازم کے دفاع میں جو کچھ لکھا ہے،وہ لبرل ازم بطور لائحہ عمل ہے۔میرا خیال ہے اس سے اختلاف کا امکان بہت کم ہے۔میں روایتی مفہوم میں مذہبی آ دمی ہوتے ہوئے بھی،اس سے اتفاق کر تا ہوں۔میرا کہنا یہ ہے کہ بطور منہج ،یہ لبرل ازم کے ساتھ خاص نہیں ہے۔میں اگر اسلام کو ایک لائحہ عمل کے طور پر بیان کروں تو میری تعبیر بھی یہی ہوگی۔میں اس سے آگے بڑھ کر یہ عرض کرتا ہوں کہ اگروجاہت مسعود کے کالم میں ‘لبرل ازم ‘ کو اسلام سے بدل دیا جائے تو یہ میرامقدمہ بن جا ئے گا۔اس بنیاد پر اگر کوئی یہ کہنا چاہے کہ مذہبی معاشرہ دراصل ایک لبرل معاشرہ ہوتا ہے تو یہ با ت خلافِ واقعہ نہیں ہوگی۔
مثال کے طور پراسلام ہر شخص کو یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ جو مذہب چاہے اختیار کرے۔اگر اس کے مذہبی عمل میں کوئی بات ایسی ہے جو اسلام کے اصولوں سے متصادم ہے تواس کے باوصف، وہ یہ حق رکھتا ہے کہ اسلامی سماج میں اس پر عمل کرے۔کسی مسلمان کو یہ حق نہیں کہ وہ اسے بالجبر روکے۔یہ اسلام کی کوئی ‘جدید تعبیر‘ نہیں۔ہمارے فقہا تو اس سے آگے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کی ملکیت ،سور کا گوشت یا شراب، ضائع کردے جو اسلام میں حرام ہیں تو وہ پابند ہو گا کہ اس کا تاوان ادا کرے۔قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک امت بنادیتا۔اس نے اپنے قانون، آزمائش کے تحت ایسا نہیں کیا۔
نیکی مذہب کے ساتھ خاص ایک تصور ہے۔قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ نیکی کا عمل صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے۔کوئی مسیحی یا یہودی بھی نیک ہو سکتا ہے،دیانت دار ہو سکتا ہے، عبادت گزار بھی ہو سکتا ہے(آل عمران(3:113-115)۔گویا صرف سماجی معاملات ہی میں نہیں، اسلام تو مذہبی معاملات میں بھی کثرتیت (Pluralism) کی بات کر تا ہے۔یہی معاملہ انسانی زندگی کے احترام کا ہے۔اسلام ایک انسان کی جان لینے کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔میرا کہنا یہ ہے جن سماجی اقدار کو لبرل ازم سے منسوب کیا جا تا ہے، وہ سب اسلامِ کے نظام ِ اقدار میں مو جود ہیں۔ اگر یہ مقدمہ درست ہے تو پھر مذہب اور لبرل ازم میں کیا فرق ہے؟
یہ فرق اصول اور تصورِ حیات(worldview)کی سطح پر ہے۔لبرل ازم میں انسان آزاد ہے۔کوئی خارجی قوت ایسی نہیں جو اس پر کوئی قید لگاسکے۔الا یہ کہ انسان مل کر ازخود کوئی پابندی قبول کرلیں۔جیسے وہ طے کرلیں کہ سرخ بتی پر رک جائیں گے۔ اس کے برخلاف مذہب کی تعبیر میں انسان آزاد نہیں، بلکہ خدا کا بندہ ہے۔خدا نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے،اسے جو ہدایت دی ہے،وہ اس پر عمل کر نے کا پابند ہے۔یوں وہ ایک ذمہ دار وجود ہے اور اپنے خدا کے سامنے جواب دہ بھی۔یہ زندگی،ایک دورِ آزمائش ہے۔اصل زندگی کا آغازپسِ مرگ ہوگا۔انسان ایک دن دوبارہ جی اٹھیں گے۔اگر وہ یہاں خدا کے حکموں کی پابندی کریں گے تو بطور جزا انہیں ایک اچھا ٹھکانا ملے گا۔ایسا ٹھکانا جس کا وہ یہاں خواب دیکھتے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر‘اگرانہوں نے خدا کے حکموں کو نظر انداز کیا اورخود کو آزاد سمجھا تو انہیں سزا ملے گی۔مذہب کی بنیادی ہدایت جامد ہے۔اسی لیے اسے عقیدہ کہتے ہیں؛تاہم اس کی تعبیرکادروازہ کبھی بند نہیں ہوا اور تعبیرِ نوکاعمل اسلامی تہذیب اور روایت کا مستقل حصہ ہے۔
لبرل ازم میں پس ِمرگ زندگی کا کوئی تصور نہیں۔تاہم اگر کوئی انفرادی سطح پر اس تصور کاحامی ہے تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔تصورِ حیات کا یہ اختلاف اس وقت ایک تنازع کا باعث بنتا ہے جب اسے ایک اجتماعیت کی تشکیل کے لیے بنیاد بنا یا جا تا ہے۔اہلِ مذہب یہ کہتے ہیں کہ مذہب جیسے فرد کے معاملے میں ہدایات دیتا ہے،ویسے ہی سیاست و معیشت کے باب میں بھی ہدایات دیتا ہے۔مسلمان اگر انفرادی حیثیت میں آزاد نہیں تو اجتماعی حیثیت میں آزاد کیسے ہو سکتا ہے۔اگر مذہبی تصورِ حیات کو ماننے والے مل کر کوئی سیاسی نظام تشکیل دیں گے تو لازم ہے کہ وہ ان ہدایات کے تابع ہو جو خدا نے دی ہیں اور جو پیغمبروں کے ورثے کی صورت میں محفوظ ہیں۔ اس کے برخلاف لبرل ازم پر ایمان رکھنے والے انسانوں کو اجتماعی تشخص میں بھی آزاد سمجھتے ہوئے،اس کے خلاف ہیں کہ انسانوں کو کسی خارجی قوتِ نافذہ(Authority) کے تابع کیا جائے۔اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ جمہوری اصولوں پر بھی اس کو جائز نہیں سمجھتے۔یعنی اگر اکثریت مل کر اپنی مرضی سے خدا کی اتھارٹی کو تسلیم کرتی ہے تووہ اسے بھی درست نہیں سمجھتے۔وجہ وہی،ان کا تصور ِ حیات ہے۔یوں تصور ہائے حیات کا یہ بنیادی اختلاف ایک عملی تنازع کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
اہلِ مذہب جب بھارت میں سیکولرازم کی حمایت کرتے ہیں تو لبرل ازم کے ماننے والے اسے دوغلا پن قرار دیتے ہیں۔میرا خیال ہے یہ اعتراض اہلِ مذہب کے موقف کی درست تعبیر نہیں۔ان کا مقدمہ میں نے بیان کر دیا کہ وہ اسے مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری کے تناظر میں بیان کرتے ہیں۔اگر ایک خطۂ زمین پر اقتدار ان کے پاس ہے تو وہ اجتماعی سطح پر اللہ تعالیٰ کے ا حکام کے پابند ہوں گے۔بھارت میں اجتماعی نظم ان کے پاس نہیں ہے‘اس لیے وہاں وہ اس کے مکلف نہیں ہیں کہ اسلام نافذکریں۔
میرا احساس ہے کہ اہل ِ مذہب اور لبرل مل کر ایک سماج تشکیل دے سکتے ہیں۔اس کا سبب لائحہ عمل کی سطح پر دونوں کا اتفاق ہے۔مسئلہ صرف ایک نظامِ ریاست کی تشکیل کا ہے کہ وہ کس اتھارٹی کے تابع ہوگا؟اس حوالے سے جمہوریت کو بنیاد بنایاجا سکتا ہے جس پر دونوں کا اتفاق ہے۔اگر جمہور اپنی اجتماعیت کو مذہب کے تابع رکھنا چاہیں تو لبرل ازم کے علم بر دار،کیا اسے قبول کر لیں گے؟
بشکریہ روزنامہ دنیا