انشائیہ

جب نجی ٹی وی اپنے ہاں عام ہوئے بلکہ ٹی وی چینلز کی بہتات ہوئی تو اخبارات کے صحافیوں کی چاندی ہو گئی، سب کی تو خیر نہیں ہاں بعض کی تو جیسے لاٹری نکل آئی۔ ہما بی بی نے کبھی پَر سمیٹے اور کبھی پَر پھیلائے، سَر پرتوکبھی کندھوں پر آن ڈیرے جمائے۔ چاندی تڑپ تڑپ کے برسنے لگی۔ جن صحافیوں کو نجی ٹی وی چینلز میں میزبانی کا شرف حاصل ہوا وہ اب ’اینکر پرسن‘ کہلائے اور خدا کا کرنا کہ دھن دولت کے ساتھ ساتھ علم و دانش کی برکھا بھی خوب خوب برسی۔

حکومتِ وقت کی کچن کیبنٹ میں کیا پَک رہا ہے، حزبِ مخالف حکومت کو نیچا دکھانے کیلئے تُرپ کے کون کون سے پتّے کھیلنے کا ارادہ رکھتی ہے، پاکستان میں کہاں کہاں ’را‘ کے ایجنٹ کس کس روپ میں چھُپے اپنا اپنا کام سر انجام دے رہے ہیں، دفاعی امور ہوں یا معیشت کے گورکھ دھندے، کھیل کے میدان ہوں یا فزکس و کیمسٹری کی لیبارٹری، اپنے یہ ’اینکر پرسن‘ ماشاء اللہ ٹھیک ٹھیک ٹھکانوں پر نشانے لگانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔

امریکہ اور اسرائیل کے مابین انتہائی خفیہ اور ’کوڈ ورڈز‘ میں پاکستان کے ایٹمی راز چُرانے کا معائدہ طے پایا ہو۔ انڈیا اور اسرائیل نے پاکستان پر حملہ کرنے کی انتہائی راز داری کے ساتھ(جس کا امریکہ کو بھی علم نہیں) حکمتِ عملی طے کی ہو، ہمارے اینکر پرسنز کے لئے تشویشی و تفتیشی جر نل ازم کے ’خاص فارمولوں‘ کے استعمال سے امریکہ اسرائیل اور انڈیا اسرائیل کے ان ناپاک عزائم کا بھانڈہ پھوڑنا۔۔۔مسئلہ ای کوئی نئیں۔۔۔ یہ تو ہمارے اینکر پرسنز کے بائیں ہاتھ کا،بلکہ بائیں ہاتھ کی چیچی انگلی کا کھیل ہے۔

ہم نے شروع میں لکھا ہے ’اخبارات کے صحافیوں کی چاندی ہو گئی‘، اخبار میں کام کرنے والے وقائع نگار جنہیں اب کوئی نہیں جانتا اب ’رپورٹر‘ ہیں (پہلے مدیر ہوا کرتے تھے اب ایڈیٹر ہیں)۔رپورٹر خبریں اور کہانیاں (stories)لاتے تھے، سب ایڈیٹر ان خبروں اور کہانیوں کی نوک پلک سنوارتے اور ایڈیٹر یہ فیصلہ(اخبار کی پالیسی کے مطابق)کرتے کی یہ خبر یا کہانی شائع ہو گی یا نہیں، اگر شائع ہو گی تو اخبار کے کس صفحہ پر کتنے کالم میں اور کس جگہ شائع ہوگی۔تب ایڈیٹر اخبار میں ملازمت ہی کرتے تھے مگر اخبار میں کیا شائع ہونا ہے یاکیا شائع نہیں ہونا، یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ایڈیٹر کا تھا۔آج تو اخبار میں چیف ایڈیٹر، جو عموماً اخبار کا مالک ہوتا ہے لہذا فیصلہ سازی کا مرکز و منبع خود چیف ایڈیٹر صاحب کی ذاتِ گرامی ہے۔ ایڈیٹر تو بس”ہم کو عبث بدنام کیا“۔۔۔تاہم تمام اخبار نہیں بعض اخبا ر ات میں ایڈیٹر کا شعبہ اپنے اختیار کے ساتھ آج بھی موجود ہے (خدا کرئے یہ بات سچ ہی ہو)۔

سینیئر اینکر پرسن او ر سینیئرصحافی کی بھی خوب ہے۔ جو صحافی تیس چالیس سال سے شعبہئ صحافت سے منسلک ہے وہ بھی سینئیرصحافی سینیئر اینکر پرسن ہے اور وہ بھی سینئیرصحافی سینیئر اینکر پرسن ہے جس کی صحافت کی کل عمر ہی دس برس ہے، جس کی کوئی سٹوری کبھی بھی شہ سُرخی (lead story)نہیں بنی۔ مارکیٹ میں اخبارات کی بھر مار ہے۔ ایسے اخبار بھی اپنا وجود رکھتے ہیں جن کا کبھی نام بھی نہیں سُنا(اگر نام نہیں سُنا تو قصور آپ کا ہے نا کہ اخبار کا) اور ویسے بھی نام میں کیا رکھا ہے صاحب، تم کام بتاؤ۔ چنانچہ ایسے نامور اخبار کی شہ سُرخی (lead story) جس صحافی کے نام سے شائع ہوئی وہ تو سکّہ بند سینئیر صحافی ہے ناں۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے اخبار سرکار دربار کی بارہ دریوں کی گزر گاہوں سے شناسائی کا وسیلہ ہوتے ہیں۔ سرکاری اشتہار، چھوٹے موٹے پرمٹ، کمرشل پلاٹ وغیرہ کے حصول میں اخبار کا ڈیکلیریشن کارآمد ہوتا ہے۔ اخبار کے مالک کو صحافت شھافت اور جرنل ازم ورنل ازم سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔۔۔ویسے تو ’لینے‘ کے لئے ہی اخبار کا چکر چلایا جاتا ہے۔

ویسے یہ سرکاری اشتہار بھی خوب ہیں۔بڑے اخبار، بڑے شہروں اور صوبائی دارلحکومتوں سے بیک وقت شائع ہونے والے، سرکاری اشتہاروں کے لئے حکومتوں پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالتے ہیں اورحکومتیں انہی اشتہارات کی اُوٹ سے ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے سنہری اصول کے ضابطہئ کار پر عمل در آمد کرتی اور کرواتی ہیں۔عدالتوں میں زیرِسماعت دیوانی نوعیت کے مقدمات میں ’مشتری ہوشیار باش‘ قسم کے اشتہار عموماً جن اخبارات کی زینت بنتے ہیں، وہ وہی اخبار ہوتے ہیں ”جن کا کبھی نام بھی نہیں سُنا“۔

ٹی وی کی چمکدار روشن روشن سکرین نے بہت سے صحافیوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔اخبارمیں رپورٹر کا مقام و حیثیت مرکزی تھی، ٹی وی میں یہ کہیں گُم سا ہو گیا البتہ مشاہرہ دو گنا تین گنا ملنے لگا۔ ہمارے ٹی وی چینلز میں کچھ صحافیوں کو اینکر پرسن کا عہدہئ خاص نصیب ہوا۔ ہمارے اینکر پرسنز ایسے بھی ہیں جو غیر صحافتی شعبے سے اینکر پرسن بنے۔یہ رتبہئ بلند ملا جس کو مل گیا۔ مرد اینکر پرسن کیلئے صحافتی علم، تجربہ اور بصیرت سے زیادہ دھاک بٹھانے والی شخصیت، صدا کاری، جارحانہ اندازِ تکلم وغیرہ معیار ٹھہرا۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اینکر پرسن اپنے مہمانوں کو بولنے کا کم موقع دیتے ہیں، ان کی پوری بات نہیں سنتے، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ مہما ن آ پس میں اُلجھیں۔ لوگ ہی کہتے ہیں کہ اس طرح پروگرام کی ریٹنگ بڑھتی ہے، واللہ عالم بالثواب۔

جسے آج ’میڈیا‘ کہا جاتا ہے کبھی یہ صحافت کہلاتی یا شعبہئ صحافت کہلاتا تھا۔ سیانے فرماتے ہیں تب صحافت عوام اور حکومت کے درمیان پُل کا کام کرتی تھی۔ لوگوں کی مشکلات، ضروریات اور اُمنگوں سے حکومت کو باخبر رکھنا اور لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالنا صحافت نے اپنا فرض سمجھا تھا۔ اور ہاں تب صحافت ’ریاست کا (خود ساختہ) چوتھا ستون بھی نہ تھا۔

صحافت جب ’میڈیا‘ کے بہروپ میں ڈھلی تو ’خدمت‘ سے ایک ہی زقند میں ’پرافٹ‘تک کا سفر طے کیا اور میڈیا انڈسٹری کے منصبِ اولیٰ پہ جا فائز ہوئی۔ اور فرمایا کہ ہم ریاست کا چوتھا ستون ہیں۔ہمارے بغیر ریاست نا مکمل ہے، ویسے بھی تین ستونوں (انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ) کے ساتھ کوئی عمارت کیسے قائم رہ سکتی ہے! میڈیا کے اس پُر فریب نعرے پر تین ستونوں میں سے کسی نے بھی کسی ردّ ِ عمل کا اظہار نہ کیا چنانچہ آج بہت سے ’سینئر‘ صحافی، اینکر پرسن اور قانون ساز ماہرین بھی ’بجا‘ طور پر یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ وطنِ عزیز کی ریاست کے چار ستون مکمل ہیں لہذا ریاست مضبوط و پائیدار ہے۔ برطانیہ، امریکہ، چین، جاپان، فرانس اور جرمنی وغیرہ یہ تو تین تین ستونوں والی ریاستیں ہیں ان کا کیا(تین میں نا تیرہ میں)کبھی بھی دھڑام سے زمین بوس ہو سکتی ہیں۔

میڈیا ریاستِ پاکستان کا چوتھا ستون ہو یا نہ ہو یہ ’بادشاہ گر‘ تو ہے۔ یہ میڈیا(صحافت) ہی تو ہے جس نے پانامہ لیکس کی آڑ میں آج اپنے میاں صاحب کو سات سمندر پار، اپنی راج دھانی سے دور، ریت میں گردن چھپا کر رہنے پہ مجبور کیا ہے، یہ میڈیا ہی ہے، یہ اینکر پرسنز ہی ہیں۔ ویسے کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ اتنے طاقتور میڈیا کے ایک طاقتور میڈیا ہاؤس کے طاقتور مالک صد ہا دنوں سے پسِ دیوارِ زنداں ہیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے