اسلام آباد: انسداد ہراسانی قانون 2010 کے تحت طلباء کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سٹینڈنگ انکوائری کمیٹی بنانا ہر تعلیمی ادارے کے لئے لازم ہے۔لیکن چودہ سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی چند تعلیمی اداروں نے ہراسانی جیسے سنگین مسئلے کو سمجھتے ہوئے ایسی کمیٹیز بنائی ہیں جبکہ بہت سےتعلیمی اداروں میں کوئی کمیٹی موجود ہی نہیں ہے ۔بہت سے تعلیمی ادارے ایسے بھی ہیں جن کی انتظامہ ہراسانی کمیٹی کے ہونے کا دعوی تو کرتی ہے لیکن ان کی کاکردگی صرف کاغذوں تک محدود رہتی ہیں۔
مہر گڑھ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ملیحہ حسین نے ان خیالات کا اظہاربڑھتے ہوئے ہراسانی کے واقعات پر بات کرتے ہوئے دوران انٹرویو کیا۔
پاکستان میں کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراسانی کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کے لیے پہلا قانون سنہ 2010 میں منظور کیا گیا تھا۔یہ قانون اہم سماجی رکن ڈاکٹر فوزیہ سعید نے ہر شعبے کی خواتین سے تحقیق کے بعد بنایا تھا ۔تاہم قانونی ماہرین کے مطابق اس قانون میں کچھ سقم موجود تھے اور کام کی جگہ، ہراسانی، ملازم، ملازمت کی قانونی تعریف بھی مبہم اور محدود تھی۔ اس لئے اس قانون میں ترمیم کی گئیں۔یہ ایک ایسا قانون ہے جو تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سدباب کے لئے مکمل ضابطہ فراہم کرتا ہے،لیکن بدقسمتی سے اس کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ جس کا عملی ثبوت تعلیمی اداروں میں ہونے والے جنسی ہراسگی کے واقعات ہیں۔
سماجی تنظیم مہر گڑھ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد میں اب تک تیس ہزار لوگوں کو انسداد ہراسانی قانون کے تحت تربیت دی جاچکی ہےتاکہ وہ اپنے اداروں میں انسداد ہرسانی کمیٹی کی تشکیل قانون کے قواعد وضوابط کے مطابق کر سکی۔
تعلیمی اداروں میں اس قانون کے نفاذ کے بارے میں جاننے کے لئے مہر گڑھ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ملیحہ حسین سے رابطہ کیا گیا جنھوں نے نہ صرف اس قانون کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا بلکے پچھلے کئی برس سے تعلیمی اداروں میں اس کے نفاذکے لئے کوششا ں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں ایسے واقعات دیکھ کر دلی افسوس ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے عملی کوششیں نہیں کی جاتیں۔
انھوں نے مزید بتایاکہ وہ حال ہی میں لاہور سے لاہور کالج فار وومن اور پاکستان انسٹیوٹ اینڈ فیشن ڈیزائنگ میں اس سلسلے میں ایک تربیتی پروگرام سے واپس لوٹی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ صرف چند تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو اس قانون کو سنجیدہ لیتے ہوئےانسداد ہراسانی پر کمیٹیز بنا رہے ہیں اور باقاعدہ اپنے کمیٹیز ممبرز کے لئے تربیتی پروگرامز بھی کرواتے ہیں۔تاہم ذیادہ تعلیمی ادارے ایسے ہیں جنھوں نے ہراسانی کمیٹیز نہیں بنا ئیں یا اگر بنائی بھی ہیں ان کی کارکردگی صرف کاغذی ہوتی ہے اور عملی طور پر ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا. ان کا کہنا تھا کہ اگر کہیں کوئی ہراسر ہوتا ہے تو وہ بھی ایسی کمیٹی کو نہیں بننے دیتا۔
سٹیڈنگ انکوائری کمیٹیز کیسے کام کرتی ہیں
سٹیڈنگ انکوائری کمیٹی کی کارکردگی کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ اس قانون کے تحت عموماً اداروں میں انتظامیہ کے نگران ہراسانی کمیٹی تشکیل دیتے ہیں جبکہ تعلیمی اداروں میں یہ اختیار وائس چانسلر یا پرنسپل کے پاس ہوتا ہے۔ ہراسانی کمیٹی کا مطلب تین بھروسے مند اور اصول پسند لوگوں کی کمیٹی تشکیل دینا ہے،جس میں ایک عورت کا ہونا ضروری ہے۔
انھوں نے مزید معلومات دیتے ہوئے بتایا کہ کمیٹی اراکین کو تیس دن میں فیصلہ دینا ہوتاہے اور جس پر سات دن میں عمل درآمد ضروری ہے۔
کون کون سے ادارے ہراسانی قانون کے نفاذ کے لئے عملی کوششیں کر رہےہیں۔
اسلام آباد جو دارالحکومت ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہاں بہترین تعلیمی ادارے ہیں ان کےبارے میں ایک سوال کے جواب میں ملیحہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں لمز یونیورسٹی میں بہترین ہراسانی کمیٹی موجود ہے جو مکمل تحقیقات کے بعد ایسے مسائل کو حل کرتی ہے۔
ملیحہ اداروں میں سٹیٹ بنک آف پاکستان کو بہترین ادارہ سمجھتی ہیں جہاں نہ صرف اس ادارے میں ہراسانی کمیٹی بہترین طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے بلکے تمام بنکوں میں بھی خاص ہدایات جاری کر کے ایسی کمیٹیاں بنوائی گئی ہیں۔
اس بارے میں مزید جاننے کے لئے پبلک سروے کیا اور والدین اور اساتذہ سے اس موضوع پر بات کی تو معلوم ہوا کہ بحریہ یونورسٹی میں ہراسانی کمیٹی لیگل ڈیپارٹمنٹ کے تحت کام کر رہی ہے۔آئی ایم سی جی اور کام سیٹ کے تعلیمی اداروں میں بھی ہراسانی کمیٹیز موجود ہیں۔ بہت سے والدین ایسے تھےجن کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں معلوم کہ ان کے بچوں کے تعلیمی ادارے میں ایسی کوئی کمیٹی موجود ہے۔
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کا کردار
ایسے معاملات میں آپ کو پولیس کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کیونکہ آپ عدالت میں اپنی درخواست جمع کروا سکتے ہیں۔‘تاہم جھوٹا الزام لگانے کی صورت میں ادارہ الزام لگانے والے کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا ہے۔ ایسے شخص کی سزا کا تعین محتسب کا دائرہ اختیار ہے۔
خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے قوانین
پاکستان میں ایسے قوانین موجود ہیں جو کسی نہ کسی طرح خواتین کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں لیکن اپنی نوعیت میں منفرد ہونے کی وجہ سے خواتین کو ہراساں کئے جانےاور تحفظ کے حوالے سے بہت سی باتیں لوگوں کو معلوم نہیں ہوتیں۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 509 کے مطابق اگر کوئی شخص کسی بھی خاتون کی الفاظ سے، یا اپنے رویئے سے بے توقیری کرتا ہے تو اسے تین سال قید کی سزا، یا جرمانہ، یا پھر دونوں ہو سکتے ہیں۔جبکہ پاکستان کے قانون کی دفعہ 496 سی کے تحت اگر کوئی شحض کسی عورت پر جھوٹا الزام یا تہمت لگاتا ہے تو جرمانہ اور پانج سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ قانون کی دفعہ 354 اے کے تحت اگر کوئی شحض کوئی ایسی حرکت کرتا ہے جو نا مناسب ہو، یا کوئی ایسا گانا گائے جس کے الفاظ نا زیبا ہوں تو اسے تین ماہ تک سزا ہو سکتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ خواتین کو ہی علم نہیں ہوتا کہ اگر ان کے ساتھ ایسا کچھ ہوتا ہے تو انھیں کیا کرنا چاہیے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اب تک ان قوانین سے مکمل طور پر فائدہ نہیں اٹھا یا جا سکا۔
رویوں میں تبدیلی اور ہراسانی کے لفظ کو سمجھنا وقت کی اہم ضرورت
افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ قوانین تو دور کی بات ہراسمنٹ کے لفظ کو ہی نہیں سمجھا گیا۔ ہراسمنٹ صرف جنسی ذیادتی یا جسمانی تشدد نہیں ہے۔ ہراسمنٹ کے معنی متشدّدانہ دباؤ، غیر معمولی طور پر دوسروں کو اپنے سے نیچا دکھانا، متعصبانہ رویّے، غیر مہذب جسمانی حرکات، جنسی دعوت دینے والے پوشیدہ لین دین، زبانی کلامی و جسمانی حرکات سے کسی کی عزت اچھالنا،جنسی طور پر نامناسب تبصرےاورغیر ضروری چھونا ہے اور اگرکوئی آپ کے کپڑوں، رنگ ، شکل و صورت یا کسی بھی حوالے سے جملے کستا ہے تو وہ بھی ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے۔اس طرح کی ہراسانی ہمارے معاشرے میں اتنی عام ہو گئی ہے کہ ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ ایسا تو ہر خاتون کو برداشت کرنا پڑتا ہے یہ کون سا نئی بات ہے اس پر دھیان نہ دو اپنے کام یا پڑھائی پر توجہ دو ، اور ایسے رویوں کی ہی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بیٹوں کی حفاظت ضروری ہوگئی ہے۔
یہاں مجھے ایک لڑکی کی بتائی ہوئی کہانی یاد آئی جو پہلے دن اسلام آباد کی ایک نامی گرامی یونیورسٹی گئی۔یونیورسٹی آفس میں جس شخص نے اس کے کا غذات جمع کئے وہ اس کے واپسی کے راستے سے ہی فون کر کر کے پریشان کرنے لگا اس نے فون سائلنٹ پے لگاکر نظرانداذکیا تاکہ والد صاحب کو پتا نہ چل جائے۔ہمارے ہاں ایسے واقعات اس لیئے بھی جنم لیتے ہیں کیونکہ لڑکیاں اپنے والدین کو نہیں بتا پاتیں ان کو یہی لگتا ہے کہ وہ کس کس کی شکایت کریں یا پھر والدین سے اتنی دوستی نہیں ہوتی۔ ہمیں ہی یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں نہیں جانا تھا وہاں نہیں جانا تھا۔ جس کے ساتھ یہ ہو رہا ہے آپ اس کو ہی الزام دیتے ہیں۔ اس لئےجنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روک تھام کیلئے سب کو والدین سے لیکر اساتذہ، پولیس اور عدلیہ اپنی اپنی ذمہ داری عملی طور پر نبھانا ہونگی تاکہ معاشرے کو اس گھناؤنے ناسور سےپاک کیا جاسکے۔
کامران نے (ٖفرضی نام) روالپنڈی کے ایک گورنمنٹ کالج سے تعلیم حاصل کی ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے سکول میں ایک ایسا استاد تھا جو بہت ہی بہودہ قسم کی گفتگو کرتا تھا۔ایسا شخص جو استاد کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا لیکن لڑکوں سے جان بوجھ کر فحش قسم کی باتیں کرتا تھا۔
گھر سے لے کر آفس تک ،سکول کالج یا بازار میں،زندگی کے ہرہر موڑ پرخواتین کو ہراسانی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ہراسانی ذہنی اذیت ہے،اس لئے اگر دفاتر اور سکول کالج میں انکوئری ارکان ہوں تو کسی کی ہمت نہیں ہوتی. کسی خاتون کو تنگ کرنے اور بروقت اور فعال کردار سے ہراسگی واقعات کا سدباب کیا جاسکتا ہے۔
کیا آپ کے ادارے میں خواتین کے تخفظ کے لئے ایسی کوئی کمیٹی ہے
1.انھوں نے مزید معلومات دیتے ہوئے بتایا کہ تحقیاتی کمیٹی کے ممبران کو دو یا تین دن کی تربیت دی جاتی ہے ۔کمیٹی ممبرز کو 30 دن میں روپورٹ کیس کا فیصلہ کرنا ہو تا ہے، جس پر سات دن کے اندر عمل ہونا ضروری ہوتا ہے. وفاقی محتسب سیکریٹریٹ ایک خودمختار نیم عدالتی قانونی ادارہ ہے جو خواتین کو کام کی جگہ پر ہراسانی سے بچانے کے لئے 2010 میں متعارف کرائے گئے قانون کے تحت قائم کیا گیا تھا، اس ادارے کا بنیادی مقصد افراد کو کام کی جگہ پر ہراسانی سے بچانا ہے۔ اگر کوئی شخص کمیٹی کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہے، شکایت کرنے والا یا جس پر الزام لگایا گیا ہے ان دونوں میں سے کوئی بھی شخص اپنی شکایت لے کر محتسب کے پاس جا سکتا ہے۔ اگر کمیٹی نے ایسا فیصلہ دیا ہے جو آپ کے خیال میں انصاف پر مبنی نہیں ہے تو آپ محتسب کے پاس اپیل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔اگر آپ کو ایسا محسوس ہو کہ محتسب بھی آپ کی شکایت کو سنجیدگی سے نہیں سن رہا تو آپ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔