34 روز سے شہر اقتدار کے اساتذہ ڈی چوک میں بیٹھے ہیں لیکن ان کوئی شنوائی ہی نہیں،یہ اساتذہ کسی دور دراز علاقے سے تعلق نہیں رکھتے یہ سب اساتذہ اسلام آباد میں واقع ماڈل کالجز میں پڑھاتے ہیں.بہت سے اساتذہ پی ایچ ڈی، ایم فل اور ڈبل ماسٹرز ہیں لیکن ملازمت کرتے ہوئے سات آٹھ سال ہونے کے باوجود یہ اب بھی ڈیلی ویجز پر کام کررہے ہیں،دوسرے الفاظ میں کہا جائے یہ بھی دیہاڑی دار مزدور ہیں کام پر آئے تو چار سو روپے یومیہ مل جائیں گے نہیں آئیں گے تو تنخواہ میں پیسے کٹ جائیں گے۔
یہ کہاں کا انصاف ہے ایم فل اور ایم ایس سی اساتذہ کو صرف بارہ تیرہ ہزار ماہانہ تنخواہ پر رکھا جائے اور ملازمت کرتے ہوئے پانچ چھ سال گزارنے کے باوجود نا ہی ان کی تخواہ میں اضافہ کیا گیا اور نا ہی کوئی مراعات ملیں، پھر بھی ڈیلی ویجز پر اساتذہ پوری لگن کے ساتھ بچوں کو پڑھاتے رہے لیکن صبر کا پیمانہ جب لبریز جب مارچ کے بعد ان کو تنخواہ ملنا بند ہوگئ،جب گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے تو اساتذہ مجور ہوکر گھر سے نکلے اور احتجاج کرنے لگے۔
34 روز سے یہ اساتذہ سخت سردی میں احتجاج کررہے ہیں لیکن حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی، احتجاج کرنے والی ٹیچر فاطمہ جنہوں نے مطالعہ پاکستان اور انگریزی ادب میں ماسٹر کر رکھا ہے کہتی ہیں کہ میں پانچ سال سے ملازمت کررہی ہوں لیکن میری تنخواہ کسی ڈرائیور سے بھی کم ہے یہ نا انصافی ہے یا نہیں،ہم ایک ایک کلاس میں چالیس سے پچاس بچوں کو پڑھاتے ہیں لیکن حکومت کو ہمارا احساس ہی نہیں۔
ڈیلی ویجز پر کام کرنے والی اسلامیات کی استاد نازش رحیم کہتی ہیں کہ عدالتی احکامات آنے کے باوجود ہمیں ریگولر نہیں کیا جارہا، ہم بیوروکریسی کے ہاتھوں خوار ہونے کے بعد اب سڑک کر بیٹھ کر اپنے حق کے لئے احتجاج کررہے ہیں،کیڈ کے وزیر طارق فضل چوہدری جب تک وزیر نہیں بنے تھے ہمارے مطالبات سنے آئے لیکن وزیر کا قلمدان ملتے ہی ان کا بھی کچھ نہیں پتہ۔
ثناء ناز ایم ایس سی فزکس ہیں وہ کہتی ہیں کہ میری تنخواہ صرف دس ہزار ہے وہ بھی آٹھ ماہ سے نہیں ملی، بلدیاتی الیکشن میں بھی ہم نے ڈیوٹی دی لیکن ویسے ہمیں اس تعلیمی نظام کا حصہ نہیں سمجھا جاتا اور اب تک ہم مستقل نہیں ہوئے۔
ایم فل انگلش لٹریچر استاد عظمیٰ کہتی ہیں کہ سڑک پر بیٹھنا آسان نہیں لیکن ہم مارچ سے تنخواہوں سے محروم ہیں، معاشی بدحالی ہمیں آج سڑک تک لئے آئی ہم نے ریگولر اساتذہ کے ساتھ مل کر سات آٹھ سال سے بچوں کی تعلیمی ضروریات کا خیال کررہے ہیںلیکن ہماری ضروریات کا کسی کو خیال نہیں، وزیر اعظم اساتذہ کو عزت و تکریم دیں ان کے جائز مطالبات تو مان لیں،اگر اسکول میں اساتذہ ہی ناکافی ہوں تو بچوں کو پڑھائے گا کون ؟
اس وقت وزیر اعظم کی صحت اور تعلیم کی پالیسی آنے کو ہے لیکن کیا اس پالیسی میں اساتذہ کا کوئی حصہ نہیں، اب تو بہت سے اساتذہ کی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحان دینے کی بھی عمر نکل چکی ہے لیکن کیا تجربہ اور قابلیت ان کو ریگولر کرنے کے لئے کافی نہیں ؟ عدالتی حکم آنے کے باوجود ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے اساتذہ کو ریگولر نہیں کیا جارہا کیوں؟ اساتذہ کے بنا ہم اپنے بچوں کو کیسے پڑھا سکتے،اسکول کو نیا رنگ و روغن کرنے سے یا نئی کرسیاں رکھنے سے تعلیمی اصلاحات نہیں ہوسکتیں، اساتذہ کو باعزت تنخواہ ، مستقل نوکری اور نصاب کو جدید سطح پر استوار کرکے ہی ہم تعلیمی انقلاب لاسکتے ہیں، جس ملک میں استاد ہی فاقہ کشی پر مجبور ہو وہ اپنے بچوں کو پڑھا لیں بڑی بات ہوگی۔