قحط سالی، عالمی جنگ اور عمران کی گرفتاری کے خدشات

میری فریاد کوئی سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں ہوگا۔ نہایت دیانت داری سے مگر یہ تجویز پیش کرنے کو مجبورمحسوس کررہا ہوں کہ وزیر اعظم ہنگامی بنیادوں پر وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کریں۔ اس کایک نکاتی ایجنڈہ قوم سے یہ وعدہ ریکارڈ پر لانا ہوکہ سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے قائد جناب عمران خان صاحب کو موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے کبھی گرفتار نہیں کیا جائے گا۔

جو تجویز بہت غور کے بعد میرے ذہن میں آئی ہے قارئین کی اکثریت کو یقینا مضحکہ خیز محسوس ہوگی۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد اور میڈیا کا سنجیدہ طالب علم ہوتے ہوئے تاہم مصر رہوں گا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے تحریری صورت میں اگر ایسا وعدہ منظر عام پر نہ آیا تو ہر دوسرے روز ٹی وی سکرینوں پر محض ایک ٹکر چلے گا جو ”خبر“ دے گا کہ تعزیرات پاکستان کی فلاں فلاں دفعات کے تحت عمران خان صاحب کے خلاف ”ایک اور مقدمہ درج کرلیا گیا ہے“۔یہ ”خبر“ دیتے ہوئے صحافی یہ زحمت اٹھانا ہی گوارہ نہیں کریں گے جن دفعات کا ذکر ہورہا ہے وہ فی الفور گرفتاری کی متقاضی ہیں بھی یا نہیں۔ان کے اطلاق کے باوجود عمران خان صاحب ضمانت کی بدولت گرفتاری کوفی الوقت ٹال بھی سکتے ہیں یا نہیں۔

”خبر“ کے بنیادی قواعد پانچ اصولوں پر مبنی ہیں۔ان اصولوں کا ہر لفظ انگریزی کے حرف "W”سے شروع ہوتا ہے۔سادہ اردو میں اس کالم کے تناظر میں انہیں کس کے خلاف کیوں اور کونسی دفعات وغیرہ کہا جاسکتا ہے۔مذکورہ اصولوں کا اطلاق مگر عرصہ ہوا ہم صحافی بھول چکے ہیں۔ہمیں کسی نہ کسی صورت چسکایا سنسنی خیزی کی دکان چمکانا ہوتی ہے۔”عمران خان کے خلاف ایک اور مقدمہ‘ ‘والی سرخی ان کے جذباتی حامیوں کو اشتعال دلادیتی ہے۔وہ مختلف ٹکڑیوں کی صورت ہمارے اہم شہروں کے چند اہم مقامات پر جمع ہوکر حکومت کو ”کوشش بھی نہ کرنا“والی دھمکی دینا شروع ہوجاتے ہیں۔

عاشقان عمران خان صاحب کے غضب سے گھبرا کر رانا ثناءاللہ جیسے ”ڈنڈا بردار حکیم“تصور ہوتے وفاقی وزیر داخلہ بالآخر ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوکر وضاحتیں دینے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔یوں حکومت کے ”بکری“ ہونے کا تصور مزید گہرا ہوجاتا ہے۔عمران خان صاحب دریں اثنا روایتی اور سوشل میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ ان کی ذات پر مرکوز توجہ ہمیں اس حقیقت سے قطعاََ غافل رکھتی ہے کہ چار کروڑ سیلاب زدگان جو اسی ملک کے شہری ہیں ابھی تک بھوک اور بیماریوں سے تحفظ کو یقینی بنانے والے انتظامات کے بغیر پریشانیوں کے گرداب میں گھرے ہوئے ہیں۔لاکھوں ایکڑتک پھیلے رقبے ابھی تک اس قابل نظر نہیں آرہے کہ رواں مہینے کے اختتام پر ان میں گندم بونے کے عمل کا آغاز ہوسکے۔وہ نئی فصل اگانے کے قابل نہ ہوئے تو ہمارے ہاں گندم کا بحران اب کی بار ناقابل برداشت حد تک گھمبیر ہوسکتا ہے۔قحط سالی کا وہ عالم جو کئی شاندار سلطنتوں کے زوال کاباعث ہوا تھا۔

عالمی حالات معمول کے مطابق ہوتے تو روس اور یوکرین سے گندم خرید کر ہم ممکنہ قحط سالی کو بآسانی ٹال سکتے تھے۔روس مگر گزشتہ آٹھ مہینوں سے یوکرین کو فیصلہ کن جنگ کا ہر ممکن ہتھکنڈہ استعمال کرتے ہوئے ”عظیم تر روس“ میں واپس لانے کے جنون میں مبتلا ہے۔ یوکرین کے جن حصوں پر وہ اب تک قبضہ جمانے میں کامیاب رہا وہاں ”ریفرنڈم“ کا انعقاد بھی ہوچکا ہے۔یوکرین گزشتہ ہفتے ہوئے مذکورہ ریفرنڈم کے نتائج تسلیم کرنے کو ہرگز آمادہ نہیں۔اپنی آزادی اور بقا برقرار رکھنے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کو بضد ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادی جدید ترین ہتھیاروں اور بھاری بھر کم مالی امداد کے ذریعے اس کا حوصلہ بڑھائے چلے جارہے ہیں۔

یوکرین اور اس کے سرپرستوں کی ضد سے اکتا کر روسی صدر پوٹن نے محض دو دن قبل ہی ٹی وی پر ایک طویل خطاب کیا۔ہمارے میڈیا میں اس خطاب کا سرسری ذکر بھی نہیں ہوا۔اس کے مضمرات پر سنجیدہ غور تو بہت دور کی بات ہے۔آپ تک اگر یہ ”خبر“ اب تک پہنچ نہیں پائی تو یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ لگی لپٹی رکھے بغیر روسی صدر نے یوکرین اور اس کے سرپرستوں کو واضح انداز میں متنبہ کردیا ہے کہ اگر یوکرین پر اس کی قبضہ گیری کی مہم میں مزید رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو وہ اپنے پاس موجود”سمارٹ“ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔

مختصراََ یوں کہہ لیں کہ دُنیا اس وقت بہت سرعت سے ایسے ہی حالات کی جانب بڑھ رہی ہے جوپہلی جنگ عظیم کے باقاعدہ آغاز سے قبل رونما ہوئے تھے۔موجودہ پاکستان ان دنوں برطانیہ کا غلام تھا۔ یورپ میں چھڑی جنگ سے مگر ہمارا خطہ بھی محفوظ نہیں رہ پایا تھا۔ برطانیہ کو اپنے دفاع کے لئے فوجیوں کی ضرورت تھی۔اس نے ہمارے ہاں کی ”مارشل ریس “ سے بھرتی شروع کردی۔اس بھرتی کے خلاف ہمارے علماءنے شدید مزاحمت برپا کی جسے ناکام بنانے کے لئے برطانوی سامراج کو سوجتن کرنا پڑے تھے۔

ربّ کا صدشکر کہ ان دنوں ہم ایک آزاد ملک ہیں۔ملک ”آزاد“ ہونے کے باوجود مگر اب ”وسیع تر عالمی گاﺅں“ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔روس اور یوکرین کے مابین جنگ کی بدولت ہی ہمارے لئے بجلی ،پیٹرول اور گیس کی قیمتیں ناقابل برداشت حد تک بڑھانا پڑیں۔ عالمی منڈی میں پھیلتی کساد بازاری ہماری برآمدات کی طلب میں بھی خوفناک کمی لارہی ہے۔ہماری صنعت اور روزمرہّ زندگی پر روس اور یوکرین کے مابین چھڑی جنگ کی وجہ سے لگے دھچکے شاید ہم کسی نہ کسی صورت برداشت کرہی لیتے۔موسم بھی مگر نامہربان ہوگیا۔ہمارے ہاں نئے ریکارڈ بناتی غیر معمولی موسلادھار بارشیں ہوئیں اور چار کروڑ پاکستانی ان کی وجہ سے کھلے آسمان تلے بے بس ولاچار ہوئے بیٹھے ہیں۔وقت کا منطقی تقاضہ تو یہ تھا کہ ہم پہلی جنگ عظیم کی بدولت رونما ہونے والی کساد بازاری اور سیلاب زدگان کی بحالی پر اپنی توجہ مبذول کئے ہوتے۔ ہر روز مگر ”خبر“ یہ آتی ہے کہ عمران خان صاحب کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ اس کے بعد ”کوشش نہ کرنا“ اور حکومت کے بکری ہوجانے والا تماشہ شروع ہوجاتا ہے جس میں کچھ بھی”نیا“ نہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے