مولانا فضل الرحمٰن نے ایک جلسے میں کہیں یہ کہہ دیا کہ وہ پاکستان میں لبرل ازم کو پنپنے نہیں دینگے تو اس پر وہ دانشور جو کسی وقت کمیونزم کے فلسفے کو ہی انسانیت کے تمام مسائل کا حل سمجھتے تھے وہ لبرل ازم کی وکالت کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام ہی میں انسانوں کیلئے آزادی مساوات اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ڈھونڈتے ہوئے اسکے نقیب بنے ہوئے ہیں ؟ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟ اس سیاسی فلسفے کے ارتقائی عمل کو سمجھے بغیر محض اسکی اصطلاح کی تشریح کرتے ہوئے کبھی میاں نوازشریف کو لبرل ازم کا چیمپئن بنا دیا جاتا ہے تو کبھی ساغر و مینا اور رقص و سرور کی محافل کو لبرل ازم کا نام دیا جاتا ہے۔ تاریخ معاشیات اور سوشل سائنسز کا ایک معمولی استاد ہونے کے ناطے میں چاہوں گا کہ اس سیاسی فلسفے کے صحیح خدوخال اور ارتقائی عمل کو اپنے قارئین کے سامنے پیش کروں تو معلوم ہوگا کہ ہر وہ شخص کسی بھی وجہ سے قدامت پسند نظریات کیخلاف معاشرتی تبدیلی لانے کے اصول وضع کرتا ہے چاہے وہ مذہبی یا غیر مذہبی بنیادوں پر ایسا سوچتا ہے اُسے ہم ریڈیکل یا لبرل انسان کہہ سکتے ہیں۔ تاہم سوشل سائنسز میں ہم اسے ایک ایسا نظریہ مانتے ہیں جہاں تمام انسانوں کیلئے آزادی اور مساوات کو بنیاد بنایا جاتا ہے تو بھی اس لحاظ سے ہمارے پیغمبراعظمؐ نے غربت میں جہالت، ناانصافی ظلم اور غلامی کی قدامت پرست نظام کو ختم کرنے کیلئے جو انقلابی سوچ پیش کی وہاں حضرت بلالؓ اور صہیب رومیؓ جیسے غلام بحیثیت انسان ہونے کے ناطے عرب سرداروں کے برابر ٹھہرائے گئے۔ کیونکہ لبرل ازم کیمطابق ہر انسان کے بنیادی انسانی حقوق ہوتے ہیں جسے کوئی بھی ریاستی طاقت چھین نہیں سکتی ۔ جان لاک جو لبرل ازم کا سرخیل ہے اسکے مطابق کسی بھی انسان کی جان ، مال اور آزادی کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور کوئی بھی ریاست کسی بھی ایسے سماجی معاہدے کو نافذ نہیں کر سکتی ہے جس سے ایک فرد کے حق آزادی، مذہبی اور معاشی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی پر کوئی قدغن لگے۔
جدید سیاسی نظریات کا ماخذ میکاولی اور نشاۃ ثانیہ کا دور ہے 1789 کے فرانسیسی انقلاب نے فرانس کے بادشاہ کو مجبور کیا کہ فرانس کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے جس کا اجلاس 1614 سے نہیں بلایا گیا تھا۔ جنرل اسمبلی میں نوابین، مذہبی زعماء اور متوسط طبقے کے افراد کے نمائندے ہوتے ہیں مگر اس اسمبلی میں نوابین اور مذہبی زعما کی تعداد متوسط طبقے کے نمائندوں سے زیادہ تھی تو چونکہ ریاست نے محصولات میں اضافہ کرنا تھا تو انقلابیوں کے دبائوکی وجہ سے اس اسمبلی میں متوسط طبقے کی نمائندگی برابر کرنا پڑ گئی اور قدامت پرست بادشاہت کے اختیارات کو کم کرنے کیلئے فرانس میں فرد کے شہری حقوق کا ڈیکلریشن سامنے لایا گیا۔ جس کے تحت نیا دستوری ڈھانچہ قائم کیا گیا جسے قومی اسمبلی کہا گیا۔ اس قومی اسمبلی نے لبرل اصلاحات کے ذریعے آرسٹو کریسی کو ختم کر دیا۔ نوابین کا استحقاق اور خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی۔ چرچ کے اختیارات ختم کر دئیے گئے اور انکی سرکاری جائیدادیں ریاست نے ضبط کر لیں اور قانون کیمطابق سب کو برابر ٹیکس دینے کا قانون بن گیا۔ بادشاہ کے اختیارات محدود کر کے دستوری باڈی کے اختیارات بڑھا دئیے گئے۔ مگر فرانسیسی انقلابیوں کے ہاتھوں بادشاہ اور طبقہ اشرافیہ کی وسیع پیمانے پر قتل و غارت اور بعد میں نپولین بونا پارٹ کی یورپ پر یورش کی وجہ سے اور 1815 میں یورپ کے ہولی الائنس کی بونا پورٹ کو شکست کے بعد فرانس انقلاب اور لبرل ازم کیخلاف ردعمل آیا جسے ہم کنزرویٹو ازم کہتے ہیں۔ ایڈمنڈ برک کے خیالات لبرل ازم کو مکمل مسترد کرتے ہیں۔ انکے مطابق لبرل ازم میں جب بعض نظریات کی بنیاد پر معاشرے میں ساختی تبدیلی لائی جاتی ہے تو جس طرح کی جسم کے ایک حصے کو چھیڑنے سے سارے جسم کا نظام شکست وریخت کا شکار ہو جاتا ہے اسی طرح سماج میں تبدیلی لانے کیلئے اصلاحات کا عمل بتدریج شروع ہو جاتا ہے کیونکر معاشرہ ایک ارگینگ اکائی ہوتا ہے ہم صدیوں کی روایات کے ذریعے وجود میں آنیوالے اداراتی سلسلوں میں بعض طبقوں کی برتری کو یکدم لبرل ازم کے نام پر برابری میں نہیں بدل سکتے ۔
برک کے مطابق کسی بھی ریاست کو ایک مدبر کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی خاص طبقے کا نمائندہ نہیں ہوتا ہے بلکہ پوری قوم کا رہنما ہوتا ہے۔ ایڈمنڈبرک کی لبرل آئیڈیالوجی پر تنقید کے باوجود 19ویں لبرل ازم کی صدی بن گئی۔ ڈیوڈ ہوم نے کلاسیکل لبرل ازم کے نمائندے کے طور پر یہ نظریہ پیش کیا کہ لوگ جسے اچھا یا برا کہتے ہیں وہ محض ان کے جذبات ہوتے ہیں۔ وہ جذبات اور احساسات جن سے ہم متفق ہوتے ہیں ان کو اچھا کہا جاتا ہے اور جن سے ہم متفق نہیں ہوتے وہ برے ہوتے ہیں۔ درحقیقت ہمارے اخلاقی قوانین ہمارے افادے ہوتے ہیں۔
افادہ، کسی شے کی انسانی ضرورت پورا کرنے کی صلاحیت کو کہتے ہیں۔ انیسویں صدی کے ابتدا میں لبرل ازم کا بانی جرمی بینتھم ہے اسکے مطابق لوگوں کی اکثریت کی مسرت لبرل نظریات کی بنیاد ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اگر حکومت اجتماعی طور پر لوگوں کی مسرتوں کو بڑھاتی ہے اور انکی تکالیف کو کم کرتی ہے اور اس مقصد کیلئے مجموعی فلاح و بہبود کے منصوبے بروئے کار لاتی ہے تو سیاسی طور پر یہ لبرل ازم کو جمہوریت کی بنیاد فراہم کرتا ہے یعنی ایک فرد سے لیکر معاشرے میں آزادانہ جمہوریت کے ذریعے ایسے دستوری
The greatest happiness of
greatest number پر ہو۔ کلاسیکی معاشیات کے بانی آدم سمتھ 1776ء میں اقوام کی دولت کی نوعیت اور اسباب پر ایک کتاب تحریر کی جس میں اس نے سرمایہ دارانہ نظام میں آزادانہ نظام معیشت کو انسان کو معاشی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے کو بنیادی عامل قرار دیا۔ کلاسیکی، معاشی نظریات اور بنیادی انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے آزادانہ انسانی جدوجہد کو ہی ہوبرٹ سپنسر نے اٹھارویں صدی کے آخر میں لبرل نظریات کی بنیادی قرار دیا۔ مالھنس اور ریکارڈو کے مطابق ہر شخص کا محرک اپنی ذات ہوتی ہے۔ A man is motivated by self interest only اس کی بنیاد پر ہربرٹ سپنسر نے سوشل ڈارونین ازم کے نظریات پیش کئے۔ کسی بھی انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی جبلت کے مطابق آزادانہ معاشی اصولوں کے تحت اپنی ذات کیلئے جائیداد اور دولت کا ارتکاز کرے اور دوسروں کی مدد اور خود غرضانہ سوچ کا نہ ہونا اجتماعی مفاد میں نہیں ہے۔
جو دانشور لبرل ازم کے حمایتی میں وہ لازماً سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کو بھی قابل مذمت نہیں سمجھتے ہونگے وگرنہ جہاں انسانوں کو آزادی ہو گی تو بعض طاقتور انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں سے لازماً دوسروں کا استحصال کرینگے چاہے یہ استحصال معاشی ہو، یا سماجی ۔ فرانسیسی آرسٹو کریٹ ڈی۔ ٹوکو ویلی 1840 میں امریکی جمہوریت کو آئیڈیل قرار دیتا ہے۔ اسکے مطابق جمہوریت معاشرے کے لوگوں کے سیاسی عمل میں شرکت کے ذریعے ایک انسانی فطرت کی تشکیل میں مدد دیتی ہے لہذا جمہوریت کی مخالفت اللہ کی مرضی و منشا کی مخالفت ہے تاہم ٹی ایچ گرین کہتا ہے کہ محض فرد کی نجی آزادی ہی لبرل ازم کی بنیاد نہیں ہو سکتی ہے۔ ایک انسان کو کسی بھی جمہوری معاشرے کو تمام انسانوں کیلئے قابل قبول بنانے کیلئے مضبوط اخلاقی بنیادیں بھی فراہم کرنا ضروری ہے اور اس کیلئے اسے اجتماعی فلاح و بہبود کو اپنے افادے پر ترجیح دینے کیلئے اپنی قوت ارادی کو مضبوط کرنا ہو گا۔ مضبوط قوت ارادی ہی انسان کو اپنی آزادی کی اخلاقیات کی حدود مرتب کرنے پر آمادہ کرتی ہے مگر جان لاک لبرل ازم میں نمائندہ جمہوریت کی بات کرتا ہے اور مخصوص گروپوں کی نمائندگی کے نظرئیے کو مسترد کرتا ہے ۔جیمز مل معاشرتی انجینئرنگ کو لبرل ازم کہتے ہیں جبکہ فوکویامہ امریکہ کی لبرل ڈیمو کریسی اور تیزترین صنعتی ترقی کو ہی دنیا کیلئے ایک ماڈل قرار دیتے ہوئے امریکہ کی لبرل ڈیمو کریسی اور اسکے ذریعے ایک انسان کو حاصل کردہ آزادی اور سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت حاصل کردہ اعلیٰ معیار زندگی کی وجہ سے اسکے مخالف نظریہ حیات جو مارکس اور لینن نے پیش کیا تھا وہ کمیونزم کیلئے واٹرلوثابت ہوا ہے۔
بشکریہ: نوائے وقت