کیا پاکستان میں اسلام قبول کرنا جرم ہے! …(مکمل کالم)

سندھ اسمبلی نے 16 فروری 2021ء کو ایک بِل پاس کیا تھا، اس کا عنوان تھا: ”جبری تبدیلیٔ مذہب‘‘۔ اس کے بعد ہم نے علماء کے ایک وفد کے ہمراہ وزیراعلیٰ سندھ جنابِ سید مراد علی شاہ سے ملاقات کی تو انہوں نے اسے روک دیا اور گورنر کے دستخط سے ایکٹ نہیں بنا، پھر اسے اچانک سینیٹ میں پیش کر دیا گیا، اس پر غور کرنے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی، اب اس پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ بھی منظرِ عام پر آ گئی ہے۔ انسانی حقوق کی وزیر محترمہ شیریں مزاری اس کی پُرجوش حامی ہیں۔ اس مجوّزہ مسوّدۂ قانون (Bill) کا عنوان ”امتناعِ جبری تبدیلیٔ مذہب‘‘ رکھا گیا ہے، لیکن اپنے وسیع تر مفہوم اور نتائج کے اعتبار سے یوں گماں ہوتا ہے کہ گویا قبولِ اسلام اور اس کی ترغیب کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک مجرمانہ جسارت قرار دینا درکار ہے۔ ہم اس قانون کی تطبیق (Application)، نتائج اور مابعد اثرات (Subsequences) پر گفتگو کرنے سے پہلے اس قانون کی اہم دفعات کا مفہومی ترجمہ پیش کر رہے ہیں:

سیکشن 2، ذیلی شق سی، ای: ”بچے کا معنی ہے: کوئی بھی فرد جو اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہے‘‘، سیکشن 2 ای: ”بالغ کا معنی ہے: کوئی بھی فرد جس کی عمر اٹھارہ سال سے زائد ہو‘‘، ”جبر کا مطلب ہے: طاقت کا استعمال، جسمانی تشدد یا کسی پر جذباتی یا نفسیاتی طور پردبائو ڈالنا‘‘۔

سیکشن 3، ذیلی شقیں:4،5،6: ”کوئی بھی غیر مسلم جو بچہ نہیں ہے، یعنی جس کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ ہے، عاقل اور بالغ ہے اور وہ مذہب تبدیل کرنے کے قابل اور اس پر آمادہ ہے، وہ اپنے قریبی ایڈیشنل سیشن جج کو مذہب کی تبدیلی کے سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دے گا۔ ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کی درخواست وصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ مقررہ تاریخ پر متعلقہ شخص ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو گا، ایڈیشنل سیشن جج اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دبائو کے تحت نہیں ہے اور نہ کسی دھوکا دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔ کوئی غیر مسلم جو مذہب اپنانا چاہتا ہے، ایڈیشنل سیشن جج اس کے مذہبی سکالر سے اس غیر مسلم کی ملاقات کا انتظام کرے گا، یعنی اگر کوئی ہندو مسلمان ہونا چاہتا ہے تو اس کی کسی اسلامی سکالر سے ملاقات کا انتظام کرے گا، ایڈیشنل سیشن جج مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور دوبارہ دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم شخص کو 90 دن کا وقت دے گا، اگر وہ 90 روز کے بعد بھی اپنا مذہب تبدیل کرنے کے فیصلے پر قائم رہتا ہے تو اسے مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جائے گا۔ اگر سیشن جج مطمئن ہوتا ہے کہ اس نے تقابلِ ادیان کا مطالعہ کر لیا ہے اور اس پر کسی طرح کا جبر نہیں ہے اور وہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کر رہا ہے، تو وہ تبدیلیٔ مذہب کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا‘‘۔

نوٹ: اس میں اہم بات یہ ہے کہ نوے دن گزرنے کے بعد بھی ایڈیشنل سیشن جج کا مطمئن ہونا ضروری ہے، پس اگر وہ کسی وجہ سے مطمئن نہیں ہوتا تو پھر قبولِ اسلام نہیں ہو سکتا یا اس کو اسلام قبول کرنے کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔ ایک شخص اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ ہے اور اُسے نوے دن کا وقت دیا جا رہا ہے، کون جانتا ہے کہ اس کی زندگی کتنی ہے، اگراس دوران وہ فوت ہو جاتا ہے توکفر پر اس کی موت کا ذمہ دار کون ہوگا، اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اُس کے کفر پر راضی ہے،علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ”اگر کوئی دوسرے کے کفر پر راضی رہا تاکہ وہ اللہ کی شان میں نازیبا باتیں کہے، تو وہ خود بھی کافر ہو جائے گا اور اسی پر فتویٰ ہے، ”فتاویٰ تتار خانیہ‘‘ میں اسی طرح ہے‘‘ (فتاویٰ عالمگیری، ج: 2، ص: 257)۔

سیکشن (4): مذہب کی جبری تبدیلی کی ممانعت: شق (1): ”اگر کوئی شخص کسی کو دوسرے مذہب میں تبدیل کرنے کا ذمہ دار ہے اور سیشن جج کی نظر میں وہ جبری تبدیلی ہے تو اس شخص پر مذہب جبری تبدیل کرانے کا جرم عائد ہو گا اور اس کو کم سے کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے اور کم از کم ایک لاکھ روپے اور زیادہ سے زیادہ دو لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے‘‘۔
نوٹ: قانون میں اس امر کی نہ کوئی وضاحت ہے اور نہ کوئی معیار کہ جس کی بنیاد پر یہ طے کیا جا سکے کہ جبر ہوا ہے یا نہیں، بس اسے ایڈیشنل سیشن جج کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

شق (2): ” اگر کوئی شخص ایسے شخص کا نکاح پڑھائے جس کا جبر کے ذریعے مذہب تبدیل کرایا گیا ہو، چاہے وہ اس کا نکاح پڑھانے والا یا نکاح کا سہولت کار ہو تو اس کی سزا بھی کم سے کم تین سال ہو گی‘‘۔ اس شق کے مطابق وہ شخص بھی اسی جرم کا مرتکب ہوگا جس نے اس نکاح کے لیے کسی قسم کی اعانت کی ہے، مثلاً: جہیز کا انتظام کیا یا شادی ہال کا انتظام کیا یا کسی بھی طرح کی سہولت کاری کی تو وہ اس جرم میں برابر شریک ہو گا۔

وضاحت: نکاح پڑھانا ایک دینی کام ہے، اس کے لیے دُلہا اور دلہن کی رضامندی، مہر کا تعیّن اور گواہان کی موجودگی ضروری ہے، نکاح خواں کے پاس نہ تو قاضی اور عدالت کے اختیارات ہوتے ہیں اور نہ تحقیق و تفتیش کے لیے کوئی عملہ ہوتا ہے، لیکن ہر موقع پر اُسے سب سے کمزور فرد سمجھ کر دھر لیا جاتا ہے، یہ بھی درست نہیں ہے۔

شق(3): ”اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کی حوصلہ افزائی کرے جو اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے کسی بھی طرح کی معاونت فراہم کرے تو وہ بھی مجرم تصور کیا جائے گا اور اسے بھی کم از کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی سزا دی جا سکتی ہے اور اس پر ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی ہوگی‘‘۔

نوٹ: قرآنِ کریم کی رُو سے دعوتِ دین مسلمان کا فریضہ ہے، قبولِ اسلام کی ترغیب دینا ایک قابلِ تحسین امر ہے، لیکن ہمارے ہاں اسے بھی قانونی جرم قرار دیا جا رہا ہے،جبکہ قرآنِ کریم میں صدقات کا ایک مصرف ان لوگوں کو قرار دیا گیا ہے، جنہیں اسلام کی طرف راغب کرنا مقصود ہو۔

سیکشن 5، شق (2): ”اگر کوئی بچہ جس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے اور وہ اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا اعلان کرتا ہے تو اس کے ایسے اعلان کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی اور یہ تصور کیا جائے گا کہ اس نے مذہب تبدیل نہیں کیا اور اس کو مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ بھی جاری نہیں کیا جائے گا‘‘۔

نوٹ: اسلام کی رُو سے توحید و رسالت کی گواہی دینے، اپنے سابقہ عقائد سے توبہ کرنے اور کلمۂ اسلام پڑھنے سے ایک شخص مسلمان ہو جاتا ہے، لیکن مجوزہ مسودہ قانون اُسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

سیکشن 7 کی شق 5: ”اگر جبری تبدیلیٔ مذہب کا کوئی کیس سیشن کورٹ میں جاتا ہے تو کورٹ اس بات کی پابند ہوگی کہ وہ نوے دن کے اندر اس کیس کا فیصلہ صادر کر دے اور اس کیس کا دو مرتبہ سے زائد کا التوا نہیں ہو سکتا‘‘۔

نوٹ: واضح رہے کہ ہمارے ہاں انتہائی سنگین جرائم حتیٰ کہ دہشت گردی کے مقدمات بھی برسوں چلتے رہتے ہیں لیکن مذہب کی تبدیلی کے قانون کے لیے نوے دن کا ٹائم دیا جا رہا ہے، پس مجوّزہ بل کی رو سے پاکستان میں یہ سب سے سنگین جرم ہے۔

سیکشن نمبر 7، شق 9: ”جبری تبدیلیٔ مذہب کے کیس کی تفتیش کم از کم ایس پی لیول کا آفیسر انجام دے گا‘‘۔

نوٹ: توہینِ رسالت کی ایف آئی آر درج کرنے کی بابت بھی یہ قرار دیا گیا ہے کہ کم از کم ایس پی لیول کا افسر مطمئن ہوگا تواس کی ایف آئی آر درج ہو سکے گی، ہمارے نزدیک یہ شرط اس لیے عائد کی گئی ہے تاکہ توہینِ رسالت کی ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر سے کام لیا جائے کیونکہ ایک عام آدمی کی رسائی ایس ایچ او تک آسان نہیں ہے، چہ جائیکہ ایس پی تک رسائی کو لازم قرار دیا جائے۔

سیکشن 17: ”وہ بچے جن کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے یا ایسے بالغ اشخاص جو ذہنی معذور ہیں، اگر وہ تبدیلیٔ مذہب کے مرتکب ہوتے ہیں یا ان کا کیس سیشن کورٹ میں چل رہا ہے، تو ان کے نام اور پتے کسی بھی اخبار، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر شائع نہیں کیے جا سکیں گے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ مجرم تصور کیا جائے گا‘‘، حالانکہ لوگ فخر کے ساتھ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہیں لیکن مجوّزہ بل کی رو سے یہ جرم ہے۔

سیکشن 18: ”اگر کوئی ایسے جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ جرم ناقابلِ ضمانت، ناقابلِ راضی نامہ اور قابلِ دست اندازیٔ پولیس ہوگا اور قانون کے مطابق سزا کا مستوجب ہوگا‘‘۔

یہ روئے زمین کا شاید پہلا قانون ہے کہ جس میں اٹھارہ سال عمر والے کو بچہ (Child) قرار دیا گیا ہے، شرعاً تو وہ بالغ ہے، کیونکہ لڑکے یا لڑکی کو شرعاً اُسی وقت بالغ تسلیم کیا جائے گا جب بلوغ کی علامتیں ظاہر ہو جائیں، ورنہ لڑکے اور لڑکی‘ دونوں کو پندرہ سال مکمل ہونے پر بالغ تصور کیا جائے گا، تنویر الابصار مع الدّرّ المختار میں ہے: ”پس اگر لڑکے اور لڑکی‘ دونوں میں بلوغت کی علامات میں سے کوئی علامت نہ پائی جائے تو دونوں کو پندرہ سال کی عمر مکمل ہونے پر بالغ مانا جائے گا، فتویٰ اسی پر ہے‘‘ (رَدُّ الْمُحْتَارِ عَلَی الدُّرِّ الْمُخْتَار، ج: 9، ص: 185، خلاصہ)، علامہ امجد علی اعظمی لکھتے ہیں: ”لڑکے اور لڑکی میں علامتِ بلوغت پائی جائیں تو انہیں بالغ سمجھا جائے گا اور اگر علامات نہ پائی جائیں تو پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر انہیں بالغ تصور کیا جائے گا، ویسے علامات ظاہر ہونے پر لڑکی کی کم از کم ممکنہ عمر بلوغ نو سال اور لڑکے کی بارہ سال ہے‘‘ (بہارِ شریعت، حصہ: پانز دہم، ص: 203 تا 204، خلاصہ)۔ یورپ و امریکا میں بھی اس کے شواہد سامنے آتے رہتے ہیں۔

امریکا سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں اٹھارہ سال سے کم عمر میں اسلام قبول کرنے پر پابندی نہیں ہے حتیٰ کہ اگر امریکا میں کوئی دس‘ بارہ سال کا سفید فام لڑکا یا لڑکی وائٹ ہائوس کے سامنے کھڑے ہوکر اسلام قبول کرنے کا اعلان کرے تو امریکا کا قانون اس میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ ہمارے ہاں اس پابندی کا جواز کیا ہے؟ نیز اگر کوئی دس یا پندرہ سال کا لڑکا یا لڑکی اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں اور کوئی ان کو اسلام قبول کرنے سے روکتا ہے تو یہ اس کے کفر پر راضی ہونا ہے۔ جبری تبدیلیٔ مذہب کے امتناع کا مجوّزہ بل تو اٹھارہ سال پورے ہونے پر بھی اُسے اسلام قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا حتیٰ کہ وہ درخواست دے کر ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو، اُسے تفہیمِ مذاہب کے لیے تین مہینے کی تربیت دی جائے۔ سوال یہ ہے کہ نیچے سے اوپر تک‘ ہمارے عمائدینِ مملکت و حکومت میں کتنے ہیں جنہوں نے تقابلِ مذاہب کا کورس کر رکھا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”دین میں کوئی جبر نہیں ہے، بے شک ہدایت گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے، پس جو شخص شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اُس نے ایسی مضبوط رسی کو پکڑ لیا، جسے ٹوٹنا نہیں اور اللہ خوب سننے والا بہت جاننے والا ہے۔ اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے، وہ انہیں (کفر کے) اندھیروں سے (ایمان کے) نور کی طرف نکالتا ہے اور جنہوں نے کفر کیا، اُن کے حمایتی شیطان ہیں، وہ انہیں نور سے ظلمتوں کی طرف نکالتے ہیں، یہی لوگ جہنمی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘ (البقرہ: 256 تا 257)۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کا حکم واضح ہے کہ کسی پر اسلام قبول کرنے کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا، کیونکہ ایمان قلبی تصدیق کا نام ہے۔ اگر جبراً کوئی تسلیم بھی کر لے جبکہ اس کے دل میں ایمان نہیں ہے تو آخرت میں اس تسلیم کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، وہاں فیصلہ ظاہر پر نہیں بلکہ قلبی تصدیق پر ہو گا۔ برصغیر پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ غیر مسلموں کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہو، اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی پورے جنوبی ایشیا میں غیر مسلم آبادی مسلمانوں سے زیادہ ہے۔

اسلام تسلیمِ محض نہیں، بلکہ تسلیم بالرّضا کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اَعراب نے کہا: ہم ایمان لائے، کہہ دیجیے: تم ایمان نہیں لائے، ہاں! یہ کہو! ہم نے اطاعت کی اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال میں کوئی کمی نہیں کرے گا، بے شک اللہ بہت بخشنے والا، بے حد رحم فرمانے والا ہے۔ درحقیقت مومن تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر کبھی شک میں مبتلا نہ ہوئے اور انہوں نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہی (ایمان کے دعوے میں) سچے ہیں‘‘ (الحجرات: 14 تا 15)۔

غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو تجارتی قافلے سے ٹکرائو کے بجائے بھرپور جنگ کی ابتلا سے گزارنے کی حکمت قرآنِ کریم نے یہی بتائی: ”تاکہ جو ہلاک ہو، وہ دلیل ظاہر ہونے کے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے‘ وہ دلیل سے زندہ رہے‘‘ (الانفال: 42)۔ یعنی حق و باطل کا معرکہ بپا ہونے کے بعد ہی پتا چلے گاکہ کون ہے جو اپنے مؤقف پر عزیمت کے ساتھ قائم رہتے ہوئے ہر قیمت چکانے کے لیے تیار رہا۔ ایمان قلبی تصدیق کا نام ہے، اس لیے دنیا بھر کے ممالک میں تبدیلیٔ مذہب کا ایساکوئی قانون نہیں ہے، ایسے بے معنی تجربات صرف پاکستان میں ہوتے رہتے ہیں کہ پہلے سندھ اسمبلی میں بل پیش کیا گیا اور اب اسے سینیٹ میں پیش کر دیا گیا کہ اٹھارہ سال سے قبل اسلام قبول نہیں کیا جا سکتا، ہمیں اس کا فلسفہ آج تک سمجھ نہیں آیا۔ اگر کوئی دس برس کی عمر میں کفر کو ترک کرکے اسلام قبول کرنا چاہتا ہے تو اسے کیوں روکا جائے؟ کیا اسے اٹھارہ سال تک کفر پر قائم رہنے کے لیے مجبور کیا جائے گا کہ پھر اس کے بعد اگر چاہے تو قانونی تقاضے پورے کر کے اسلام قبول کرے؟ ہاں! اگر آپ نے کوئی سرٹیفکیٹ دینا ہے تو آپ اٹھارہ سال کی عمر پوری ہونے پر جاری کر دیجیے، لیکن جہاں تک بندے اور رب کا معاملہ ہے‘ ایمان لانے کے لیے کسی حکومتی سرٹیفکیٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پاس اپنی آزادانہ مرضی سے کوئی شخص اسلام قبول کرنے کے لیے آتا ہے تو ہم اُسے شریعت کے مطابق توبہ کرا کے اسلام میں داخل کرتے ہیں۔ اس میں قانون کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ البتہ اگر اُسے سرٹیفکیٹ چاہیے اور وہ عاقل و بالغ ہے تو ہم کہتے ہیں: فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوکر بیان دو کہ میں عاقل و بالغ ہوں، برضا و رغبت اسلام قبول کر رہا ہوں اور مجسٹریٹ اس کی تصدیق کرے، تو ہم بھی اُسے سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارے یا کسی عدالتی سرٹیفکیٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اللہ بندوں کے ظاہر و باطن کو خوب جاننے والا ہے۔

ہم بحیثیتِ قوم ”خود ملامتی‘‘ واقع ہوئے ہیں، کچھ دوسروں نے بھی ہمیں ایسے دبائو میں رکھا ہوا ہے کہ گویا ہمارا ہر قول و فعل غلط ہے، ہم ناقابلِ اعتبار ہیں، ہمارا ہر بیان مشتَبہ ہے؛ الغرض ہم ہر دبائو کو قبول کرتے ہوئے ہمیشہ دفاعی پوزیشن اختیار کر لیتے ہیں۔ ساری داستان خواہشات اور مفروضوں پر مبنی ہوتی ہے، کسی تحقیق کے بغیر قبولِ اسلام اور جبر کو لازم و ملزوم سمجھ لیا جاتا ہے۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے تحقیق کرو اور پھر شواہد پر مبنی رائے قائم کرو۔ مسلمان کے لیے کسی کے اسلام قبول کرنے میں مُمِدّومعاون ہونا بہت بڑی سعادت ہے۔حدیثِ پاک میں ہے: ”نبی کریمﷺ نے غزوۂ خیبر کے دن فرمایا: میں کل جھنڈا اُس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اُس کا رسول اُس سے محبت فرماتے ہیں، اللہ اُس کے ہاتھوں پر خیبر کو فتح فرمائے گا، لوگوں نے (اس انتظارمیں) رات گزاری کہ جھنڈا کسے دیا جائے گا، صبح ہوئی تو ہر ایک اس کی آس لگائے بیٹھا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: علی کہاں ہے؟ آپﷺ کو بتایا گیا کہ انہیں آنکھوں کا عارضہ ہے، آپﷺ نے اُن کی آنکھوں میں اپنا لعابِ دہن لگایا اور اُن کے حق میں دعا کی، (اس کی برکت سے) وہ ایسے صحت یاب ہوئے کہ گویا انہیں کوئی بیماری لاحق ہی نہیں تھی۔ آپﷺ نے انھیں جھنڈا دیا، حضرت علیؓ نے پوچھا: میں اُن سے قتال کرتا رہوں حتیٰ کہ وہ ہماری مثل (مسلمان) ہو جائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم باوقار انداز میں چلتے رہو یہاں تک کہ تم اُن کے صحن میں اتر جائو، پھر انہیں اسلام کی دعوت دو اور بتائو کہ ان پر کیا احکام واجب ہیں، اللہ کی قسم! اگر اللہ تمھارے ذریعے ایک شخص کو بھی ہدایت دیدے، تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں کی (گراں بہا دولت) سے بہتر ہے‘‘ (بخاری: 3009)۔ اگر سب مفتوحین کو زبردستی اسلام میں داخل کرنا ہوتا تو آپﷺ ایک شخص کا ذکر نہ فرماتے، اس حدیث میں اسلام کی دعوت دینے اور اس کی ترغیب کا ذکر ہے۔ اگر کوئی شخص خوش دلی سے اسلام قبول کرلے تو پھر اُسے اسلامی احکام کی تعلیم دینے کا حکم ہے۔ اسلام نے مفروضوں پر رائے قائم کرنے اور تحقیق کے بغیر خبر پر ردِّعمل ظاہرکرنے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو (ردِّعمل ظاہر کرنے سے پہلے) خوب تحقیق کر لو، مبادا تم انجانے میں کسی قوم کو تکلیف پہنچا دو، پھر تم اپنے کیے پر پچھتاتے رہو‘‘ (الحجرات: 6)۔

ہماری تجویز یہ ہے کہ ”وزارتِ بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ میں ایک باقاعدہ سیکشن بنایا جائے اور اس میں سرکاری عُمّال کے ساتھ ساتھ تمام مذاہب کے معتَمد نمائندوں کو شامل کیا جائے، اس طرح کے کسی بھی واقعے کی وہاں پر آزادانہ تحقیق ہو، پھر اس کے نتائج کا قومی سطح پر اعلان کیا جائے، اگر جبر ثابت ہو تو اس کے لیے تعزیر مقرر کی جا سکتی ہے، فقہ میں” اکراہِ مُلجی‘‘ کی تعریف موجود ہے، یعنی جان سے مارنے یا کسی عضو کو تلف کرنے کی دھمکی دینا، جبکہ اس پر عمل کرنے کے قرائن بھی موجود ہوں۔ الغرض شرعی معیار پر جبر ثابت کرنا ہو گا۔ عدالتوں کا طریقۂ کار ضوابط کے تابع ہوتا ہے، ان میں وکلا کی طولانی بحثیں شروع ہو جاتی ہیں، خارجی دبائو کا معاملہ اس کے علاوہ ہے جبکہ ہماری تجویز آسان اورقابلِ عمل ہے۔

ہم ایک سے زائد مرتبہ ہندو اور مسیحی رہنمائوں کو پیشکش کر چکے ہیں کہ اگر کسی معاملے میں ثبوت و شواہد سے جبر ثابت ہو جائے تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ نیز ہم نے ہر فورم پر کہا ہے کہ اقلیت کی اصطلاح کا استعمال ترک کیا جائے، ہم سب پاکستانی ہیں، ہمارا آئین و قانون سب کو تحفظ دیتا ہے، آپ اپنے آپ کو غیر مسلم پاکستانی کہیں، کیونکہ اقلیت کی اصطلاح سے محرومی کا تاثر پیدا ہوتا ہے، جبکہ غیر مسلم پاکستانی کی اصطلاح اپنے ملک و وطن پر استحقاق کا تاثر پیدا کرتی ہے، آپ حقوق کے دعوے دار بنتے ہیں اور بیرونِ ملک پاکستان کی رسوائی بھی نہیں ہوتی۔

”جبری تبدیلیٔ مذہب ‘‘کے بل پر سینیٹر انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں جو پارلیمانی کمیٹی قائم ہوئی، انہوں نے ہندوئوں کے عائد کردہ الزامات کا سروے کرایا تو دستیاب اعداد و شمارسے پتا چلا کہ ننانوے فیصد الزامات غلط تھے، خواتین نے اقرار کیا کہ انہوں نے برضا و رغبت اسلام قبول کیا ہے اور خوشی سے شادی کی ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزارتِ مذہبی امور نے اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت کے ساتھ اس بِل کو نظر ثانی کے لیے واپس وزارتِ حقوقِ انسانی کو بھیجا ہے، لیکن دستوری اعتبار سے یہ اب تک پارلیمنٹ کی ٹیبل پر موجود ہے اور کسی بھی وقت اسے منظوری کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے تاوقتیکہ اسے وزارتِ قانون و پارلیمانی امور باقاعدہ واپس نہ لے لے۔ نیز وزارتِ مذہبی امور کی سفارش میں اٹھارہ سال کی عمر اور تین مہینے انتظار کرنے کی بات کی گئی ہے، لیکن واضح طور پر نہیں کہا گیا کہ قبولِ اسلام پر عمر کی پابندی لگانا یا حکومت کی اجازت سے مشروط کرنا غیر شرعی ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے شواہد کے ساتھ کہا ہے: ”یہ بِل یورپی یونین کے مطالبے پر پیش کیا گیا ہے‘‘۔

ایک طویل حدیث کا مفہوم ہے: رسول اللہﷺ نے مثال کے ذریعے سمجھایاکہ جس طرح پروانے آگ میں گر کر فنا ہو جاتے ہیں، اسی طرح تم اپنی بداعمالیوں کے سبب جہنم کی آگ میں گرا چاہتے ہو اور میں تمھیں کمر سے پکڑ کر آگ میں گرنے سے بچا رہا ہوں‘‘ (بخاری:6483)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اُس نے تم پر فرمائی، جبکہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اُس نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اس کے فضل کی بدولت بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تھے (اور جہنم میں گرا ہی چاہتے تھے کہ) اُس نے تمہیں اس سے نجات دیدی‘‘ (آل عمران: 103)۔ نیز فرمایا: ”بیشک تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسولِ عظیم تشریف لائے، تمہارا مشقت میں پڑنا اُن پر بڑا گراں ہے، وہ (تمہارے ایمان لانے کے) شدت سے خواہش مند ہیں، مومنوں پر (تو وہ) نہایت مہربان اور رحم فرمانے والے ہیں‘‘ (التوبہ: 128)۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ لوگوں کے اسلام قبول کرنے کے شدت سے خواہش مند تھے، حتیٰ کہ اسلام قبول کرنے والوں کی ناز برداری فرمایا کرتے تھے۔ حدیث پاک میں ہے: ”حضرت عمروؓ بن عاص بیان کرتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی طرف رغبت پیدا فرمائی تو میں نے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی: (یا رسول اللہﷺ!) اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعتِ اسلام کروں، جب رسول اللہﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپﷺ نے فرمایا: عمرو! تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کی: اسلام قبول کرنے کے لیے میری شرط ہے۔

آپﷺ نے فرمایا: بولو! تمہاری شرط کیا ہے۔ کہا: میری بخشش ہو جائے، آپﷺ نے فرمایا: تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام پہلے کی تمام معصیتوں کو مٹا دیتا ہے‘‘ (مسلم:121)۔ غورکیجیے! اصولی طور پر تو رسول اللہﷺ کو شرط عائد کرنی چاہیے، کیونکہ آپﷺ اُن کی نَجات کا سامان کر رہے ہیں، لیکن آپﷺ اسلام کی خاطر اُن کی نازبرداری فرماتے ہوئے پوچھتے ہیں: تمہاری کیا شرط ہے، آپﷺ کی یہ ادا قرآنِ کریم کے ان مبارک کلمات کا مظہر ہے: ”وہ تمہارے (اسلام قبول کرنے کے) شدت سے خواہش مند ہیں‘‘ (التوبہ: 128)، آپﷺ نے اہلِ طائف کی آنے والی نسلوں کے ایمان کی خاطر انہیں اُس عذاب سے بچا لیا جس کے وہ حق دار تھے، حدیث پاک میں ہے: ”حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے نبیﷺ سے عرض کی: کیا آپﷺ کے اوپر کوئی ایسا دن بھی آیا جو غزوۂ اُحد کے دن سے بھی زیادہ شدید تھا؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہاری قوم سے مجھے بے انتہا مصیبتیں پہنچیں، ان میں سے سب سے زیادہ سخت مصیبت وہ تھی جو مجھے طائف کے دن پہنچی، جب میں ابن عبد یا لیل سے ملا، اس نے میری خواہش کے برعکس میری دعوت کو قبول نہ کیا، میں وہاں سے غمگین حالت میں چل پڑا، پھر جب میں قرنُ الثعالب پر پہنچا تو میری حالت سنبھلی، میں نے سر اٹھا کر دیکھا: مجھ پر ایک بادل سایا کیے ہوئے ہے، پھر میں نے دیکھاکہ اس میں جبریل ہیں، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا: بے شک آپ کی قوم کا جواب اللہ نے سن لیا ہے، اللہ نے آپ کی طرف پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ آپ انہیں ان لوگوں کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں، پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، مجھے سلام کیا اورکہا: اے محمد(ﷺ)! آپ ان کی بابت جو چاہیں حکم دیں، اگر آپ چاہیں تودونوں پہاڑوں کو آپس میں ملا دوں (تاکہ یہ ان کے درمیان پِس جائیں)، تو نبیﷺ نے فرمایا: (ایسا نہ کریں) مجھے یقین ہے: اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے‘‘ (بخاری:3231)۔

[pullquote]اسلام قبول کرنے کے لیے شریعت میں بلوغت شرط نہیں ہے۔ ذیل میں ہم ان صحابۂ کرام کی مثالیں پیش کریں گے، جنہوں نے بلوغت سے پہلے اسلام قبول کیا:[/pullquote]

(1) حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: ایک یہودی لڑکا نبیﷺ کا خدمت گزار تھا، وہ بیمار ہوا تو آپﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لائے، اس کے سرہانے کی جانب بیٹھ گئے اور اس سے فرمایا: اسلام لے آئو، اس نے وہاں پر موجود اپنے باپ کی طرف دیکھا، اس کے باپ نے اس سے کہا: ابوالقاسم(ﷺ) کی بات مان لو، پس وہ اسلام لے آیا، پھر نبیﷺ یہ ارشاد فرماتے ہوئے وہاں سے نکلے: ”اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اسے جہنم سے نجات عطا فرما دی‘‘ (بخاری: 1356)۔ علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں:

(2) ”حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا‘‘ (اُسُدُ الْغَابَہ، ج: 3، ص: 589)،

(3) ”حضرت عمیرؓ بن ابی وقاص قدیم الاسلام مہاجرین میں سے ہیں، جو بدر میں شہید ہوئے، نبیﷺ نے کم عمر ی کی وجہ سے انہیں ابتدا میں شرکت کی اجازت نہیں دی تھی، پھر جب آپﷺ بدر کے لیے روانہ ہونے لگے تو وہ رو پڑے، آپﷺ نے انہیں اجازت دے دی، شہادت کے وقت ان کی عمر 16 سال تھی، انہیں عمرو بن عبدِ وُدّ نے شہید کیا، (اسد الغابہ، ج:4، ص: 287)،

(4) ”معاذؓ بن حارث بن رفاعہ انصاری صحابی ہیں، آپ کی والدہ عفرا بنت عبید بن ثعلبہ ہیں، آپ اور رافع بن مالک انصاری ہیں اور ابتدائی مسلمانوں میں سے ہیں، آپ اور آپ کے دونوں بھائی عوف اور معوَّذ بدر میں شریک ہوئے، دونوں بھائی شہید ہوئے، آپ سے کئی صحابہ نے روایات لی ہیں‘‘

(5) معوذؓ بن عفراء کی والدہ کا نام عفراء ہے، وہ بدر میں شریک ہوئے اور معاذؓ بن عمرو کے ساتھ مل کر ابوجہل کو قتل کیا، آپ کھیتوں اور باغات والے تھے، یہ دونوں صحابہ پندرہ سال سے کم عمر میں غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور ابوجہل کو قتل کیا‘‘ (اسد الغابہ، ج: 6، ص: 197)۔

(6) جب نبیﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو زیدؓ بن ثابت کی عمر گیارہ سال تھی اور حربِ بعاث میں وہ سولہ سال کے تھے اور اسی موقع پر ان کے والد شہید ہوئے، آپﷺ نے انہیں کم عمری کی وجہ سے بدر میں شرکت کی اجازت نہیں دی اور لوٹا دیا تھا، پھر یہ احد میں شریک ہوئے‘‘ (اسد الغابہ، ج: 2، ص: 346)،

(7) ”حضرت ابوسعیدؓ خدری بیان کرتے ہیں: میں غزوۂ خندق کے دن تیرہ سال کی عمر میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے والد میرا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور عرض کر رہے تھے: یا رسول اللہﷺ! اس کا جسم مضبوط ہے، آپﷺ نے مجھے لوٹا دیا، وہ بیان کرتے ہیں: میں غزوۂ بنی مصطلق میں شریک ہوا، واقدی کہتے ہیں: ان کی عمر اُس وقت پندرہ سال تھی اور چوہتّر سال کی عمر میں ان کا وصال ہوا‘‘، (اسد الغابہ، ج: 6، ص: 138)۔

(8) ”محمد بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: انسؓ بن مالک بدر کے موقع پر رسول اللہﷺ کے ساتھ نکلے، ان کی لڑکپن کی عمر تھی، وہ رسول اللہﷺ کے خدمت گار تھے اور جب آپﷺ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو اس وقت اُن کی عمر باختلافِ روایات دس سال یا نو سال یا آٹھ سال تھی‘‘ (اسد الغابہ، ج: 1، ص: 294)،

(9) ”حضرت علیؓ بن ابی طالب بیان کرتے ہیں: کچھ غلام یومِ حدیبیہ کو نبیﷺ کے پاس معاہدۂ حدیبیہ سے پہلے حاضر ہوئے، ان کے مالکوں نے رسول اللہﷺ کو لکھا: محمد (ﷺ)! واللہ! یہ آپ کے دین میں رغبت کی وجہ سے نہیں نکلے، یہ غلامی سے بھاگنے کے لیے نکلے ہیں، بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! انہوں نے سچ کہا ہے، انہیں لوٹا دیجیے۔ رسول اللہﷺ غضب ناک ہوئے اور فرمایا: اے قریش! میں سمجھتا ہوں: تم لوگ اس وقت تک باز نہیں آؤ گے جب تک کہ اللہ تم پر کسی ایسے کو نہ بھیج دے جو اس (بدگمانی پر) تمہاری گردنیں مار دے، پس آپﷺ نے انہیں واپس کرنے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ لوگ ہیں‘‘ (ابودائود: 2700)، یعنی رسول اللہﷺ نے لوگوں کی بدگمانی کے باوجود اُن کے ظاہرِ حال کے مطابق فیصلہ فرماتے ہوئے اُن کا اسلام قبول کیا اور اُن کی آزادی کا فیصلہ فرمایا۔

(10) حضرت عبداللہؓ بن عمر اپنے والد حضرت عمر فاروقؓ کے ہمراہ بالغ ہونے سے پہلے اسلام لائے، انہوں نے اپنے والد سے پہلے ہجرت کی، آپ کم عمری کے سبب غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوئے اور رسول اللہﷺ نے دوسرے نابالغ لڑکوں کے ہمراہ آپ کو واپس بھیج دیا تھا۔ (اسد الغابہ، ج: 3، ص: 336)،

(11) حضرت ولیدؓ بن عقبہ اُس وقت اسلام لائے جب وہ قریب البلوغ تھے۔ (اسد الغابہ، ج: 5، ص: 420)، نوٹ: یہاں شرعی بلوغت مراد ہے، ہمارے دور کی اٹھارہ برس سے زائد عمر کی قانونی بلوغت مراد نہیں ہے۔

(12) حضرت معاذؓ بن جبل نے اٹھارہ برس کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ (اسد الغابہ، ج: 5، ص: 187)، (13) حضرت زبیرؓ بن العوام کے اسلام قبول کرنے کی عمر کے بارے میں مختلف اقوال ہیں: آٹھ سال، بارہ سال، پندرہ سال اور سترہ سال، ایک قول کے مطابق وہ اسلام قبول کرنے والے پانچویں فرد تھے۔ (اسد الغابہ، ج: 2، ص: 307)۔

عین میدانِ جنگ میں کسی کے قبولِ اسلام کو ردّ کرنے پر رسول اللہﷺ نے شدید وعید فرمائی ہے، خواہ اُس ردّ کے حق میں ظاہری قرائن بھی موجود ہوں، بخاری و مسلم کی ایک طویل حدیث کا خلاصہ ہے: ”جنگ کے دوران حضرت اسامہؓ بن زید ایک کافر پر غالب آ گئے اورکلمہ پڑھنے کے باوجود اُسے قتل کر دیا، نبی کریمﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپﷺنے فرمایا: اسامہ! کلمہ پڑھنے کے باوجود تم نے اسے کیوں قتل کر دیا؟ انہوں نے عرض کی: (یا رسول اللہﷺ!) اس نے تو جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا، آپﷺ نے فرمایا: تم نے اس کے دل کو چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا، کل قیامت کے دن اگر وہ کلمۂ طیبہ کی امان لے کر اللہ کی عدالت میں آ گیا تو کیا جواب دو گے؟‘‘۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے