حال ہی میں پیش آنے والے تارکین وطن کے حادثے نے جہاں ملک کی فضا کو سوز گار کیا ہے وہاں ان خاندانوں کےزخم کو بھی تازہ کیا ہے جن کے عزیز اپنی آنکھوں میں خوشحال مستقبل کے خواب سجھائے دوسرےممالک روانہ ہوئے پرآج تک ان کی کوئی خبر نہیں مل سکی۔
یہ کہانی ہے ایک ایسی ماں کی جس کا بیٹا 18 برس قبل ملائیشیا کے سفر پر غیر قانونی طریقے سے روانہ ہوا لیکن آج تک لوٹ کر نہیں آیا اور نہ ہی اس سےمتعلق کوئی خبر آئی۔ یہ ماں ہر لمحہ ہر دن اپنے بیٹے کے انتظار میں رہتی ہے کہ کہیں اس کی فون کال آجائے گی یا وہ آ جائے گا۔ انٹرویو کے دوران سمینہ بی بی نے بتایا کہ ان کا بیٹا غیر قانونی طریقہ اپناتے ہوئے اپنے دوست کے ہمراہ ملائیشیا گیا ۔ اس کا کہنا تھا کہ وہاں جا کے وہ کام کرے گا اور اپنے خاندان کا مستقبل بنائے گا، وہ میرا سب سے بڑا بیٹا تھا اور میرے گھر کا سربراہ تھا ۔
خاتون نے بتایا کہ میرے دو بیٹے اور دو بیٹیاں اور بھی ہیں؛ پر اس کی جو جگہ تھی وہ اسی کی تھی اور اس کمی کوکبھی پورا نہیں کرسکتی۔ وہ کہتی ہیں کہ مرتے دم تک میرے دل میں ایک آگ جلتی رہے گی اور میں سوچتی رہوگی کہ میرا بیٹا پتا نہیں کہاں ہوگا .وہ کہتی ہیں کہ کھانے کے ہر نوالے کے ساتھ مجھے اس کی یاد آتی ہے کہ وہ کس حال میں ہوگا ۔ دکھی ماں کہتی ہیں کہ کاش کہ ہم اس کو نہ بیھجتے۔ والد نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے بہت معلومات کرانے کی کوشش کی کی پر کچھ پتہ نہ چل سکا۔
پاکستان میں بیشتر خاندان ایسے ہیں جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے لیے سوچتے ہیں کہ انھیں باہر بھیج دیں لیکن وہاں جا کر ان بچوں کو یا تو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں یا وہ راستے میں ہی لاپتہ ہو جاتے ہیں اور کسی کو کچھ خبر نہیں ملتی کہ وہ کہاں گئے۔ اس سوچ اور ان حالات کا تعلق پاکستان کے موجودہ معاشی بحران سے بھی ہے، جہاں سفید پوش لوگوں کے لئے اپنی ضروریات پوری کرنا اتنا مشکل ہو گیا ہے کہ وہ راہ فرار حاصل کرتے ہیں اور اس طرح کے راستے اپناتے ہیں. اگر پاکستان میں لوگوں کے لئے بہتر روزگار کے مواقع موجود ہوں اور اگر ان کی ضروریات اسی ملک میں پوری ہوجائیں تو لوگ کبھی اتنا مشکل راستہ اختیار نہ کریں۔