دن میں تین چار مرتبہ تھوڑی دیر کو ٹویٹر والی ایپ دیکھنے کی عادت نہ اپنائی ہوتی تو بدھ کی صبح گھر پر آئے اخبارات کے پلندے پر سرسری نگاہ ڈالنے کے باوجود مجھے ”خبر“ ہی نہ ہوتی کہ کئی دہائیوں تک میرے عزیز ترین دوستوں میں شامل رہے اعتزاز احسن نے منگل کے دن کیمروں کے روبرو گفتگو کرتے ہوئے درحقیقت کس کو اپنے غضب کا نشانہ بنایا ہے۔ان کے ”کھڑاک“ نے تاہم سوشل میڈیا پر خوب رونق لگارکھی ہے۔تحریک انصاف کے جذباتی حامی واجب وجوہات کی بناپر اصلی نسلی جاٹ کے کھڑاک کی وجہ سے نہایت شاداں محسوس کررہے ہیں۔نواز شریف صاحب کے متوالے مگر سخت ناراض ہیں۔قصور کے ملک محمد احمد عموماََ میڈیا سے دور رہتے ہیں۔نپی تلی گفتگو کے عادی ہیں۔چودھری صاحب کے ریمارکس سے مگر مشتعل ہوگئے اور جوش جذبات سے بھری ایک پریس کانفرنس بھی کھڑکادی۔میرے دوست محمد مالک کے علاوہ دیگر اینکر خواتین وحضرات مگر چودھری صاحب کے بھڑکائے معاملے کو نظرانداز کرتے نظر آئے۔
اگر یہ کالم آپ نے اب تک پڑھنا گوارہ کرلیا ہے تو یہ سوال اٹھانا آپ کا حق ہے کہ چودھری اعتزاز احسن نے درحقیقت کونسی ایسی بات کہہ دی ہے جو مجھے ”دھماکہ خیز“ سنائی دی ہے۔خود کو ذات کا رپورٹر ٹھہراتے ہوئے میں اکثر اس کالم میں اس امر پر ماتم کناں سنائی دیتا ہوں کہ صحافی اپنے پیشے کے بنیادی اصولوں کو بھلاچکے ہیں۔مذکورہ اصول انگریزی کے حرف "W”سے شروع ہوتے ہیں جوکیوں اور کس نے کیاکہا جیسے سوالوں کے جواب فراہم کرتے ہیں۔ ”صحافت کی موت “پر دہائی مچانے کے باوجود میں اپنی ”اوقات“ بھی عمر کے آخری حصے میں خوب پہچان چکا ہوں۔ اس اعتراف کے بعد غالب کے ساتھ معذرت کے ساتھ یہ بیان کرنے کو بھی مجبور ہوں کہ ”کہیے کہیے مجھے بزدل منافق کہیے“۔ محض یہ عرض کرتے ہوئے فرار ہونا چاہوں گا کہ چودھری صاحب نے جو کلمات ادا کئے وہ کسی اور پاکستانی نے کہے ہوتے تو اس کا انجام علی وزیر جیسا نہ سہی تو کم از کم شہباز گل جیسا ضرورہوتا ۔چودھری صاحب کو مذکورہ بیان کی وجہ سے شاید عمران خان صاحب کی طرح ”توہین عدالت“ کے الزام سے محفوظ رہنے کے راستے بھی ڈھونڈنا پڑتے۔
چودھری اعتزاز احسن مگر جدی پشتی اشراف ہیں۔ان کی ذہانت وفطانت بھی قابل رشک ہے۔وکالت ویسے بھی ان کا پیشہ ہے اور اس میں انہوں نے بہت نام کمایا ہے۔اپریل 2007ءمیں جب ٹی وی پر ان دنوں کے چیف جسٹس افتخار چودھری کی ملاقات کی کلپ چلی تو اسے دیکھنے کے بعد بہت مغموم تھے۔میں وہ کلپ چلنے کے تھوڑی دیر بعد ان کے زمان پارک لاہور والے گھر گیاتھا۔ پرنٹ سے ٹی وی صحافت کی جانب راغب ہونے کے لئے مجھے ان کا انٹرویو درکار تھا۔کمال شفقت ومحبت سے انہوں نے میری سرپرستی فرمائی۔ میرے ساتھ کئی گھنٹوں کی ریکارڈنگ کے عین ایک دن بعد وہ علی الصبح اسلام آباد روانہ ہوگئے۔ خود کو افتخار چودھری کا ”ڈرائیور“ بناکر عدلیہ بحالی کی تحریک چلانے شہر شہر جانا شروع ہوگئے۔ انہیں شاعری کا شوق بھی ہے۔ اس کی وجہ سے عدلیہ بحالی تحریک کے دنوں میں انہوں نے ایک نعرہ متعارف کروایا تھا جو ”ریاست ہوگی ماں کے جیسی“ کا عہد باندھتا تھا۔اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے ۔اسے دہرانا وقت کا زیاں ہوگا۔
محض یاد دلانا ہی کافی ہے کہ چودھری صاحب کی چلائی تحریک کی بدولت بالآخر افتخار چودھری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر بحال ہوگئے۔ ریاست مگر ”ماں جیسی“ پھر بھی نہ ہوئی۔ افتخار چودھری اپنے منصب کو بلکہ ازخود نوٹسوں کی برسات کے ذریعے کھڑکی توڑ رش لینے کے لئے استعمال کرنا شروع ہوگئے۔ ان کی فعالیت نے میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو مادرانہ شفقت سے تو ہرگز نہیں نوازا۔ہماری سیاسی اشرافیہ اگرچہ اس کی وجہ سے ”چور اور لٹیرے“ نظر آنا شروع ہوگئی۔”چوروں“ کی بابت تاثر یہ بھی اجاگر ہوا کہ وہ ”جعلی ڈگریوں“ کی بدولت قانون ساز اداروں میں ”گھس“ آتے ہیں۔یہ تاثر مضبوط تر ہوگیا تو افتخار چودھری نے ان دنوں کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ایک ”چٹھی“ لکھنے کا تقاضہ شروع کردیا۔اس ”چٹھی“ کے ذریعے وہ آصف علی زرداری کے مبینہ طورپر سوئس بینکوں میں چھپائے ڈالروں کا سراغ لگانا چاہ رہے تھے۔ گیلانی صاحب پاکستان کی ”عالمی رسوئی“سے بچنے کی خاطر مطلوبہ چٹھی لکھنے کو تیار نہ ہوئے۔بالآخر توہین عدالت کے مجرم قرار پائے۔ وزارت عظمیٰ سے انہیں فارغ کرتے ہوئے ہم سب پاکستانیوں کو بھی ”حیف ہے اس قوم پر“ کا طعنہ دیتے ہوئے معتوب ٹھہرایا گیا۔
عدالتی فعالیت کے اس موسم میں چودھری اعتزاز احسن تقریباََ لاتعلق نظر آئے۔ شدت سے یہ سوال اٹھانے کی ضرورت محسوس ہی نہ کی کہ ”عدلیہ بحالی“ کے باوجود ریاست کو ماں کی صورت کیوں نہیں مل پارہی۔اس ضمن میں اعتزاز صاحب کی بے اعتنائی نے میرا دل توڑدیا۔ہم دونوں کے مابین گرم جوشی برقرار نہ رہی۔
میں اس بحث میں ہرگز الجھنا نہیں چاہتا کہ چودھری اعتزاز احسن نے منگل کے دن جو ”کھڑاک“ کیا وہ مناسب تھا یا نہیں۔ سوشل میڈیا کے عادی ہوئے ماحول میں اس امر کی بابت البتہ پریشان محسوس کررہا ہوں کہ منگل کے دن چودھری صاحب کے ”کھڑاک“ نے صحافتی زبان میں اس تاریخ ساز اجتماع کو Over Shadowیا گہنادیا جو سوات کے عوام نے اپنے ہاں طویل وقفے کے بعد ایک بار پھر نمودار ہوتی دہشت گردی کے امکانات سے پریشان ہوکر سڑک پر دکھایا تھا۔سوات میں چند دن قبل بچوں کو سکول لے جانے والی ایک وین پر حملہ ہوا تھا۔اس حملے کو ہمارے مین سٹریم میڈیا میں کماحقہ توجہ نصیب نہ ہوئی۔ سوشل میڈیا پر اگرچہ اس کے بارے میں سوالات کی بوچھاڑ ہوتی رہی۔وفاقی اور خیبرپختونخواہ کی حکومت ان سوالات کو نظرانداز کرتی رہی۔سوات کے شہری ان کی اپنائی لاتعلقی سے بیزار ہوکر منگل کے دن برجستہ انداز میں ایک تاریخ ساز اجتماع کے اہتمام کو مجبور ہوئے۔کاش ان کا اجتماع اس وقت ہمارے روایتی وسوشل میڈیا پر سنجیدگی سے زیر بحث لایا جارہا ہوتا۔