1966 میں جب میں نے صحافت کے خارزار میں قدم رکھا تومعاشرہ اور شہر کی فضا موجودہ دور سے بالکل مختلف تھی.
مخلوط اداروں میں لڑکیوں کا ملازمت کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا.
صرف تعلیم اور میڈیکل کے شعبے لڑکیاں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دیکھا سکتی تھیں اور ان میں بھی یہ شرط تھی کہ کالج یا اسکول ایسا ہو جو صرف لڑکیوں کے لیے مخصوص ہو.
ڈاکٹر ہو تو صرف خواتین کو دیکھے اور ان کا ہی علاج کرے، نرسنگ کے شعبے میں صرف کرسچن لڑکیاں ہی آتی تھیں کیونکہ مسلمان بچیوں کے لیے یہ شعبہ شجر ممنوعہ تھا.
چند سر پھری لڑکیوں نے معاشرے سے بغاوت کر کے نرسنگ اسکولوں میں داخلے لیے اور پھر ملازمت کی تو ساری زندگی منفی طعنوں کی زد میں رہیں انکے گھر والوں کو بھی یہ سننا پڑتا تھا کہ ان کی بیٹی تو ساری ساری رات مردوں کے وارڈ میں رہتی ہے اور ان کی دیکھ بھال کرتی ہے توبہ توبہ توبہ پتا نہیں کیا گل کھلاتی ہو گی؟
ان دنوں صحافت کامیدان بھی خواتین سے خالی تھا وہ پرنٹ میڈیا کا دور تھا راولپنڈی میں پہلے جنگ اخبار کا اجرا ہوا پھر نوائے وقت نے اپنے پر پھیلائے، ان سے پہلے کوھستان اور تعمیر شہر کے مقبول اخبار تھے اور خوب بکتے تھے.
اسلام آباد تو اسوقت اپنی تعمیر کی بنیادیں مضبوط کر رہا تھا ان اخبارات میں جب لڑکیوں کو شامل کرنے کا رجحان پیدا ہوا تو ان کے بارے میں فیصلہ کیا گیا کہ وہ خواتین کی تقریبات کی کوریج کریں گی معروف خواتین کے انٹر ویوز کریں گی اور عورتوں کا صفحہ ترتیب دیں گی گویا انھیں صرف معاشرے کی خواتین تک محدود کر دیا گیا اور پھر اس کام کے لیے صرف ایک صحافی خاتون ہی کافی سمجھی گئی.
8 ستمبر 19 66 کو جب میں نے جنگ اخبار میں ملازمت شروع کی اسوقت کوہستان میں نجمہ حمید کام کر رہی تھی جو میرے ہی کالج سے پڑھ کر نکلی تھی اور مجھ سے ایک سال سینئر تھیں۔
اس فیلڈ میں ایک اور خاتون انیس مرزا تھیں جو راولپنڈی میں ڈان اخبار کی نمائندہ تھیں صرف وہ ایسی تھیں جو سیاسی نوعیت کی خبریں فراہم کرتی تھیں اور مختلف پریس کانفرنسوں میں ڈٹ کر چبھتے ہوئے سوالات کیا کرتی تھیں وہ مجھ سے بھی پہلے سے کام کر رہی تھیں اور میں انھیں بہت پسند کرتی تھی ان کی جرات اور سے بہت متاثر تھی اس لیے میں دو دفعہ ان کے گھر جا کر ان سے ملی.
انیس مرزا نے ہی سب سے پہلے مجھے بتایا تھا کہ صحافی کو حق بات کہنے کے لیے کسی سے ڈرنا نہیں چاہیے تمہاری راہ میں بےشمار رکاوٹیں آئیں گیا کوئی تمہارے اپنے ساتھی تمہیں ناکام کرنے کے لیے کوششیں کریں گے لیکن تم ڈٹی رہنا اور اپنے کام سے کام رکھنا انیس مرزا کے شوہر برما شیل میں اعلی عہده پر فائز تھے وہ اس بات سے بھی خوفزدہ نہیں ہوتی تھیں کہ ان کی کسی خبر کی وجہ سے حکومتی اہلکار ناراض ہو کرمدد شوہر کی ملازمت ہی ختم نہ کروا دیں.
آج جب 56 سال بعد میں ماضی میں جھانکنے بیٹھی ہوں تو مجھے انیس مرزا کا وہ سجا سجایا ڈرائنگ روم نظر آرہا ہے جیسا اس زمانے میں بہت کم گھروں میں ہوتا تھا انیس مرزا کو زندگی کی تمام آسائشیں حاصل تھیں لیکن وہ صرف اس لیے صحافت کے میدان کی شہ سوار تھیں کہ ان کا کہنا تھا جب میں نے اعلی تعلیم حاصل کی ہے بین الاقوامی سیاست پر میرا مطالعہ وسیع ہے اور میں لکھنے کی صلاحيت لے کر پیدا ہوئی ہوں تو کیوں نا اپنی صلاحيت کے جوہر دیکھاؤں 44 سال صحافت کی کھٹن راہوں میں بھاگتے ہوئے کیا کیا مشکلات پیش آئیں یہ ایک طویل داستان ہے لیکن وہ مشترکہ رکاوٹیں اور مشکلات جن کاسامنا ہر خاتون صحافی کو کرنا پڑتا ہے ان کا ذکر ضروری ہے۔
سب سے پہلے تو اب بھی بہت سے ایسے گھرانے ہیں جہاں لڑکیوں کو بہت مشکل سے ملازمت کی اجازت ملتی ہے اس دور میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے لاتعداد ادارے ہیں، متعدد چینل اپنی نشریات پیش کر رہے ہیں مگر کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ خواتین کارکنوں کی ضروریات کیا ہوتی ہیں اور انھیں کیا سہولیات دی جائیں کہ وہ طمانيت قلب کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے سکیں؟
کام کے اعتبار سے میں بھی مرد اور عورت کی مساوات کی قائل ہوں جتنی ڈیوٹی مرد دیتا ہے عورت کو بھی اتنی ہی دینا چاہیے لیکن عورت کی کچھ ایسی مخصوص ضروریات ہوتی ہیں جو دفاتر میں پوری ہونا چاہیں۔ جیسے کہ بیشتر اداروں میں لڑکیوں کے لیے علحيده واش رومز کا تصور ہی نہیں ہوتا۔
جب میں نوائے وقت میں کام کر رہی تھی تو وہاں بھی یہ حال تھا اسوقت ہم وہاں تین خواتین تھیں ہم اپنی ڈیمانڈ درخواست کی شکل میں انتظاميہ کو دیتے رہتے تھے میری اور صائمہ کی انتہائی کوشش کے بعد اتنا ہوا تھا کہ ایک واش روم خواتین کے لیے مخصوص کر دیا گیا تھا اور اس کی چابی ہمیں دے دی گئی تھی۔
مختلف اداروں میں عورتوں کی صلاحیتوں کے بارے میں متعصبانہ رویہ ہوتا ہے۔ سوچ یہ ہوتی ہے کہ ایک مرد جتنا کام کرتا ہے اور جتنا قابل ہے عورت اس تک نہیں پہنچ سکتی۔
اس سوچ کا نتیجہ یہ ہے کہ دفتر میں جبھی کسی اعلی عہده پر چناؤ کا وقت آتا ہے تو خاتون کی تمام قابلیت کو پس پشت ڈال کر مرد کو اس پر فائز کر دیا جاتا ہے۔
کچھ سال پیشتر لڑکیاں آمدورفت کے مسائل سے بھی دوچار رہی ہیں۔ لڑکے تو موٹرسائیکل لے لیتے ہیں لیکن لڑکیوں کے لیے موٹر سائیکل چلانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ شکر ہے اب یہ رجحان ختم ہو گیا ہے اور لڑکیاں موٹرسائیکل اور گاڑياں چلا رہی ہیں۔
وہ لڑکیاں جو دوران ملازمت رشتہ ازدواجی میں منسلک ہوتی ہیں یا پہلے سے شادی شدہ ہوتی ہیں ان کے اپنے الگ مسائل ہوتے ہیں افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت باہر چاہیے کتنا ہی کام کرے گھر کی تمام ذمہ داریاں اسے ہی اٹھانی پڑتی ہیں گھر میں کوئی اس کی مدد نہیں کرتا پھر جب بچے ہو جائیں تو ان کی دیکھ بھال اور پرورش بھی اسے ہی کرنی پڑتی ہے۔
حکومتی اداروں میں تین ماہ کی میٹرینی لیو ہوتی ہے اور اس دوران پوری تنخواہ ملتی ہے مگر میڈیا کے اداروں میں توقع کی جاتی ہے کہ وہ بچے کی ولادت کے دس دن بعد ڈیوٹی پر آ جائے تمام حکومتی اور پرائیوٹ تعلیمی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ڈے کئیر سنٹر بن چکے ہیں مگر صحافی خواتین کے لیے ایسی کوئی سہولت نہیں ہے۔
حکومت کے اداروں میں عورت کے بیوہ ہونے پر عدت کی چھٹیاں ملتی ہیں مگر مجھ سے اور شمیم اکرام سے شوہر کی وفات کے دس دن بعد کہا گیا تھا ڈیوٹی پر آجائیں۔
ایک لڑکی جس دن صحافت کی دنیا میں قدم رکھتی ہے اس دن سے ہی اسے ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے مرد حضرات اپنے جملوں، اپنی آنکھوں اور ہاتھوں کے اشاروں سے اسے ہراساں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
پہلا حملہ تو اس کی شکل وصورت اور لباس کی تعریف کرنے سے ہوتا ہے وہ ان رکیک ہتکھنڈوں کو نظرانداز کرے تو اس کے پیچھے ٹھنڈی آئیں بھرنے یا گنگنانے کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے اور اب ڈیجیٹل دور میں بہت آسان ہوئے گیا ہے۔
موبائل زندہ باد کسی بھی وقت واٹس اپ پر پیار بھرا پیغام بھیج دو، شیطانی ذہن ہراساں کرنے کے بےشمار طریقے ایجاد کر لیتے ہیں کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کا قانون موجود ہے لیکن کیا کبھی اس کا نفاذ ہوا ہے؟