ماہ دسمبرکا دکھ؟

ہیگل اس نظریہ کا قائل ہے کہ معاشرے میں (Challenges) سے نمٹنے کیلئے مسلسل ردعمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو قومیں عرصہ دراز سے کسی چیلنج یا جنگ میں مسلط رہتی ہیں وہ اعصابی لحاظ سے نہ صرف مضبوط ہوتی ہیں بلکہ اپنے سیاسی اور معاشی نظام کو بھی درست زاوئیے عطا کرتی ہیں۔ لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ قوموں میں لگن کا جذبہ ہو۔ تعمیری سوچ اس قوم کے قویٰ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو جلد ہی وہ قومیں اپنی حیثیت اور مقام کھو بیٹھتی ہیں۔

آج ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں۔ ماہ دسمبر میںہونے والے عظیم حادثے نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ایسے سانحات سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ اس واقعہ نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا ہمارے اندر اس قسم کے ”چیلنجز“ سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت ہے۔
اس قوم نے ایک بار پھر ہم سب کو متحد کردیا بلکہ دہشت گردی کے خلاف نمٹنے کے لئے ہم نے عزم اور حوصلہ کا اظہار کیا۔ نیشنل ایکشن پلان سامنے آیا کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ لمحہ فکر یہ ہے کہ ہم نے ان اقدامات پر کس حد تک عمل درآمد کیا۔ حالات اور واقعات کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس عملی جدوجہد کو بکھرنے نہ دیا جائے اور اس ناسور کے تحت جس کی بدولت پچاس ہزار سے زائد جانوں کا نقصان ہوا اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے 16 دسمبر کو ملنے والے اس عظیم دکھ نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا۔
دسمبر کے رخصت ہوتے ہی جہاں کتنے اسباب و واقعات سال کی دبیز گہرائیوں میں دفن ہوگئے وہاں نیا سال پوری شدومد اور امید کے سہارے طلوع ہوتا دیکھ کر پھر سے امید کے تانے بانے جڑ جاتے ہیں۔

سال گذشتہ میں کئی مایہ ناز شخصیات تہ خاک ہوئیں دسمبر میں کئی زخم اپنا نشان چھوڑ گئے۔ جن میں منیر نیازی اور پروین شاکر کا نام روشن ستارے کی مانند جگمگاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ منیر نیازی اور پروین شاکر نے محبت کے والہانہ جذبے کو امنگ ترنگ اور نئی کیفیات عطا کیں۔ ان کیفیات میں بھر پور توانائی اور عروج پروین شاکر کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔ ان کے ہاں ہجر کی کیفیات بھی مخصوص رنگ میں ڈھلی نظر آتی ہے۔….
میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آکے میرے شہر سے چلا بھی گیا
نازک خیالات اور احساسات اور جذبات جب لفظوں کا روپ دھارتے ہیں تو ان کیفیات کو زندہ کرتے ہیں جو قاری کو اپنی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ جو اس کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔

مغربی مفکر بودلیئر کے نزدیک زندگی ایک تلخ حقیقت ہے اور ان تلخیوں سے لمحات میں اثر انگیزی احساسات کی روانی اور خیالات کی پختگی کو ڈھونڈنا معرکہ آرائی سے کم نہیں اور یقیناً یہ شخصیات اس درجہ کمال کو چھوتی نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر سہیل احمد خان نے منیر نیازی کی شاعری کو معاشرے میں پھیلی ہوئی بے حسی میں ایک موثر اور پرتاثیر آواز قرار دیا ہے شاید اس بات کا ادراک منیر نیازی کو خود بھی تھا وہ کہتے ہیں….
میں جانتا ہوں سورج ہوں ڈوب جاﺅں بھی تو
مجھے زوال بہت دیر تک نہیں رہتا

منیر نیازی سے میری پہلی ملاقات سیکرٹری خوراک احسن راجہ کی کتاب ”ہمہ یاراں ہارورڈ“ کی تقریب رونمائی میں ہوئی۔ جس میں فرحت عباس شاہ میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ ان کے ساتھ گفتگو ان کی علمیت، حساسیت اور معاشرے کے تمام پہلوﺅں پر مکمل ادراک کا واضح ثبوت تھی۔ وہ زندگی کی یکسانیت سے بسا اوقات گھبرا کر سایہ عافیت کے متلاشی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنا وہ شعر سنایا جو ان کے سالہا سال کے تجربے کا نچوڑ تھا۔….
عادت ہی بنالی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں رہنا اکتائے ہوئے رہنا

وہ بہتری اور خوب سے خوب تر کے سفر پر تن تنہا سفر کرتے رہے اور بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ….
جی چاہندا اے مرن تو پہلاں
ایسا شہر میں ویکھاں
جس دے لوکی اک دوجے نال
نفرت کدی نہ کردے ہوں
جس دے لوکی مرن تو پہلاں
روز روز نہ مردے ہوں

ہم اسی معاشرے کے متلاشی ہیں جہاں روز روز مرنے کی روایت نہ رہے اور زندگی حقیقی معنوں میں مسرت اور خوشی کا پیغام لائے ….
گئے برس کی بس یہی بات سازگار رہی
فضا غموں کے لئے خوب سازگار رہی

بشکریہ :نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے