گلگت بلتستان کے پہاڑوں کی بلندیاں اور ان کے دامن میں بسنے والی قوموں کی فراست ہمیشہ سے ایک خاص نوعیت کی سیاسی حساسیت رکھتی ہے۔ یہ خطہ، جو قدرتی حسن، معدنی خزانوں اور تہذیبی تنوع کا امین ہے، آج کل ایک نئی سیاسی ہلچل کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے بلایا جانے والا "قومی جرگہ” بظاہر عوامی حقوق کی بازیابی کا نعرہ لے کر سامنے آیا ہے، لیکن اس نعرے کے پس منظر میں جو سیاسی شورش پنہاں ہے، وہ صرف حقوق کی بازیافت نہیں بلکہ قومی وحدت کی اساس کو متزلزل کرنے کی سعی معلوم ہوتی ہے۔
اس جرگے کی پکار نے جہاں نوجوان نسل کے زہنوں میں ایک نئی ہلچل پیدا کی، وہیں دیامر جیسے باشعور اور تاریخی شعور کے حامل علاقے میں کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ عوامی جرگہ کیوں منعقد ہو رہا ہے، اصل سوال یہ ہے کہ اس جرگے کی نوبت کیوں آئی؟ اور کون سی قوتیں ہیں جو اسے ایک عوامی خواہش کے طور پر پیش کر کے خطے میں افتراق کا بیج بونا چاہتی ہیں؟
گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان نے اسلام آباد میں منعقدہ منرل سمٹ کے دوران گلگت بلتستان کے معدنی وسائل کا ذکر کرتے ہوئے ان کے بہتر استعمال کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ بیان اگرچہ قومی ترقی کے تناظر میں دیا گیا، تاہم قوم پرست حلقوں نے اس بیان کو بنیاد بنا کر عوامی احساسات کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں ہر بات میں ایک سازش دکھائی دیتی ہے، اور ہر قومی کاوش کو استحصالی منصوبہ تصور کیا جاتا ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت پہلے ہی معدنی وسائل کے حوالے سے واضح قانونی فریم ورک رکھتی ہے۔ 2016 میں بنائے گئے "منرل کنسیشن رولز”(MCR) کے تحت معدنیات کی لیز گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت جاری کرتی ہے،اور 2024 کو اس رول میں عوامی مفادات کی پیش نظر ترمیم بھی کی گئی۔ان قوانین کے تحت لیز کا مکمل اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے۔ اگر کسی قوم پرست حلقے کو اس نظام پر اعتراض ہے، تو آئینی راستہ ان کے لیے کھلا ہے۔ وہ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں، اسمبلی میں آ کر قانون سازی کر سکتے ہیں، نہ کہ سڑکوں پر شور برپا کر کے ریاستی نظام کو چیلنج کریں۔۔۔
دیامر کا ذکر یہاں اس لیے لازم ہے کیونکہ یہ وہ خطہ ہے جس نے 1952 میں مکمل شعور اور رضامندی کے ساتھ پاکستان سے الحاق کیا۔ یہ الحاق محض ایک سیاسی فیصلہ نہ تھا بلکہ دو قومی نظریے سے ہم آہنگ ایک عمرانی معاہدہ تھا، اس معاہدے کی شق نمبر 13 اور 16 میں واضح طور پر درج ہے کہ دیامر کے معدنی وسائل اور جنگلات کی ملکیت دیامر کے عوام کے پاس ہوگی، اور حکومت پاکستان ان وسائل کی برآمدگی کے لیے مجاز ہوگی تاکہ مقامی لوگوں کی معیشت مستحکم ہو۔ یہ ایک شفاف، آئینی اور باہمی رضا مندی پر مبنی سوشل کنٹریکٹ ہے۔ لہٰذا اگر آج کوئی فرد، گروہ یا جرگہ اس معاہدے کی نفی کرتا ہے تو وہ نہ صرف آئینی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے بلکہ اپنے اسلاف کی قربانیوں سے بھی انحراف کر رہا ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کا یہ جرگہ دراصل ایک مخصوص طبقے کا نمائندہ فورم بن چکا ہے، جو خود کو عوام کا نام دے کر حکومت کو بلیک میل کرنے کی روش پر گامزن ہے۔ عوامی نمائندگی کے نام پر یہ مفاد پرست عناصر قومی وحدت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ دیامر جیسے باشعور ضلع میں اس جرگے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہاں کے نوجوان نہ صرف اپنے آباؤ اجداد کے عہدِ وفا کے امین ہیں بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی اس عمرانی رشتے کی پاسداری سکھا رہے ہیں۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں جو بھی سیاسی قوتیں "قومی جرگے” کے نام پر منظر عام پر آ رہی ہیں، ان کے ماضی کے بیانیے اور حال کی حکمت عملی عوام کے سامنے واضح ہو چکی ہے۔ آج گلگت بلتستان کا باشعور نوجوان جانتا ہے کہ ریاست کے خلاف بیانیہ، خواہ وہ جتنا بھی دلکش اور نعرے دار ہو، دراصل بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔
لہٰذا، اس وقت گلگت بلتستان کے نوجوانوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کو ایک ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو ریاستی اداروں پر اعتماد کو فروغ دے، ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت کی مانگ کرے، لیکن آئینی اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے۔ گلگت بلتستان بالخصوص دیامر کی سرزمین کسی نئے عمرانی معاہدے کی محتاج نہیں، بلکہ پہلے سے موجود معاہدے پر عملدرآمد کی ضامن ہے۔
آخر میں ضلع دیامر کے نوجوانوں سے یہی گزارش ہے کہ وہ اس نام نہاد قومی جرگے کا حصہ نہ بنیں، جو عوام کے نہیں، بلکہ چند مخصوص عناصر کے ذاتی مفادات کا ترجمان ہے۔ سچ یہی ہے کہ قوم پرستی کے نام پر قوم کو تقسیم کرنے والے عناصر، تاریخ کے کٹہرے میں ہمیشہ رسوا ہوتے آئے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔