جو لوگ میری عمر کے ہیں اور جنہوں نے بچپن اور جوانی اسلام آباد کے سیکٹر جی-6 میں گزاری ہے، ان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ میلوڈی مارکیٹ والے ڈاکٹر اظہر خان لودھی اور ان کے بیٹے ڈاکٹر اسد لودھی کو نہ جانتے ہوں۔
ڈاکٹر لودھی اسلام آباد کا ایک جیتا جاگتا ٹریڈ مارک ہیں۔
مجھے یاد نہیں کہ میری عمر اس وقت کیا تھی جب میں پہلی بار بیمار ہوا اور ابا جی مجھے ڈاکٹر لودھی کے پاس لے کر گئے۔ کچھ کچھ یاد ہے۔ عین ممکن ہے ہوش سنبھالنے سے پہلے بھی ڈاکٹر لودھی کی دوائیں میرے نصیب میں آ چکی ہوں۔
آج میں پچپن برس کا ہوں اور پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے، جب بھی کوئی طبی مسئلہ ہوا، ہمیشہ ڈاکٹر لودھی کے پاس ہی گیا۔
پھر میری بیگم، میرے بچے — جو اب ماشااللہ بڑے ہو چکے ہیں — سب ہمیشہ ڈاکٹر لودھی صاحب کے پاس ہی گئے، خواہ بیماری کی نوعیت کیسی بھی کیوں نہ ہو۔
ہم ہمیشہ انہی کے پاس کیوں جاتے ہیں؟ یہ میں آپ کو آخر میں بتاؤں گا۔
سکول کے زمانے کی ایک یاد آج بھی دل میں تازہ ہے۔ جب بھی ڈاکٹر صاحب کے پاس جاتا، مجھے حیرت ہوتی کہ ہر بار دوا لکھتے ہوئے وہ کلینڈر کیوں دیکھتے ہیں؟
میں کلینک سے باہر نکلتے ہی ابا جی سے یہی سوال کرتا کہ کیا ڈاکٹر صاحب بار بار تاریخ بھول جاتے ہیں؟
اماں جی کو ان سے ایک شکایت تھی ڈاکٹر صاحب دوائیں کچھ زیادہ ہی دیتے ہیں۔
اس کے باوجود، ہر بیماری میں ہم سب کو لے کر ڈاکٹر لودھی کے پاس ہی جاتے تھے، اور یہ سلسلہ آج بھی ویسا ہی جاری ہے۔
اب ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے، ڈاکٹر اسد لودھی، بھی کئی سالوں سے اپنے والد کے ساتھ وہیں بیٹھتے ہیں — ہر لحاظ سے اپنے والد کی کاپی۔
ڈاکٹر صاحب، ان کے کلینک کی جگہ، ان کا انداز — کچھ بھی نہیں بدلا۔
ایک ہی روٹین، ایک ہی وقت، وہی کلینک کھلنے اور بند ہونے کا شیڈول۔
سال ہا سال سے واک کی بھی وہی ترتیب۔
ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر تو آپ اپنی گھڑی کا وقت درست کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک انوکھی خوبی یہ ہے کہ مریض کو کبھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کسی کلینک میں آیا ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے وہ ان کے گھر پر ملاقات کے لیے آیا ہو، اور ڈاکٹر صاحب دوستانہ انداز میں گپ شپ کر رہے ہوں۔
تین چار دہائیوں سے، میں نے کبھی ڈاکٹر صاحب کو نہ اپ سیٹ دیکھا، نہ غصے میں۔
ہمیشہ پُرسکون، مطمئن، اور مسکراتا چہرہ۔
بچپن میں میرے دل میں خیال آتا تھا کہ شاید ڈاکٹر صاحب سوتے وقت بھی مسکراتے ہوں گے۔ کچھ تو ھے ان دونوں باپ بیٹے میں کہ آپ ان کے پاس بیٹھتے ھیں اور جب وہ آپ سے بات شروع کرتے ھیں آپ اسی وقت اپنے اندر تبدیلی محسوس کرتے ھیں اور بہتر محسوس کرنے لگتے ھیں ۔
ان کے کلینک پر اتنے برسوں میں کئی چہرے آئے اور گئے، لیکن دلاور اور آصف — یہ دونوں ہمیشہ مریضوں سے ویسے ہی شفقت سے پیش آتے ہیں جیسے ڈاکٹر صاحب خود۔
اب میں آپ کو وہ بات بتاتا ہوں جس کا وعدہ شروع میں کیا تھا
آخر ہم سب ہمیشہ انہی کے پاس کیوں جاتے ہیں، جبکہ شہر میں سینکڑوں ڈاکٹر موجود ہیں، اور یقیناً اچھے بھی ہوں گے۔
وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر لودھی اور ان کے صاحبزادے پر اللہ کا خاص کرم ہے۔
ایک تو ان کا محبت اور شفقت بھرا لہجہ، اور دوسرا، ان کے ہاتھ میں اللہ کی دی ہوئی خاص شفا۔ اور پھر ایک برائے نام سی فیس ۔۔ صرف چند سو روپے
چاہے آپ کیسی بھی تکلیف میں ہوں
104 درجے بخار ہو یا کوئی اور بیماری
جب ڈاکٹر لودھی یا اسد لودھی دوا تجویز کرتے ہیں، تو صرف… جی ہاں، صرف دو خوراک کے بعد آپ خود کو بالکل تندرست محسوس کرتے ہیں۔
اگرچہ دوا کا کورس پانچ یا سات دن کا ہوتا ہے، لیکن دو خوراک کے بعد ہی طبیعت سنبھل جاتی ہے۔
میں تو کئی بار دو خوراک کے بعد باقی کی دوا میں ڈنڈی مار جاتا ہوں۔
ڈاکٹر لودھی اور اب ان کے صاحبزادے اسلام آباد کی پہچان ہیں۔
روزانہ ہزاروں لوگوں کی دعائیں سمیٹتے ہیں۔
خدا کرے، باقی ڈاکٹر بھی ڈاکٹر لودھی کی پیروی کریں
اور اپنے مریضوں سے خدا بن کر نہیں، بلکہ مسیحا بن کر ملیں۔ اور اپنے مریضوں کو اے ٹی ایم مشین نہ سمجھیں