اصل سانحہ تو 17 دسمبر کو ہوا

’’بھارتی فوج میری لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہو سکتی ہے‘‘15دسمبر کو لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے اپنا عزم ظاہر کیا تو قوم میں ایک نئے جذبہ کی لہر دوڑ گئی تھی، لیکن اس اعلان کے دوسرے ہی دن پوری قوم غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے یہ وحشتناک خبر سن کر سکتے میں آگئی کہ لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے نہایت شرم ناک انداز میں 16دسمبر1971ء کو ڈھاکا ریس کورس میں دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کر لی تھی! اُسی شام صدر یحییٰ خان نے قوم کے نام اپنے ایک نشری پیغام میں اس ذلت آمیز شکست کو محض ایک خطے میں جنگ ہارنے سے تعبیر کرتے ہوئے اس ’’عزم‘‘ کا اعادہ کیا کہ مغربی محاذ پر یہ جنگ جاری رہے گی!
لیکن ایک مرتبہ پھر قوم کو ایک شدید دھچکے کا اُس وقت سامنا کرنا پڑا جب اِس اعلان ِعزم کے اگلے ہی دن یحییٰ خان نے قلابازی کھائی اور اعتراف شکست کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم کی جانب سے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کو تسلیم کر لیا اور وہ بھی ایک ایسے مرحلے پر جب سرکاری اخباری رپورٹس کی مطابق مغربی محاذ پر پاکستانی افواج ہر سمت میں پیش قدمی کرتے ہوئے دشمن کے علاقے میں برابر آگے بڑھ رہی تھیں اور اُنہیں بہت کم جانی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔

پوری قوم ان واقعات پر شدید احساس زیاں سے دوچار تھی، قوم کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس شرم ناک انداز میں شکست تسلیم کرتے ہوئے بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے گئے اور جنگ بندی کی پیشکش کو تسلیم کرنے میں اس قدر عجلت کا مظاہرہ آخر کس لیے کیا گیا؟ ان تمام واقعات نے یحییٰ خان کی حکومت کے حوالے سے قوم کے ذہن میں بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا کہ یہ سب کچھ قوم اور وطن کو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق بے آبرو اور تباہ کرنے کی ایک مجرمانہ سازش تھی، قوم نے اس شکست کے ذمے داروں پر سر عام مقدمہ چلا کر انہیں قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا اور اس احتجاج اور مطالبے نے انتہائی شدت اختیار کر لی۔

ایک جانب یہ اندوہناک سانحہ ہو چکا تھا کہ لاکھوں قربانیاں دیکر حاصل کی جانے والی مملکتِ خداد داد دو ٹکڑے ہو چکی تھی اور دوسری جانب اس سانحے کے اگلے روز ہی اقتدار کی بندر بانٹ شروع ہو چکی تھی۔ اُس وقت کے ڈپٹی پرائم منسٹر ذوالفقار علی بھٹو بڑی عجلت میں نیویارک سے واپس پاکستان پہنچے اور یوں 20دسمبر1971ء کوصدر جنرل آغا محمد یحییٰ خان اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کرکے ایک طرف ہوگئے۔ بچے کھچے پاکستان کی حکمرانی سنبھالتے ہی قوم کو بیوقوف بنانے کیلئے ذوالفقار علی بھٹو نے نیا نعرہ لگادیا کہ ’’شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘۔یہ نعرہ بڑا حیران کن اور افسوسناک تھا۔

بنگلا دیش کی صورت میں پاکستان کا اکثریتی حصہ ہی ملک سے الگ نہیں ہوا تھا بلکہ دشمن نے تو سینکڑوں سالوں سے چلا آنیوالا دو قومی نظریہ بھی خلیج بنگال میں غرق کرنے کا دعویٰ کرکے باقاعدہ جشن منایا تھا۔اس سانحے کے بعد صرف اقتدار کی بندر بانٹ ہی نہ ہوئی تھی بلکہ سترہ دسمبر کی صبح سقوط مشرقی پاکستان پر آنسو بہانے کے بجائے سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں ہر کوئی بنگالی افسروں کے نکل جانے پر سینارٹی لسٹ میں اپنا نمبر چیک کرتا پھر رہا تھا۔ یہ تھا وہ سبق جو اقتدار اور طاقت کے ایوان چلانے والوں نے پلٹن گراؤنڈ میں شرمناک ہزیمت اور سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سیکھا تھا۔

پاکستان کی تاریخ کا دوسرا بڑا سانحہ 16 دسمبر 2014ء کو اُس وقت ہوا جب آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشتگردوں نے بزدلانہ حملہ کرکے
122 سے زائد معصوم طلبہ کو خون میں نہلادیا، اِس واقعے نے انسانیت کو جس طرح سے گھائل کیا اور جس بے دردی کیساتھ علم کے چراغوں کو لہولہان کیا گیا اس پر انسانیت بلبلا اٹھی۔ شہید ہونیوالے بچوں کے والدین کی سسکیاں اور آہیں ایک سال بعد بھی تھمنے میں نہیں آئیں، ملک ایک سال بعد بھی پشاور اس سانحے کی تلخ یادوں اور سوگوار ماحول سے نکلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومت نے اِسے قومی سانحہ قرار دیکر تین روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا۔اس حملے کے بعد اگرچہ کچھ دنوں کیلئے ساری قوم اور سیاسی قیادت متحد نظر آئی اور دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے پہلے سے جاری آپریشن ضرب عضب کا دائرہ کار وسیع کر کے آپریشن مزید تیز کردیا گیا، لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو دہشتگردی کے خاتمے کیلئے سول حکومتوں کے اقدامات، امداد یا بحالی کی کوششیں عملاً نہ ہونے کی برابر رہیں، اس روّیے نے شہدا کے لواحقین کو مزید مایوسی اور ناراضگی سے دوچار کیا۔

سوال یہ ہے کہ اس سانحے کے بعد ہمارے رویوں، طریقوں اور پالیسیوں میں کونسی تبدیلیاں واقع ہوئیں اور ہمارے عوام کیساتھ ساتھ ہمارے مقتدر حلقوں نے اس سانحے سے کیا کچھ سیکھا ہے؟16دسمبر 2014ء کے سانحے نے ساری قوم کو ہلا کر تو رکھ دیا لیکن افسوسناک طور پر ایسے سانحات سے بچنے کیلئے وہ رویے اختیار نہیں کیے جن کی ضرورت یا توقع تھی۔یہی وجہ ہے کہ قوم کے اندر خوف اور عدم تحفظ کا احساس ختم نہیں ہو رہا کہ کہیں پھر کوئی ایسا ہی سانحہ پیش نہ آجائے۔ اس سانحے کے بعد سیاسی قیادت نے بھی اس سنجیدگی اور مسلسل اقدامات کا وہ مظاہرہ نہیں کیا جس کی ضرورت یا توقع تھی، نیشنل ایکشن پلان کا قیام اور اس پر قومی اتفاق رائے ایک بڑا اقدام تھا تاہم 20 نکات پر مشتمل اس پلان کے آدھے نکات ایسے ہیں جن پر سرے سے عمل درآمد ہوا ہی نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی نیکٹا کو فعال نہیں کیا جاسکا اور اب سندھ میں رینجرز کو اختیارات میں توسیع دینے میں تاخیر اور بھلا کیا ہے؟ یعنی ہم نے اپنی تاریخ کے اس دوسرے بڑے سانحے سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔

پاکستان میں ایک سانحہ چوالیس برس پہلے 16دسمبر 1971ء کو متحدہ پاکستان کے دولخت ہونے کی صورت میں رونما ہوااور دوسرا بڑا سانحہ یقینا 16دسمبر2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں ایک سو بائیس سے زائد معصوم طلبہ کی دہشتگردوں کے ہاتھوں شہادت کی شکل میں رونما ہوا لیکن پہلے سانحہ کے ساڑھے چار دہائیوں بعد اور دوسرے سانحہ کے ایک سال بعد بھی بہت سے سوالات تشنہ ہیں کہ کیا ہم نے ان سانحوں کے بعد آئندہ کیلئے اس طرح کے سانحات سے بچنے کی کوئی پیش بندی کی؟

کیا ہم نے ٹھوکروں سے کوئی سبق سیکھا؟ کیا ہم نے اپنی بداعمالیوں پر توبہ کرنے جسارت کی؟کیا ہم نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا؟ کیا ہم نے بحیثیت ملک و ملت آگے بڑھنے کا مصمم ارادہ کیا اور پھر اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے عزم صمیم کا مظاہرہ کیا؟ یقینا نہیں کیا۔

قارئین کرام!! پہلے 16دسمبر کا دن ہر سال ہمیں صرف 1971ء کی تلخ یادیں ہی یاد دلاتا تھا، لیکن اب جب جب 16دسمبر آئیگا، اس میں سانحہ پشاور کے زخم بھی ہرے ہوتے رہیں گے۔

لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر ہم کب تک 16دسمبر1971ء اور 16دسمبر 2014ء کے سانحوں کی صرف یاد ہی مناتے رہیں گے، بحیثیت قوم ہمارا کردار 16 دسمبر کو نہیں بلکہ 17 دسمبر کو سامنے آنا چاہیے تھا، 16 دسمبر کو آدھا ملک اور 122 معصوم جانیں گنوانے کے بعد اگر 17 دسمبر کی صبح بھی ہم کچھ نہ سیکھ سکے تو پھر یقین مانیں کہ اس ملک میں اصل سانحے 16دسمبر 1971ء اور 16دسمبر 2014ء کو نہیں ہوئے، بلکہ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ کا اصل سانحہ تو 17دسمبر کو ہوا تھا۔

بشکریہ روزنامہ "نوائے وقت”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے