قدرت کا عظیم شاہکار انسان ہے۔ اس انسان کیلئے خدا نے پوری کائنات پیدا کی اور خود انسان کو اپنے لئے پیدا کیا۔ وہ انسان جو اپنی پیدائش یا حیات کے مقاصد کو سمجھ گئے وہ اشرف المخلوق کے درجے پر فائز ہو گئے۔ ان میں سے بھی بہترین وہ ہیں جن کی زندگی کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔ یہ لوگ خوش نصیب اور قابلِ رشک ہیں کیونکہ یہ ختم المرسلؐ اور ان کے اصحابؓ کیلئے اپنی زندگی وقف کئے ہوتے ہیں۔
ان قابل رشک ہستیوں میں سے ایک ہمارے پیارے مفتی منیر احمد شہید بھی تھے۔ مفتی منیر احمد شہید 1979 میں تحصیل لورا کے گاؤں میرا حسنال میں چودھری خالقدار صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پرائمری سکول میراحسنال سے حاصل کی ۔مگر ان کا رجحان و میلان دینی تعلیم کی طرف تھا ۔لہذا پرائمری کے فوراً بعد مدرسہ اشاعت القران خیرا گلی حفظ میں داخلہ لیا۔یہاں انہیں مولانا نور محمد جیسے اساتذہ میسر آئے۔ نصف قران مجید کرنے کے بعد وہ اسلام آباد مولانا حمید صابری رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسے میں آگئے۔ حمید صابری کے پاس انہوں نے قران مجید حفظ مکمل کیا ۔پھر دینی تعلیم کے سلسلے کو مزید آگے بڑھانے کے لیے مفتی منیر شہید جامعہ فریدیہ اسلام آباد آئے ۔یہاں سے انہوں نے درس نظامی مکمل کیا ۔مگر علم کی پیاس ابھی بھی نہ بجھی تھی تو مفتی منیر احمد شہید کا اگلا پڑاؤ کراچی رہا۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے مدرسہ احسن العلوم میں مفتی زرولی خان سے دورہ حدیث مکمل کیا ۔اور تخصّص کی منازل طے کیں تعلیم کی تکمیل کے بعد اسلاف کی سنت پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے مفتی منیر شہید نے تدریس کی وادی میں قدم رکھا ۔اور اپنے استاد و بعد اذاں سسر مولانا حمید صابری کے مدرسے I-8/3 اسلام اباد میں درس نظامی کے طلبہ کو پڑھانا شروع کر دیا۔
مفتی منیر احمد شہید ہمہ صفت موصوف تھے انہوں نے ایک باقاعدہ اور با مقصد زندگی گزاری۔ اگرچہ انہوں نے صرف زندگی کی چونتیس بہاریں دیکھیں ۔مگر جو کام کار ہائے نمایاں وہ کر گئے وہ صدیوں پہ بھاری ہیں اگر مفتی منیر شہید کی زندگی کا مختصر جائزہ لیا جائے تو ان کی کتاب زیست ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
مفتی منیر احمد شہید نے بھرپور زندگی گزاری ۔اگر علاقہ و خاندان کے لیے ان کی قربانیاں دیکھی جائیں تو ایک طویل فہرست ہے علاقہ کے اندر لوگوں کو جوڑنا ہو،اجتماعیت پیدا کرنی ہو،اپنے لوگوں کی شناخت کے لیے انتخابات اور سیاست کے مسائل ہوں یا سماج کے ۔مفتی منیر احمد ہر موقع پر ہمیں صف اول میں نظرآتے ہیں ۔افراد سازی ہو یا اداروں کا قیام۔ ان میں اُن کا کوئی ثانی نہ تھا ۔مدرسہ مدینۃ العلم اور جامعہ مسجد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نکر ھلاں جہاں ان کی اداروں کے قیام کی صلاحیتوں کی گواہی دیتے ہیں۔ وہاں ہزاروں کی تعداد میں ہمارے علاقے اور راولپنڈی اسلام آباد کے حفاظ و علماء وہ افراد ہیں جو افراد سازی میں ان کی صلاحیتوں کا کرشمہ ہیں۔
مفتی منیر احمد شہید نے اپنی زندگی کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ کو بنایا تھا۔ وہ اس کے لیے کسی قسم کے کمپرومائز کے لیے تیار نہ تھے۔ جس بات کو حق سمجھتے تھے۔ ڈنکے کی چوٹ پر اس کا اظہار کرتے تھے۔ کوئی خوف لالچ یا طمع ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکا ۔حکومتی پابندیاں ہوں یا معاشرتی مصلحتیں مفتی منیر شہید سچ کے اظہار میں ان میں سے کسی کو بھی کبھی خاطر میں نہ لاتے تھے ۔ختم المرسلؐ کی ختم نبوت کا معاملہ ہو یا صحابہ کرام ؓکے دفاع کا مسئلہ مفتی منیر اس میں ننگی تلوار تھے ۔وہ اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار تھے، اسی راہ میں انہوں نے اپنی جان بھی قربان کر دی اور سرخرو ہو گئے ۔دفاع اہل بیتؓ و اصحابؓ رسول ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔
مفتی منیر احمد شہید کی شخصیت کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان میں مولانا ابوالکلام آزاد جیسی جرات و حرارت،مولانا حسن جان جیسی بردباری اور عطاءاللہ شاہ بخاری جیسی خطابت کے آثار ہمیں نظر آتے ہیں۔ مفتی منیر وعدے کے پکے،قول کے سچے اور اپنے اصولوں کے تحت زندگی گزارنے والے آدمی تھے۔ کسی بھی مسئلہ پر غور و فکر کے بعد اپنا موقف بناتے اور پھر کسی بھی طرح اس سے سر موانحراف نہ کرتے تھے ۔وقتی مصلحتیں یا مفاداتی چیزیں ان کو چھو کر بھی نہیں گزری تھیں۔ وہ زندگی کو سود وزیاں سے برتر سمجھتے تھے زندگی ان کے لیے زندگی دینے والے کا تحفہ تھا اور اس کا حق اسی صورت ادا ہو سکتا تھا کہ اسی مالک کو خالق کی تعریف میں زندگی گزاری جائے یہی کام انہوں نے ساری زندگی کیا ۔اسی طرح ختم المرسلؐ کی سنتوں کی اتباع اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اصحابؓ رضی اللہ عنہ کا دفاع ہی مفتی منیر کے لیے سب سے منافع بخش”کاروبار”تھا . دنیا کے کسی کاروبار ولالچ میں وہ نہ پڑے بلکہ انہوں نے اپنی جان کا سودا جنت کے بدلے میں کر لیا اور کامیاب و کامران ٹھہرے ۔
مفتی منیر احمد شہید بے حد متوکل علی اللہ تھے۔ وہ جس راہ کے مسافر تھے جانتے تھے کہ اس راہ میں مشکلات زیادہ اور آسانیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔مگر ان کے حوصلے اور عزم ہمالیہ سے بلند تھے۔ وہ اپنے مقاصد کیلئے پہاڑوں اور ریگستانوں تک سے ٹکرانے کیلئے تیار تھے۔ مگر اپنی راہ سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔ مستقل مزاجی اور استقلال گویا ان کی عاداتِ ثانیہ تھیں۔ وہ محاذکے ایسے سالار تھے جو ہمیشہ صف اول میں سپہ سالار بن کر کھڑے ہوتے تھے۔ ساتھ چلنے والوں کیلئے مثلِ جگنو روشنی بکھیرتے تھے۔ غریب و عام آدمی کی توانا آواز تھے۔ ہمیشہ عام لوگوں میں رہنا پسند کرتے تھے۔ وہ راہِ وفا کے ایسے مسافر تھے جنکے بارے میں شاعر نے کہا تھا۔
راہ وفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم
مگر اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ فرقہ واریت نے ہمارے ملک میں کئی قیمتی جانیں لے لی ہیں اور دنیا کے طاقتور و مالدار ممالک ہمارے ملک میں فرقہ واریت کو نہ صرف ہوا دیتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے وہ اپنے مقاصد و سیاست کو پروان چڑھاتے ہیں یہ سلسلہ پتہ نہیں کب رکے گا مگر ہمارے اہل علم و سیاست کو اسی معاملے پر آگے آ کر کردار ادا کرنا ہوگا اور خونی کھیل کو بند کرانا ہوگا۔
مفتی منیر احمد شہید صرف 34 سال کی عمر میں شہید ہو گئے مگر وہ ہمارے دلوں اور ذہنوں میں زندہ ہیں. بحیثیت مسلمان ہمارا، ایمان بھی ہے کہ شہید مرتا نہیں مفتی منیر احمد شہید ایک مقصد کے لیے جیے اور مقصد کے لیے مرے۔ 03 جنوری 2014 کو وہ اسلام آباد میں جامِ شہادت نوش کر گئے۔ مگر ان کا مشن ان کے بھائی چوہدری رحیم،خطیب الرحمن،حافظ شکیل اور ان کے ہزاروں شاگرد جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں ۔مفتی منیر احمد شہید اگرچہ تھوڑا جیے مگر وہ بھرپور جیے۔جیتے ہوئے انہوں نے کردار کی عظمت کو چھوا، اور جب دنیا چھوڑی تب بھی اپنے خون سے اعلی نقش چھوڑ کر گئے۔ ان جیسے لوگوں کے بارے میں شاعر نے کہا تھا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی رہی
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا