امن لشکر، روز اوّل سے نشانے پر

خیبرپختونخوامیں امن وامان کے قیام ، مسلح افرادکےخلاف علاقے کے تحفظ کویقینی بنانے اور اپنے علاقوں میں قانون نافذ کرنےوالے اداروں کا ساتھ دینے والوں کےلئے جن امن لشکروں کو قائم کیاگیاتھا ، ان میں سے70سے زائد امن لشکروں کو خودکش حملوں ،بارودی سرنگوں ،آئی ای ڈیزاورٹارگٹ کلنگ کے ذریعے نشانہ بنایاجاچکاہے اور اب تک ان لشکروں کے دو ہزارسے زائد افراد کالعدم تنظیموں کی جانب سے حملوں میں لقمہ اجل بن چکے ہیں اور اس وقت بھی مسلح افراد ان لشکروں کے ممبرزاور قائدین کو چن چن کرنشانہ بنارہے ہیں ،سوات کے علاقہ کبل میں امن لشکرکے سربراہ محمدادریس کے بعد چارباغ میں بھی امن لشکرکے رکن کو نشانہ بناکر ذمہ داری قبول کی گئی ہے ۔

[pullquote]خیبرپختونخوامیں امن لشکروں کی تاریخ کیاہے۔۔؟[/pullquote]

2006ءمیں وفاقی وصوبائی حکومت نے قانون نافذکرنےوالے اداروں کے ساتھ مل کر فیصلہ کیاکہ امن وامان کے قیام اور مسلح دھڑوں کے خلاف جدوجہد کرنے کےلئے انہیں مقامی افرادی قوت کی اشدضرورت ہے، جس کےلئے لشکروں کاقیام عمل میں لایاگیاابتدائی طور پر اورکزئی ،مہمنداورباجوڑمیں امن لشکر قائم کئے گئے، جس کے بعد اس کا دائرہ کار پشاور ،سوات ،صوابی ،بنوں ،لکی مروت،کوہاٹ اور ڈی آئی خان تک پھیلایاگیا پولیس کے اہم ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق 2008 تک صوبے کے بیشترعلاقوں میں امن لشکر قائم کئے گئے تھے ،جس میں سیاسی وسماجی رہنماﺅ ںکو شامل کیاگیاتھا، پولیس ریکارڈ کے مطابق امن لشکروں کے افرادی قوت کوبڑھانے کےلئے انہیں کمیونٹی پولیس کی شکل میں اہلکاربھی دئیے گئے، جس کے تحت مقامی لشکر اپنے ورکرز کو کمیونٹی پولیس کہہ کر سرکارسے تنخواہ وصول کرتے تھے، حکومت نے اس وقت انہیں اسلحہ بھی فراہم کیاتھا۔

پشاورمیں بازیدخیل کے علاقے میں فہیم الدین ، متنی دلاوراورعبدالمالک،بڈھ بیرمیں خوشدل خان اوردیگرسیاسی جماعتوں کے رہنماان لشکروں کاحصہ بن گئے، ان لشکروں نے اپنے علاقے کے تحفظ کےلئے اس وقت کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف بھرپورمزاحمت کی ۔محکمہ داخلہ کے ایک ریٹائرڈافیسرکے مطابق2007میں قائم لشکروں میں اے این پی کے مقامی رہنماﺅں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، کالعدم ٹی ٹی پی اور مسلح تنظیمیں یہ سمجھتی تھیں کہ امن کے نام پر قائم مختلف علاقوں کے امن لشکر سکیورٹی فورسزکے مقابلے میں ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں2007میں اورکزئی میں امن لشکر کے ایک اجلاس کو دوخودکش حملہ آوروں کے ذریعے نشانہ بنایاگیا،جس کے نتیجے میں دوسوکے قریب افرادجاں بحق ہوئے تھے ، بعدازاں درہ آدم خیل،مہمند،پشاور،باجوڑ،شمالی وجنوبی وزیرستان کے علاوہ سوات میں بھی امن لشکروں کے سربراہوں کونشانہ بنایاگیا ، بیشترسیاسی جماعتوں نے اس وقت امن لشکروں کی حمایت کی تھی تاہم جماعت اسلامی نے کھل کر ان لشکروں کی مخالفت کی تھی، اس وقت میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے جماعت اسلامی کے اس وقت کے صوبائی امیرسراج الحق نے کہاتھا کہ ریاست کے تحفظ کی بنیادی ذمہ داری قانون نافذ کرنےوالے اداروں،پولیس اور فوج کی ہے، عوام کو کسی بھی طرح مسلح نہ کیاجائے کیونکہ عوام کو مسلح کرنے سے مسائل کم ہونے کی بجائے مزید بڑھیں گے، سوات میں امن لشکر کو ویلیج ڈیفنس کونسل کانام دیاگیا اورلوگ عمومی طو رپر اسے وی ڈی سی کہتے تھے.

[pullquote]امن لشکروں کاانجام کیاہوا۔۔۔؟[/pullquote]

2015ءمیں وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ قبائلی علاقوں میں تمام امن لشکروں کو ختم کیاجارہاہے، جس کے بعد شمالی وجنوبی وزیرستان سمیت باجوڑ اور مہمند میں امن لشکروں کے رہنماﺅں نے شدید مخالفت کی انکاموقف تھا کہ حکومت نے قانون نافذ کرنےوالے اداروں کے تعاون سے انہیں کالعدم ٹی ٹی پی کے مقابلے میں کھڑا کیا اور اب انہیں تنہاچھوڑرہی ہے، پولیس ریکارڈ کے مطابق قبائلی علاقوں کے علاوہ خیبرپختونخواکے بندوبستی اضلاع میں بھی امن لشکروں کے قائدین کو چن چن کرماراگیا، اگرچہ بعدمیں صوبائی حکومت نے بھی غیرمحسوس اندازمیں امن لشکروں کے مالی معاونت ختم کردی لیکن اب تک امن لشکر کے رہنماﺅں کو ماراجارہاہے، محکمہ داخلہ کے ریکارڈ کے مطابق صرف مہمند میں امن لشکروں کے 223افراد کو ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں میں ماراگیاہے ، باجوڑ میں 197فرادمارے جاچکے ہیں اسی طرح سوات میں اب تک134امن لشکر کے افراد دہشتگردی کی نظر ہوچکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے