الفاظ کا گھاؤ تلوار کے گھاؤ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ہم اپنے الفاظ سے نہ صرف لوگوں کی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں بلکہ ان کی ساری زندگی کی محنت پر بھی پانی پھیر دیتے ہیں۔
کافر اور ‘چوڑا’ کہہ کر ہم نے لوگوں کو اپنے سے کم تر تصور کرنا شروع کر دیا ہے یا شاید یہ صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے۔
لڑائی جھگڑے میں ایک دوسرے کو ‘چوڑا’ بولنا ہماری سوچ کی عکاسی کے ساتھ ساتھ ہماری ذہنی پسماندگی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2017 کی مردم شماری میں پاکستان میں کرسچن (مسیحی) کل آبادی کے ایک اعشاریہ 27 فیصد تھے۔ یونین آف کیتھلک ایشین نیوز کے مطابق پچھلے بیس سالوں میں پاکستان کی مسیحی آبادی میں کمی واقع ہوئی ہے۔
1998 کی مردم شماری کے نتائج میں مسیحی کل آبادی کا 1.59 فیصد تھے۔ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ کرسچن بیرون ممالک میں رہائش پذیر ہونے کا اس لیے بھی سوچتے ہیں کیونکہ پاکستان میں تشدد اور فسادات کے بڑھتے واقعات میں اقلیتیں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ہمارے متعصب سماجی رویوں اور مسیحی برادری کی اکثریت کے دگرگوں معاشی حالات کے باعث شاذ و نادر ہی انہیں زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔
2018 میں پاکستان رینجرز نے اخبار میں ضرورت برائے سٹاف کا اشتہار دیا جس میں صفائی کرنے والے یا خاکروب کے کالم کے آگے لکھا گیا کہ صرف مسیحی ہی اس نوکری کے لیے درخواست جمع کروا سکتے ہیں۔
مذہبی بنیادوں پر پیشہ ورانہ تقسیم اور تعصب کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا اور نتیجے کے طور پر اشتہار میں سے مذہب کی شرط ہٹا دی گئی۔ نہ صرف یہ بلکہ کئی بار ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ ڈاکٹر ہسپتالوں میں صفائی کرنے والوں کا علاج کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
امتیازی رویوں کے ساتھ ساتھ مسیحی برادری پر توہین اسلام کا الزام لگانا اور تشدد کا نشانہ بنانا بھی بہت عام ہے۔ یہ اس لیے بھی کیا جاتا ہے کیونکہ وہ معاشی طور پر کمزور ہیں جس کے باعث تعلیم یافتہ بھی کم ہوتے ہیں، ایسے میں عام لوگوں کی نسبت ان کے لیے آگے بڑھنا شوق نہیں بلکہ ضرورت ہوتا ہے۔
یہ اپنے بچوں کو محنت مزدوری کرکے پڑھاتے ہیں کہ وہ معاشرے میں امتیازی سلوک سے بچ جائیں لیکن ان کے بچے پڑھ لکھ کر بھی امتیازی رویوں کی بھینٹ ہی چڑھتے ہیں۔
پاکستان میں مسیحیوں کے ساتھ امتیازی برتاو کیا جاتا ہے۔ یہ امتیازی رویے مختلف اقسام کے تعصب پر مبنی ہیں جن میں سماجی، سیاسی اور مذہبی تعصب شامل ہیں۔
ڈاکٹر مقصود کامل گوجرانوالہ تھیولوجیکل سیمینری کے وائس پرنسپل ہیں، جو پاکستان میں تمام بڑے پروٹسٹنٹ فرقوں کے لیے 80% چرچ کے رہنماؤں کو تربیت دیتا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں آکسفورڈ سینٹر فار مشن سٹڈیز (یو کے) میں اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔
19ویں صدی کے ہندوستان میں مسیحی -مسلم مباحثوں پر ان کی تحقیق اسلامی سیاق و سباق میں بین المذاہب مکالمے کے لیے قابل قدر بصیرت فراہم کرے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ امتیازی رویے کسی ایک سوشل کلاس تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہر کلاس کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم سماجی سٹیٹس کے لحاظ سے ان رویوں کی شدت میں کمی بیشی ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر مقصود کامل نے اپنا ذاتی تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ حجام نے مذہبی تعصب کی وجہ سے ان کی حجامت بنانے سے انکار کر دیا تھا۔
مذہبی تعصب کا نشانہ بننے کا ایک اور واقعہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک ٹک شاپ کے مالک نے اسی بنیاد پر انہیں نازیبا کلمات کہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ دراصل ہوا یہ تھا کہ انہوں نے کسی ٹک شاپ میں ایک ایسے گلاس سے پانی پی لیا تھا جس سے ہر کوئی پانی پیتا تھا مگر کسی شخص نے نشاندہی کی کہ میں مسیحی ہوں جس کے بعد ٹک شاپ کے مالک نے نہ صرف میرے ساتھ ناروا سلوک کیا بلکہ مجھے اس گلاس کے پیسےبھی دینے پڑے۔
ڈاکٹر مقصود کامل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے کے واقعات کے بعد غیر مسلم اقلیتیں خوف کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں، انہیں مسلسل یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کبھی بھی وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے یا انہیں ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اقلیتیں یہاں اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ کاروبار کر سکتی ہیں اور نہ ہی اپنے عقیدے کا اظہار کر سکتی ہیں۔ انہیں خطرہ ہوتا ہےکہ ان پر کبھی بھی توہین رسالت کا الزام لگ سکتا ہے جس کے بعد وہ اپنی جان سمیت سب کچھ کھو دیں گے۔
ان مسائل کا حل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قومی شناخت کو مذہبی شناخت پر ترجیح دے کر اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے سے ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کو مساوی مواقع کی فراہمی اور تعلیمی اور سماجی ہم آہنگی کی سرگرمیوں کا اہتمام کر کے بھی ان واقعات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر مقصود نے مزید کہا کہ ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ نفرت انگیز الفاظ تکلیف پہنچاتے ہیں۔
لیکن پھر بھی میں اپنے پیغمبر حضرت عیسیٰؑ کے بتائے راستے پر چل کر اور اپنے عقیدے پر یقین کو تقویت دے کر نفرت انگیز تقاریر کا مقابلہ کرتا ہوں۔
مسیحیت یہ سکھاتی ہے کہ صرف پیار کے ذریعے ہی نفرت پر قابو پایا جا سکتا ہے، یہ ہمارے مذہب کی تعلیمات ہیں کہ اپنے دشمن سے بھی پیار کرو اور اپنے پڑوسی سے بھی پیار کرو، میں بھی انہی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ میرا ماننا ہے کہ مسیحی اور مسلمان طلبہ کو ایسے تعلیمی اداروں میں پڑھنا چاہیے جہاں انہیں اکٹھے پڑھایا جائے۔ یہ مذہب کی بنیاد پر تعصب کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر مقصود کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں کو غیرمسلموں سے روا سلوک پر نظر رکھنے کی بھی بہت ضرورت ہے کیونکہ اساتذہ اور طلبہ دونوں ہی اقلیتوں کے خلاف توہین آمیز الفاظ ادا کرتے ہیں۔
یقیناً اس سب سے پرامن بقائے باہمی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ ان نفرت انگیز الفاظ سے نوجوان ذہنوں پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
نفرت انگیز الفاظ ان کی نفسیات کو نشانہ بناتے ہیں نتیجتاً ان میں ہر اس شخص کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو سرعام انہیں تضحیک کا نشانہ بناتا ہے۔ انہیں رویوں کی بنا پر وہ اپنے ساتھیوں سے محبت بھرا سلوک روا نہیں رکھ سکتے۔
پاکستان اسلام کے نام پر بننے والا ایک ایسا ملک ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔
دین اسلام برابری کا درس دیتا ہے، کہ کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں اور سب انسان اللہ کی مخلوق ہیں مگر یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ اسلام کے ماننے والے ہی اس کی اصل روح پر عمل نہیں کر رہے۔
یہ سب حالات و واقعات نہ صرف غیرمسلموں بلکہ خود مسلمانوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہیں کیونکہ آہستہ آہستہ اقلیتی مسلکوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی ان شدت پسند رویوں کی لپیٹ میں آتے جا رہے ہیں جو کہ مسلمان قوم میں تفرقے اور بطور قوم تنزلی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔