ڈار کی ناکامی کے بعد وہی ہو گا جو منظور عمران ہو گا

عدالتوں کے عمومی رویے کو ذہن میں رکھوں تو فوری خیال یہ آتا ہے کہ مسلم لیگ (نون) کو اس گماں میں مبتلا ہونے سے احتیاط برتنی چاہیے کہ اسحاق ڈار طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹیں گے تو برق رفتار انداز میں مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے وزرت خزانہ کی چابیاں سنبھال لیں گے۔یہ سوچتے ہوئے اگرچہ یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کرپارہا ہوں کہ لاہور کے معروف صنعتی گھرانے سے ابھرے شریف برادران 1980ءکی دہائی کا آغاز ہوتے ہی سیاست میں درآئے تھے۔غالباََ کچھ دیکھ کر ہی ایک محاورے کے مطابق ”….گرے“ ہوں گے۔

شہباز شریف اور ان کے بڑے بھائی کی اقتدار کے سفاک کھیل کے حوالے سے ”سینئر اور کائیاں“ ہونے کی شہرت بھی لیکن گزشتہ ایک دہائی سے ان کے کام نہیں آرہی۔ نواز شریف کئی برس کی تنہائی اور جلاوطنی کے بعد بالآخر 2013ءمیں پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تو چند ہی ماہ بعد عمران خان صاحب کے اسلام آباد میں دئے دھرنے کی زد میں آگئے۔ بہت مشکلوں کے بعد اس سے جان چھڑائی تو ”پانامہ“ ہوگیا۔اس کے انجام پر نواز شریف صاحب پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے ہاتھوں عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل ہوگئے۔ بعدازاں انہیں اپنی دختر سمیت احتساب عدالت کی سنائی سزا کی وجہ سے جیل کی ذلت بھی برداشت کرنا پڑی۔ مریم نواز صاحبہ تو ضمانت پر رہا ہوگئیں۔ نواز شریف کو مگر علاج کی خاطر جیل سے نکال کر پہلے ہسپتال اور بالآخر لندن بھیجنا پڑا۔سابق وزیر اعظم سمیت ہماری ریاست کے کلیدی ادارے انہیں بیرون ملک بھیجنے کے معاملے میں برابر کے ذمہ دار تھے۔ نواز شریف البتہ اس کی وجہ سے اپنے سیاسی مخالفین سے ”بھگوڑا“ ہونے کا طعنہ سنتے ہیں۔

شریف برادران او ران کے کئی قدآور حامی بھی عمران حکومت کے دوران کرپشن کے بدترین الزامات کے تحت نیب کی جیلوں اور عدالتی پیشیوں کی ذلت واذیت کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ بالآخر عدالتوں ہی کے ہاتھوں انہیں کچھ راحت نصیب ہوئی۔ بہتر تو یہی تھا کہ جو ”مہلت“ نصیب ہوئی تھی اسے اجتماعی طورپر وہ یہ دریافت کرنے میں صرف کرتے کہ ان پر نازل ہوئی آفتوں کے اصل اسباب کیا ہیں۔خودتنقیدی کا سنجیدہ عمل غالباََ انہیں آئندہ نسل کے سیاستدانوں کے لئے بھی کوئی بہتر لائحہ عمل تیار کرنے کو اُکساتا۔ ذرا سانس ملتے ہی لیکن وہ عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کرنے کھیل میں مصروف ہوگئے۔ملکی سیاست کا محض دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں بارہا اس کالم میں متنبہ کرتا رہا کہ روس کے یوکرین پر حملہ آو رہوجانے کے بعد عالمی سطح پر جو بحران نمودار ہونے کی تیاری کررہے ہیں پاکستان جیسے ممالک ان سے نبردآزما ہونے کی سکت سے قطعاََ محروم ہیں۔بہتر یہی ہوگا کہ عمران خان صاحب کوآئینی مدت مکمل کرنے دی جائے۔اقتدار کے کائیاں تصور ہوتے ہوئے کھلاڑیوں نے مگر دوٹکے کے رپورٹر کی فریاد کو رعونت سے نظرانداز کردیا۔

اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد عمران خان صاحب اپنے وعدے کے مطابق ”مزید خطرے ناک“ بن گئے۔ روایتی اور سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال سے تحریک انصاف کے دیرینہ حامیوں کو سابق وزیر اعظم نے پرجوش انداز میں متحرک بنادیا۔ شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہوئی مخلوط حکومت کا ”چھابہ“ان کے برعکس اپنے حامیوں کو بھی مطمئن رکھنے والے ”سودے“ سے خالی ہوگیا۔ 1985ءسے شریف برادران اور ان کے ساتھیوں کی یہ شہرت پھیلتی رہی تھی کہ وہ اقتدار میں ہوں تو اقتصادی میدان میں ”رونق“ لگائے رکھتے ہیں۔صنعت کار،تاجر اور دوکان دار ان سے خوش رہتے ہیں۔عوام بھی موٹروے جیسے منصوبوں کو دیکھتے ہوئے واہ واہ پکارنا شروع ہوجاتے ہیں۔

اپریل 2022ءمیں لیکن شہباز شریف کی قیادت میں جو حکومت وجود میں آئی اس نے محض چند مہینوں ہی میں برسوں کی محنت سے بنائی یہ ساکھ تباہ وبرباد کردی۔ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے نام پر آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لئے جو اقدامات لئے گئے وہ مہنگائی کے ناقابل برداشت طوفان کا باعث ہوئے۔بجلی ،پیٹرول اور گیس کی قیمتیں ادا کرنا محدود آمدنی والوں کے لئے تقریباََ ناممکن ہوگیا ہے۔عمومی طورپر تقریباََ 50ایسی اشیائے صرف ہیں جو غریب ترین کنبے کی روزمرہّ زندگی کے لئے بھی لازمی تصور ہوتی ہیں۔ان اشیاءکی قیمتوں میں حالیہ مہینوں کے درمیان 45فی صد اضافہ ہوا ہے۔سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ رواں برس کے مارچ میں سوروپے روزانہ کمانے والے کی آمدنی اب 55روپے کے برابر ہوچکی ہے۔

دیگر وجوہات کے علاوہ پاکستانی روپے کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گرتی قدر کو بھی عوامی مشکلات کا کلیدی ذمہ دار تصور کیا جارہا ہے۔اسحاق ڈار صاحب کی بطور وزیر خزانہ ”جلوہ“ دکھائے رکھنے والی شہرت کا حقیقی سبب ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ انہیں امریکی ڈالر کی قیمت کو قابو میںرکھنے کی سوترکیبیں آتی ہیں۔ جناتی انگریزی زبان میں ہم جاہلوں کو معیشت سنبھالنے والے ”ماہرین“ اگرچہ ڈار صاحب کی لگائی ”جگاڑ“ کو یونیورسٹیوں میں پڑھائے ’علم معاشیات“ کے پیمانوں سے جانچتے ہوئے ناقابل معافی ”بدعت“ قرار دیتے ہیں۔

ذاتی طورپر میں اقتصادیات کی ”الف-بے“ سے بھی قطعاََنابلد ہوں۔ عملی سیاست کا شاہد ہوتے ہوئے مگر اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ عوام کے ووٹوں کے محتاج سیاستدان اگر اقتدار میں ہوںتو انہیں اقتصادی محاذ پر ہر صورت ماحول بنائے رکھنا ہوتا ہے جسے انگریزی میں Feel Good Moodکہتے ہیں۔ میں اسے ”رونق“ لکھتے ہوئے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔شہباز شریف کے لگائے مفتاح اسماعیل جنہوں نے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی ایک امریکی یونیورسٹی سے حاصل کررکھی ہے ذاتی طورپر ایک بھلے آدم ہیں۔”آف دی ریکارڈ“ ملاقاتوں میں بھی انہیں میں نے ہمیشہ روایتی سیاستدانوں کے برعکس تلخ ترین حقائق کو بھی خوش دلانہ بہادری سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ ”ریاست“ کو اپنی فطری ذہانت سے انہوں نے دیوالیہ ہونے سے یقینابچالیا ہوگا۔ ”دیوالیہ“ سے بچت نے مگر ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت کا کچومرنکال دیا ہے۔

روزمرہّ زندگی کے عذاب سہتا عام آدمی معیشت کو Global Perspectiveیا عالمی تناظر میں دیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔اسے اس حقیقت کی بھی خبر نہیں کہ امریکہ ان دنوں اپنی تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا کررہا ہے۔یورپ کے جرمنی،اٹلی اور سپین جیسے خوشحال تصور ہوتے ممالک کے شہریوں کی اکثریت بھی یہ سوچتے ہوئے بلبلا رہی ہے کہ آنے والے موسم سرما میں اسے Heating or Eating”یعنی ”کھائیں یا گھروں کو گرم رکھیں“ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ پاکستان کا عام آدمی اس حقیقت سے بھی بے خبر ہے کہ پاکستانی روپیہ ہی وہ واحد کرنسی نہیں جس کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں زمین بوس ہورہی ہے۔تفصیلات میں جائے بغیر محض یاددلانا کافی ہوگا کہ برطانیہ کا پاﺅنڈ اور یورپی یونین کا ”یورو“ بھی امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر تیزی سے کھورہا ہے۔

اس تناظر میں سوچتے ہوئے مجھے ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ اسحاق ڈار صاحب اگر اگلے ہفتے کا آغاز ہوتے ہی سرعت رفتاری سے وزارت خزانہ کی گدی پر بیٹھ گئے تو کونسی ”جگاڑ“ لگائیں گے جو ڈالر کو لگام ڈال کر سست قدمی کو مجبور بنادے۔ ایسی کوئی ”جگاڑ“ اگر واقعتا موجود ہے تو علم معاشیات کے پی ایچ ڈی مفتاح اسماعیل اسے کیوں استعمال نہیں کر پائے۔ مسلم لیگ (نون) کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ وزارت خزانہ کے حتمی فیصلہ ساز بن جانے کے بعد اسحاق ڈار صاحب بھی خود سے مختص کوئی’ ’جلوہ“ نہ دکھاپائے تو سیاسی اعتبار سے اس کے پاس عوام کو معقول سنائی دینے والا مزید کوئی جواز بھی باقی نہیں رہے گا۔ ڈار صاحب کی ناکامی کی صورت پھر وہی ہوگا جو ”منظورِ عمران خان“ ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے