مسیحی ہونا کوئی جرم نہیں!

اقلیتی یوتھ کے حقوق اور نوکریوں کیلئے کام کرنے والے 30 سالہ فرزان سلیمان کا تعلق ضلع ملاکنڈ کے گاؤں پیران سے ہے۔ جو پیشے کے لحاظ سے ہائیر سیکنڈری سکول بٹ خیلہ میں بطور کلاس فور ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جاب کوٹہ ہے لیکن نہیں ہے ۔وہ اس بات کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اخباری اشتہار میں کوٹہ ہوتا ہے لیکن اب پتہ نہیں کیوں ہمارے زیادہ تر لڑکے اور لڑکیاں بے روزگار ہیں۔ ضلع ملاکنڈ میں اقلیتی برادری کی تعداد ہزاروں یا لاکھوں میں نہیں ہے کہ ہمیں مسلسل نوکریاں مل رہی ہیں اور پتہ نہیں چل رہا کہ کس کس کو جاب ملی ہے۔

حال ہی میں چار پانچ لڑکوں کو نوکریاں مل گئی ہیں۔ یہ خوشی کی بات ہے لیکن کیا پانچ فیصد کوٹہ واقعی پورا کیا جا رہا ہے؟اس کے لئے انکوائری کمیٹی بننی چاہئے جو یہ واضح کرے کہ کس ڈیپارٹمنٹ میں پانچ فیصد کوٹے پر عمل کیا گیا ہے ۔ اس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

سال 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق ضلع ملاکنڈ میں اقلیتی برادری کی تعداد 471 ہے۔ جس میں عیسائیوں کی تعداد 283، ہندو کمیونٹی کی تعداد 73 جبکہ قادیانیوں اور باقی مذاہب سے تعلق رکھنے والو کی تعداد 115 ہے۔

پادری سمیول گِل جن کا تعلق پشاور سے ہے اور اس وقت ملاکنڈ ڈویژن کے انچارج پریسٹ ہیں۔ ان کے پاس اس وقت چار چرچ (سوات ،باجوڑ،تیمرگرہ اور ملاکنڈ) ہیں۔

پادری سیمول گیل

پادری سیمیول گِل کہتے ہے کہ یہ سچ نہیں ہے کہ ہم یہاں بڑے آرام کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں ہمیں تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں ہمیشہ اس پر کھل کے بات کرتا ہوں کہ بڑی تنگ نظری سے ہماری کمیونٹی کو دیکھا جاتا ہے۔ سکول کے اندر ہمیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نوکریاں نہیں دی جا رہیں۔ ضلع ملاکنڈ میں اقلیتوں کی کافی تعداد ہے۔ لیکن آج بھی نوجوان اسی طرح دربہ در پھر رہے ہیں۔ ہمارے لوگ معاشی طور پر کافی کمزور ہیں۔اگر ایک خاندان میں صرف ایک فرد کو نوکری مل جائے تو وہ پورا خاندان اپنے ساتھ چلا لیتا ہے۔

معلومات تک رسائی ایکٹ 2013 کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کے مطابق اس وقت بٹ خیلہ سیکریٹریٹ میں اسسٹنٹ (سکیل 16) کی تعداد 21 ہے۔ جس میں 16 سیٹیں پروموشن پر جبکہ 5 اِینیشل ہیں۔ لیکن پانچ میں سے اقلیتی برادری کیلئے کوئی سیٹ نہیں ہے۔ جبکہ کوٹے کے حساب سے پانچ فیصد کوٹہ اقلیتی برادری کے لئے ہے۔

ساٹھ سالہ الیاس مسیح کا تعلق بھی ضلع ملاکنڈ سے ہے اور پیشے کے لحاظ سے وہ ریٹائرڈ سکول ٹیچر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ایف اے کرنے کے بعد در در کی ٹھوکریں کھا کر یہ نوکری حاصل کی۔ جگہ جگہ درخواستیں دیں اور افسروں سے خط لا لا کر عملے کو مجبور کیا اور یہ نوکری حاصل کی۔اب تو اس کی نسبت کوٹے پر نوکری ملنا کافی آسان ہے۔

اُنکا مزید کہنا تھا: "آج کل تو پرائیویٹ ٹیسٹنگ ایجنسیوں کے ذریعے نوکریوں کیلئے اخبارات میں اشتہار دیے جاتے ہیں۔ جس میں اقلیتی کوٹہ ہوتا ہے۔اب مجھے نہیں پتہ کے حقیقت کیا ہے۔لیکن موجودہ حکومت اقلیت والوں کیلئے کچھ کرنے کے موڈ میں ہے۔”

ضلع ملاکنڈ پورے خیبر پختونخوا میں واحد ضلع ہے جہاں پولیس کے بجائے لیویز کام کر رہی ہے۔اب ملاکنڈ لیوی میں 100 سے زائد پوسٹوں پر بھرتیاں ہونی ہیں۔ اگر اس میں پانچ فیصد کوٹے پر عمل کیا گیا تو اس میں بھی اقلیتی برادری کی پانچ سے زائد سیٹیں بننتی ہیں جس سے اقلیتی برادری کے کافی لوگوں کو روزگار مل جائے گا۔

پريم ناتھ اس وقت ضلع ملاکنڈ میں موجود واحد مندر(رام مندر) میں پنڈٹ ہیں اور ہندو کمیونٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ضلع ملاکنڈ میں ہندو کمیونٹی کی تعداد 30 تک ہے۔ اور 30 میں سے صرف اُنکا بھائی سرکاری نوکر ہے جو درگئی ہائی اسکول میں کلاس فورمین ہے۔

جاب کوٹے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جاب کوٹہ ہے اور یہ سب کو پتہ ہے لیکن کہا ں ہے؟ کس ڈیپارٹمنٹ میں ہے؟ کس سکیل میں ہے؟ یہ ہمیں آج تک نہیں پتہ۔ مجھے سرکاری نوکری نہیں ملی لیکن اپنے بچوں کی نوکری کیلئےمیں سخت پریشان ہوں۔اب اگر کوئی مذاق میں بھی کہتا ہے کہ فلاں ڈیپارٹمنٹ میں اقلیتوں کے لیے جاب کوٹہ ہے تو میں اسی وقت افسر کے دفتر جاتا ہوں۔

پریم ناتھ کہتے ہے کہ کئی دفعہ ایم پی اے روی کمار ،ایم پی اے وزیر ذادہ سے بھی رابطہ کیا کہ جاب کوٹہ ہے ہی نہیں یا ہمیں دیا نہیں جا رہا۔ وہ لوگ بھی کوشش میں ہیں لیکن بہت سے مسائل بھی ہیں۔اسی لئے وہ اپنی حد سے زیادہ محنت کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ ہمارے اقلیتی ایم پی اے کی کوششیں ضرور کچھ نہ کچھ رنگ لائیں گی۔

یکم دسمبر کو محمکہ ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ملاکنڈ نے اخبار میں اساتذہ بھرتی کیلئے اشتہار دیا ہے۔ جس کے مطابق کل آسامیوں کی تعداد 138 ہے جس میں اقلیتی برادری کیلئے چھ سیٹیں ہیں۔

80سالہ یعقوب غوری جن کا تعلق ضلع ملاکنڈ سے ہے اور پرائیوٹ ٹائیلٹس کے مالک ہیں۔ یعقوب کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے اور سال 2014 سے 2019 تک بلدیاتی انتخابات میں اقلیتی سیٹ پر تحصیل ممبر تھے۔ یعقوب کہتے ہیں کہ انھوں نے مقامی ایم پی اے شکیل کے ساتھ اقلیتی سیٹوں پر بہت لڑائیاں کیں۔ بار بار ناراض ہوئے لیکن اقلیتی کوٹے پر عمل درآمد ممکن نہ ہو سکا۔

یعقوب غوری کہتے ہے کہ وہ مایوس نہیں ہیں۔ قانون کے مطابق اقلیتوں کا موجودہ سرکاری نوکریوں پر ملازمتوں میں کوٹا پانچ فیصد ہے۔ لیکن بمشکل صرف ایک یہ دو فیصد پرہی عمل درآمد کیا جاتا ہے اور وہ بھی صرف لوئر گریڈ ملازمتوں پر یعنی خاکروب یا سینیٹری ورکرز۔

یعقوب غوری کے مطابق عیسائی اور ہندو کمیونٹی والے سینیٹری ورکرز اور دیگر چھوٹی ملازمتیں کرتے ہیں۔ جسے مسلمان کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن اب ان پوسٹوں پر سیاسی لوگوں نے مسلمانوں کو بھرتی کرنا شروع کر دیا ہے۔اور مسلمان لوگ وہ کام نہیں کرتے بلکہ کام ہم لوگوں نے کرنا ہوتا ہے۔

ضلع ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے صحافی نوید کہتے ہیں کہ جہاں تک اقلیتی برادری کی حقوق کا تعلق ہے تو پاکستان میں بالعموم اور مالاکنڈ میں بالخصوص یہ حقوق صرف پامال ہی ہوتے ہیں۔ جسکی وجہ اگر ایک طرف اقلیتی برادری کے لوگوں کی اپنے حقوق سے لاعلمی اور تعلیم سے دوری ہے تو دوسری طرف سیاسی حلقے اقلیتی برادری کے لیے مختص کردہ جاب کوٹہ پر مسلمانوں کی بھرتیوں سے اپنی سیاست چمکاتےہیں اور احسان جتاتے ہیں۔

صحافی نوید کہتے ہیں کہ اُن کے کرسچن دوست ولسن کہتے تھے کہ ایک طرف اگر حکومتی سطح پر حق تلفی ہوتی ہے تو دوسری طرف معاشرتی سطح پر۔اس لئے اقلیتی برادری ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہے۔

صحافی نوید یہ بھی کہتے ہیں کہ اقلیتی برادری کے مسائل کو اُجاگر کرنے کے لیۓ صحافی برادری بھی وہ کردار ادا نہیں کر رہی جو کرنا چاہئے تھا۔اس کی بھی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک، صحافیوں کی ٹرینگ یا اس ایشو کے بارے میں کم علمی ہو سکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ صحافیوں کی دلچسپی نہیں ہوتی اس لئے اقلیتی برادری کے محرومیوں پر کام نہیں کرتے۔

اب وقت کا تقاضا ہے کہ اقلیتی برادری کے نمائندگان،حکومتی عہدیداران اور میڈیا نمائندگان مل کر اقلیتی برادری کے مسائل کو وقتاً فوقتاً اٹھائیں تاکہ جلد از جلد ان کے مسائل حل ہوں اور اقلیتی برادری کبھی خود کو کمزور نہ سمجھے۔

32سالہ گرجندر جو اقلیتی سیٹ پر تحصیل ممبر رہے چکے ہیں وہ آج کل ڈسٹرکٹ ایڈوائزری کمیٹی کے ممبر بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے کی نسبت آج کل اقلیتی کوٹے پر سنجیدگی سے عمل کیا جا رہا۔ حالانکہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد اخباری اشتہارات میں کافی جگہوں پر جاب کوٹے میں سیٹیں ہوتی ہیں۔

گرجندر کہتے ہے کہ ضلع ملاکنڈ میں اقلیتی برادری تعلیمی حوالے سے کافی کمزور ہے۔ جس نے تھوڑی سی بھی تعلیم حاصل کی ہے ان کو نوکریاں ملی ہیں۔ حال ہی میں اُن کے بھائی اقلیتی کوٹے پر ویلج کونسل سیکرٹیری سلیکٹ ہوئے۔اب اسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ کے دفتر کا عملہ انکا بہت خیال رکھتا ہے۔

اقلیتی کوٹے پر عمل درآمد کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ اب محمکہ ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ملاکنڈ میں کچھ نوکریاں آئی ہیں۔ جس میں اقلیتی برادری کیلئے چھ سیٹیں ہیں۔ جس کے بعد ہوگا یہ کہ بہت لوگ، تقریبا سارے تعلیم یافتہ لوگ بھرتی ہو جائینگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے