اس سال نومبر کے مہینے میں مصر کے شہر شرم الشیخ میں بین الاقوامی سطح پر تمام پارٹیز کی کانفرنس منعقد ہوئی. جس میں بحث کا دائرہ بہت وسیع رہا. اس میں یہ فیصلہ ہوا کہ جو ممالک کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیسوں کا بڑے پیمانے پر اخراج کرتے ہیں وہ متاثرہ غریب ممالک کے نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے ایک فنڈ قائم کریں گے. تاکہ موسمیاتی تغیرات سے ہونے والے مالی نقصان کا ازالہ ہو سکے. اس ضمن میں 2022 میں پاکستان کو جو نقصانات ہوئے ہیں، اس کا ایک جائزہ لیا گیا ہے. سننے میں آتا ہے کہ پاکستان کیلئے دس بیلئن امریکی ڈالرز کا پیکیج رکھا گیا ہے. جبکہ پاکستان نے 30 بلیئن امریکی ڈالرز کا تفصیلی رپورٹ جمع کیا تھا.
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے 2009 میں ترقی یافتہ ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ 2020 کے بعد سے وہ ہر سال 100 بلین ڈالر جمع کریں گے تاکہ غریب ریاستوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق ڈھالنے اور ان کے توانائی کے نظام کو سرسبز بنانے میں مدد ملے – لیکن اس پر ابھی تک کوئی عمل نہیں ہو سکا.
اس دفعہ کانفرنس آف پارٹیز کے علاوہ کچھ فنڈ کیلئے مختلف بین الاقوامی اداروں نے بھی اعلانات کئے ہیں. جس میں عالمی بینک, ایشیائی ترقیاتی بینک, آئی ایم ایف شامل ہیں. تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ نہ تو یہ امدادی پیکجیز ہونے والے نقصان کا پورا معاوضہ ہے اور نہ پاکستان میں ہونے والے ماحولیاتی خلل کا ازالہ ہے. لہذا یہ تجویز پیش کی جاتی ہے کہ پاکستان بشمول باقی ترقی پذیر ممالک کے پائیدار بنیادوں پر مدد کی جائے اور ان ممالک کو اس قابل بنایا جائے کہ موسمیاتی تغیرات سے موافقت حاصل کر سکے.
موسمیاتی تغیرات کے حوالے سے 2022 کا سال پاکستان کیلئے بہت بھاری رہا. مارچ کے آخر میں ہیٹ ویوز کا آغاز ہوا جو کہ اپریل تک جا پہنچا. یہ پاکستان میں بہت سے علاقوں میں ایک غیر معمولی عمل تھا, خاص کر صوبہ خیبر پختون خواہ کے شمالی علاقہ جات جہاں ان مہینوں میں بہار کے موسم سے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں. یہ ہیٹ ویوز اس لئے بھی بھاری تھا کہ رمضان کا آخری عشرہ لوگوں پر بہت بھاری گزرا. ہیٹ ویوز کی وجہ سے درجہ حرارت اپنے عروج پر جا رہا تھا کہ اچانک اسلام آباد اور خیبر پختون خواہ کے پہاڑوں کو آگ نے اپنے لپیٹ میں لے لیا. ہر روز نئے نئے علاقوں سے روزانہ کی بنیاد پر خبریں آجاتی کہ فلاں پہاڑ پر آگ لگ گئی. فلاں پہاڑ پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا. اور اس طرح یہ سلسلہ جون کے مہینے تک جاری رہا. ہم پہاڑوں سے پر لگے آگ اور اس سے اٹھتے ہوئے دھویں کی تصویریں اور ویڈیو ہی دیکھ سکتے تھے. اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے محکمہ جنگلات اور ریسکیو 1122 کے پاس اس سے نمٹنے کیلئے کوئی خاطر خواہ پروگرام ہی نہیں تھا . جس کے تحت مختلف پہاڑی علاقوں میں لگے آگ پر قابو پایا جا سکے. بہت کم لوگ اس کو موسمیاتی تغیرات سے لنک کرنے کے حق میں بولے. زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ یہ آگ دانستہ طور پر لگائی گئی تھی. دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ تھیوری درست ہے. کیوں کے خیبر پختون کے پہاڑوں پر اتنی گرمی نہیں پڑ سکتی کہ اس پر خود بخود آگ بھڑک اٹھے. البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ گرمی کا لہر اس سال وقت سے پہلے آیا تھا. حس کی وجہ سے پہاڑوں پر گھاس جلدی سوک گیا جو کہ جلنے میں اور آگ کو وسعت دینے میں مدد گار ثابت ہوئی. اور یہی وہ عوامل تھے جس کو موسمیاتی تغیرات کے ساتھ جوڑا جاتا ہے.
ابھی جنگلات پر لگی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی کہ برسات کا آغاز ہوا. اور دو تین ہفتے کے اندر اندر پانی نے پورے پاکستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا. جس سے بہت بڑا نقصان ہوا. یہ کہنا مشکل ہے کہ کونسے علاقے میں زیادہ نقصان ہوا, لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ یہ پاکستان کے تاریخ میں سب سے بھاری مون سون تھا. اس لمبے اور پر تشدد برسات کو مکمل طور پر موسمیاتی تغیرات سے جوڑا گیا. نہ صرف یہ کہ یہ سال بھاری رہا, بلکہ ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کی بارشوں سے پاکستان مستقبل قریب میں بھی متاثر ہوتا رہے گا.
[pullquote] کیا پاکستان ہر سال موسمیاتی تغیرات کے اثرات کے نیچے رہے گا اور ہر سال اس طرح کے نقصانات سے دو چار ہونا پڑے گا؟[/pullquote]
یہ سوال جب میں ڈاکٹر نفیس صاحب سے کہا تو ان کا کہنا تھا کہ ہر سال تو نہیں لیکن وقفے وقفے سے اس طرح کے حالات کے امکانات موجود رہیں گے. جس کیلئے ہمیں تیار رہنا پڑے گا. اس طرح ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ موسمیاتی تغیرات کاربن ڈائی آکسائڈ اور میتھین گیسوں کی وجہ سے ہوتا ہے. پاکستان میں ان گیسوں کا اخراج بہت کم ہے. پھر کیوں پاکستان دوسرے ممالک سے زیادہ اثرانداز ہوتا ہے. اور یا پھر یہ کہ اگر یہ ترقیافتہ ممالک کی وجہ سے ہوتا ہے تو پھر اس سے ہونے والے نقصان کا ازالہ بھی انہی ممالک کو کرنا چاہیئے.
یہ سوال حال ہی میں بین الاقوامی سطح پر ہونے والے کانفرنس آف پارٹیز میں بھی چیڑا گیا. اور اس بات پر اتفاق رائے کی گئی کہ ترقیافتہ ممالک کو چاہیئے کہ ایک فنڈ قائم کی جائے اور اس فنڈ سے ترقی پذیر ممالک کی مدد کی جائے.
سننے میں آیا ہے کہ پاکستان کیلئے دس بیلئن امریکی ڈالرز کی فنڈ مختص کرنے کے امکانات ہیں. بہت سے لوگ اس بات پر خوش اور مطمئن ہیں اور بہت سے اس بات سے پوری طور پر مطمئن نہیں ہیں. جس کے چند ایک وجوہات ہیں.
ایشیا کے ترقیاتی بینک کے حساب سے پچھلے تیس سال میں پاکستان کو موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے 29 بیلین امریکی ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے. جو کہ تقریباً ایک بیلئن امریکی ڈالرز سالانہ بنتا ہے. عالمی ترقیاتی بینک کے اندازے کے مطابق پاکستان کو موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے اوسطاً 3.8 بلین امریکی ڈالرز کا نقصان ہوا جبکہ سیلاب کی وجہ سے 40 بلین امریکی ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے. جس کی وجہ سے اندازہ ہے کہ 2023 میں پاکستان کی جی ڈی پی 6 فیصد کی بجائے 3.5 فیصد تک گرنے کے امکانات ہیں. اب اگر پاکستان کو ملنے والے امداد کو دیکھا جائے تو ایشیاء کے ترقیاتی بینک نے 2.5 بیلئن امریکی ڈالرز کے پیکج کا اعلان کیا ہے.
عالمی ترقیاتی بینک نے دو بیلئن امریکی ڈالر کا اعلان کیا ہے جبکہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے 1.17 بیلئن امریکی ڈالرز کے امداد کا عندیہ دیا ہے اور یونائیٹڈ نیشن نے 81 ملیئن امریکی ڈالرز امدا کا اعلان کیا ہے. اس کے علاوہ اس سال موسمیاتی تغیرات کے سلسلے میں مصر میں کانفرنس آف پارٹیز جس کو COP-27 کے نام سے یاد کیا جاتا ہے, میں 10 بیلئن مختص کرنے کے امکانات ظاہر کئے گئے ہیں. ان سب کو اگر ملایا جائے اور اگر یہ ساری رقم پاکستان کو مل بھی جائے, پھر بھی پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کا ازالا نہیں ہوگا.
[pullquote]کیا کانفرنس آف پارٹیز کے فیصلے سے ماحولیاتی خلل کا ازالہ ممکن ہے؟[/pullquote]
ڈاکٹر نفیس صاحب کہتے ہیں کہ ماحولیات کے شعبے کے اندر جو خلل پیدا ہوا ہے.جس کو ہم سائنسی زبان میں ایکولاجیکل خلل کہتے ہیں. اس کیلئے کوئی کمپینیشن نہیں ہے. ایکولاجیکل خلل سے متعلق معاوضے پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس عمل کی وضاحت کی جائے تاکہ اس کو سمجھنا آسان ہو جائے.ماحولیاتی یا ایکولاجیکل خلل کو ایک جسمانی قوت، ایجنٹ، یا عمل کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے، یا تو ابیوٹک یعنی بے جان اشیاء یا بائیوٹک یعنی جاندار اشیاء کسی ماحولیاتی جزو یا نظام کے تحت جزوی طور پر یا مکمل طور پر تبدیل یا ختم ہو جائے. اس کو اگر ہم عرف عام میں کسی نظام کی زرخیزی بھی کہہ سکتے ہیں. کیوں کہ بیرونی عمل یا عوامل سے ہونے والے تبدیلی کی وجہ سے ایک نظام کی پیداوری صلاحیت یا تو کم ہوجاتی ہے یا مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے. جس کو بحال کرنے کیلئے کئی سال لگ سکتے ہیں.
مثلاً آگ لگ گئیں اور بہت سارے پرندوں کے گھونسلے جل گئے. ظاہر ہے ان پرندوں کی آبادی میں کمی آئے گی. اب ان پرندوں کو کون کونسے کام حوالے تھے جو اب نہیں ہو سکیں گے.
[pullquote]اس طرح سیلاب سے کتنی زمیں کٹاؤ کا شکار ہوئی. اب اگر اس جگہ کو بحال کیا جائے تو کیا پہلے جیسے پیداوار حاصل ہو سکے گی؟ [/pullquote]
ڈاکٹر نفیس صاحب کہتے ہیں کہ اس کا جواب تو یقیناً نہیں میں ہے. لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس جگہ کی پرانی ایکالوجی واپس آسکتی ہے؟ اور اگر آ سکتی ہے تو کتنے وقت میں اور اس پر کتنا خرچہ آسکتا ہے؟ اور ساتھ یہ کہ ایک جگہ کی زرخیزی بحال کرنے کے دوران پیداوار میں کتنی کمی آئی اور نقصان کے آزالے کیلئے تخمینہ لگانے میں اس چیز کا خیال رکھا گیا ہے؟ پاکستان کے متعلقہ اداروں کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ اس طرح کے ہونے والے نقصانات کا درست طورپر اندازہ لگایا کرے تاکہ ملک کی معیشت اور عام لوگوں پر اثرات کم سے کم ہو.
ملکی سطح پر بھی پروگرام بنائے جارہے ہیں. لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں آیا. مختلف دستاویز,مثلا کلائمیٹ چینج پالیسی, ایکشن پلان وغیرہ کی منظوری یوچکی ہے. عملی طور پر لاگو کرنے کا انتظار ہے. اس کے علاوہ وزیر اعظم کے طرف سے عندیہ دیا گیا ہے کہ کسانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے قابل بنایا جائے گا۔ نومبر کے شروع میں وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ بینک چھوٹے درجے کے کسانوں کو بلا سود اور رعایتی قرضے فراہم کریں گے جن کی کل رقم 1.8 ٹریلین پاکستانی روپے ($8.12 ملین) ہے، جبکہ اس رقم پر سود معاف کر دیا جائے گا جو انہوں نے سیلاب سے پہلے لیا تھا.
[pullquote]مستقبل قریب میں مزید نقصان کے امکانات ہیں؟[/pullquote]
ڈاکٹر نفیس صاحب کہتے ہیں کہ اگر اگلے سال یا کچھ سال بعد اس طرح کی خشک سالی اور سیلاب آگئے. تو کیا عالمی سطح پر پاکستان میں ہونے والے نقصان اور معاشی خسارے کی صورت میں پاکستان کی امداد کی جائے گی؟ کیوں کہ کچھ نقصانات کا تو پاکستان ہر سال سامنا کرے گا. جو کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے حساب سے ایک بیلئن ڈالر سالانہ ہے اور بین الاقوامی بینک کے حساب سے 3.8 بیلین امریکی ڈالرز سالانہ ہے. یا چھ فیصد جی ڈی پی ہے جو کہ 20 بیلئن امریکی ڈالرز سالانہ ہے. ان مختلف اعداد و شمار کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا ترقی پذیر ممالک پاکستان اور پاکستان جیسے دوسرے ممالک کو درست طور پر معاوضے دے کر ان نقصانات کا ازالہ کر سکیں گے؟
ڈاکٹر نفیس صاحب نے تجاویز دی کہ اس بات سے قطعاً انکار نہیں کہ اگر نقصان ہوتا ہے تو ازالہ نقصان کرنے والے ممالک پورا کریں گے. لیکن ساتھ ساتھ موسمیاتی تغیرات کے تخفیف اور اس سے موافقت حاصل کرنے کیلئے کام ہونا ضروری ہے. کیوں کہ یہ بھی عجیب بات ہوگی کہ ہر سال نقصان ہوتا رہے گا اور ہر سال ترقی پذیر ممالک میں امدادی فنڈز تقسیم ہوتے رہیں گے. اس مسلے کا مستقل بنیادوں پر حل چاھیئے. اور ایک ایسا لائحہ عمل طے ہونا چاہیئے جس کے ذریعے پاکستان بشمول تمام ترقی پذیر ممالک اس قابل ہو جائے کہ وہ موسمیاتی تغیرات سے موافقت حاصل کریں اور اپنی مدد خود کرنے کے قابل ہوجائے.