خیبر پختونخوا میں گھریلو بچہ مشقت کے حوالے سے قوانین !

[pullquote]خیبر پختونخوا جہاں گھریلو بچہ مشقت قانون موجود ہونے کے باوجود گھروں میں بچوں کی ملازمت کا سلسلہ نہیں رک سکا [/pullquote]

خیبرپختونخوا کی حکومت نے 14سال سے کم عمر بچوں کو گھریلو ملازم رکھنے اورجبری مشقت پر خیبرپختونخوا ہوم بیسڈ ورکرز ویلفیئر پروٹیکشن بل 2021کے تحت پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن پاکستان میں حالیہ معاشی دگر گوں صورتحال غربت ،مہنگائی ،بے روزگاری اور ناخواندگی کو دیکھتے ہو ہے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اس قانون پر عملدرآمد آسان نہیں ہے ،اس قانون کے تحت بچوں سے جبری مشقت پر پابندی لگائی گئی ہے تو وہیں گھروں میں کام کاج کا آغاز باقاعدہ معاہدے کے زریعے کرنے کا اصول وضع کیا گیا ہے. تنخواہ کی ادائیگی کے طریقہ کار سمیت ملازمت کے اوقات کار بھی وضع کیے جانے ضروری ہیں قانون کے مطابق ہفتہ وار کام کا دورانیہ 60گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہونا چاہیئے ، اگر ملازم کو نوکری سے برطرف کرنا ہو تو تحریری طور پر آگاہ کرنے کے علاوہ ایک ماہ کی تنخواہ بھی ادا کرنی ہوگی .

2010میں بھی اٹھارویں آئینی ترمیم منظوری کے بعد بھی خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک میں اس قسم کی قانون سازی ہوئی؛ جس پر عملدرآمد کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے. اس بات کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں گھریلو بچہ مشقت کا شکار بچوں کی تعداد کے حوالے سے 2004’2005 کے بعد کوئی سروے نہیں کیا گیا ، سپارک آرگنائزیشن کے سروے میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پشاور کے پوش علاقوں کے ہر چھٹے گھر میں گھریلو بچہ مزدور موجود ہے ،انسانی حقوق بالخصوص بچوں کے حقوق کے سرگرم اراکین کو تشویش ہے کہ اب یہ تعداد دوگنا بڑھ چکی ہے .

گھریلو بچہ مزدور کے حوالے سے جو سب سے سنگین حقیقت ہے، وہ ان بچوں کے ساتھ چار دیواری کے اندر مار پیٹ اور تشدد ہے ان محنت کش بچوں میں نوےفیصد کو عموما یکسان حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے. جو برے روئیے اور جسمانی تشدد سے جڑا ہے پشاور کے علاقے حیات آباد کے ایک بنگلے میں گیارہ سالہ فاطمہ ملازمت کرتی ہے فاطمہ کو جنوبی پنجاب سے ملازمت کے لئے بھیجا گیا ہے اس بچی کی زمہ داری مالکن کے بچے کی دیکھ بھال کے علاؤہ بنگلے کی تمام اشیا کی جھاڑ پونچھ، تازہ پانی بھرنے اورابال کر بوتلوں میں ڈالنے کی زمہ داری بھی ہے ، اسی گھر کی ایک پرانی ملازمہ کے منہ سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر سنا کہ ایک دن پتیلے سے بوتل میں پانی منتقل کرنے کے دوران فاطمہ اپنا ہاتھ بھی بری طرح جلا بیٹھی، جس کے بعد اسے مزید برے سلوک کا سامنا کرنا پڑا کہ مالکوں کے لیے مصیبت ڈھونڈ لی ،وہ بتا رہی تھی کہ کبھی کبھی بچے کی دیکھ بھال میں بھول چوک ہوجائے تو بھی فاطمہ کو بہت مار پڑتی ہے اور جب جب مار پڑتی ہے تو وہ صرف اپنی ماں کو یاد کرتی ہے فاطمہ جیسے ہزاروں بچے اپنے بچپن ایسے ہی بیگمات کے بچوں کو سنبھالنے اور ان کی گھر کی جھاڑ پونچھ میں گزار رہے ہیں لیکن افسوس کہ قانون موجود ہونے کے باوجود اس کی روک تھام کا کوئی منظم طریقہ کار موجود نہیں .

[pullquote]گھریلو بچہ مشقت کی تعریف کیا ہے اور اس کے ہونے کی وجوہات کیا ہیں ؟[/pullquote]

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے متعین کردہ قواعد کے مطابق بچوں سے مزدوری اور کام کروانے کے درمیان فرق رکھنا انتہائی اہم ہے ،ایک ایسا کام جسے کرنے سے بچے کی جسمانی نشوونما ، تعلیم اورذہنی صحت متاثر نہیں ہورہی وہ چائلڈ لیبر کی تعریف پر پورا نہیں اترتا مثلاً اگر ایک بچہ سکول سے چھٹی ہونے پر یا تعطیلات کے دوران کام کرتا ہے یا اپنے خاندانی کاروبار میں ہاتھ بٹاتا ہے تو یہ بچہ مشقت کے زمرے میں شمار نہیں ہوگا بلکہ ایسا کام بچوں کی مخفی صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور ہنر مند بنانے کے محرکات میں شامل ہوگا جو انہیں مستقبل میں خود انحصار شہری بننے میں معاونت دے گا .انٹرنیشنل لیبر ارگنائزیشن کے مطابق بچہ مشقت وہ عمل ہے جس سے بچے اپنے بچپن سمیت باعزت طرز زندگی سے محروم ہوجائیں جو ان کی جسمانی اخلاقی اور ذہنی صحت کو متاثر کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے لئے تعلیم کے دروازے بند ہوجائیں چائلڈ لیبر اور چائلڈ ورک کے درمیان فرق کو سمجھنے کی ازحد ضرورت ہے آئی ایل او کے مطابق بچے کی عمر ، اس سے لئے جانے والے کام کی نوعیت اور حالات اور اوقات کار کے علاوہ اس ملک کی ترقیاتی صورتحال کو بھی مدنظر رکھا جائے گا .

[pullquote] بچوں کو گھروں سے دور مشقت کے لئے بھیجے جانے کا سب سے بڑا محرک غربت![/pullquote]

گھریلو بچہ مشقت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں سے ٹارگٹ 8.7 کی رو سے سال 2025ء تک گھریلو بچہ مشقت کو اس کی تمام تر شکلوں میں ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے, لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں غربت کی لکیر تلے زندگی گزارنے والوں کی معاشی گاڑی چلانے کا اہم ذریعہ ان کے بچے ہی ہیں جنہیں گھروں سے دور خصوصا شہری علاقوں میں گھریلو بچہ مزدوری کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔

ایک گھریلو بچہ مزدور کے والد نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے نو بچے ہیں تین ابھی 2 تا 5 سال کی عمر کے ہیں جب کہ دیگر چھ کی عمریں سات تا تیرہ برس ہیں وہ بتا رہے تھے کہ ان کے چھ کے چھ بچے مزدوری کرتے ہیں کچھ کو بازار میں کسی استاد کے پاس اور کچھ کو شہر سے باہر بنگلوں میں نوکری کے لئے بھیج رکھا ہے .چھوٹے بچے دن کا سو روپے لاتے ہیں لیکن جنہیں گھریلو ملازمت کے لئے بھیجا ہے وہ چار تا چھ ہزار مہینہ کما لیتے ہیں یوں ان کی گزر بسر مہنگائی کے اس دور میں کھینچ تان کر ہو ہی رہی ہے ، تعلیم نہ دلوانے کے سوال پر ان کا موقف تھا کہ ان کے معاشی حالات اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتے اور ویسے بھی ان کے بچوں نے کونسا اعلی تعلیم تک پہنچ جانا ہے. دو چار جماعتوں کے بعد تو ان کے علاقوں کے بچے ویسے بھی خود ہی سکول سے بھاگ جاتے ہیں تو بہتر ہے کہ بچپن سے ہی کام کاج کرکے پیسہ کمانے کے عادی ہوں۔ انہوں نے تشویشناک انداز اپناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بازاروں اور دکانوں پر بچوں کو کام پر بٹھانے میں ایک اور خطرہ بھی ہے اور وہ یہ کہ بچے جنسی استحصال کا بھی شکار ہوتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ان کے اپنے بھائی کے تیرہ سالہ بیٹے کومستری خانے کے استاد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا ، وہ غریب لوگ تھے عزت نہ جائے اس لئے خاموش رہ گئے ، وہ بتارہے تھے کہ اب وہ محتاط ہوگئے ہیں لہذا اپنے جن دو بیٹوں کو انہوں نے دکان پر بٹھایا ہے. وہاں وہ دو تین روز بعد خود چکر بھی لگا لیتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ گھریلو ملازمت میں مار پیٹ کا عنصر تو ہے تاہم ایسا واقعہ پیش آنے کے مواقع کم ہوتے ہیں .

گروپ ڈیویلپمنٹ پاکستان کے حالیہ سروے میں بتایا گیا ہے، پا کستان بھر میں بچے ماہانہ تنخواہ پر بھیجے جانے کے بجائے سال یا چھ ماہ کے معاہدے کے تحت بھیجے جاتے ہیں ،ان بچوں کی صحیح تعداد کے تعین کے لئے خیبرپختونخوا محکمہ محنت و افرادی قوت کی جانب سے بھی سروے جاری ہے، جس میں یہ پتہ لگانے کی بھی کوشیش کی جارہی ہے کہ درحقیقت کتنے بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں اور ایک ہی گھر سے کتنے بچوں کو کام پر لگایا جارہا ہے ، بچوں کے حقوق کے تحفظ اور انصاف کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرنے والی سوسائٹیز ایکٹ 1860 کے تحت رجسٹرڈ گروپ ڈیویلپمنٹ پاکستان کی اسی تحقیق کے مطابق اگر ایک گھر سے تین سے چار بچوں کو بھی اسی غرض سے بھیجا جائے تو والدین کو یکمشت اچھی خاصی رقم ہاتھ آجاتی ہے گروپ ڈیویلپمنٹ پاکستان کی کورڈینٹر صائمہ قدیر کے مطابق ان غریب گھرانوں کی گزر اوقات کا بڑا ذریعہ ان بچوں سے کروائی گئی مشقت سے ہی پورا ہوتا ہے.

اگر حکومت کچھ ایسے متبادل متعارف کروائے کہ جن کے تحت ان بچوں کو تعلیم دی جائے اور دوران تعلیم بچوں کے لئے رقم یا راشن کی صورت میں کچھ وظیفہ یا امداد دی جائے تو شائد ان خاندانوں کا رحجان تعلیم کی جانب ہوسکے لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ ایسا ہوتا اس لئے نظر نہیں آتا کہ پاکستان کے معاشی وسائل اس قدر نہیں کہ اس طرح کے پروگرامز لانچ کئے جائیں اور دوسرا یہ کہ تعلیم اور پھر ہر بچے کے لئے تعلیم کبھی سرکار کی سو فیصد توجہ کا مرکز نہیں رہی ،دوسری جانب ان بچوں کو گھروں پر بطور ملازم رکھنے والوں کو بھی کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آتی جنہیں بڑی عمر کے ملازم کے مقابلے میں بچے کم اجرت پر تو ملتے ہی ہیں ساتھ ہی نہ تو انہیں ہفتہ وار چھٹی دینی پڑتی ہے اور نہ ہی ان کی حکم عدولی کا خدشہ رہتا ہے ‘ ایک محفل میں پڑھی لکھی بیگم صاحبہ کو یہ کہتے بھی سنا تھا کہ “بھئی گھر میں ملازم رکھنا ہے تو بچوں کو رکھو نہ تنخواہ زیادہ دینی پڑتی ہے نہ ان کے حیلے بہانے برداشت کرنے پڑتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک دو مہینے میں ان کے گھر والے خود ہی آکر مل جاتے ہیں ، چھٹی کی نوبت بھی سال چھ ماہ میں ایک ادھ بار ہی آتی ہے “ اور یہ رائے صرف انہیں خاتون کی نہیں بچوں کو گھروں پر ملازم رکھنے والے کم و بیش سب ہی مالکان ایسا ہی سوچتے ہیں ، ان بچوں کو کام پر لگانے والے والدین سے بات کی جائے تو ان کا رونا یہی ہوتا ہے کہ غربت ہے ، تعلیم اور روزگار کے دیگر مواقع نہ ہونے کے سبب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ بچوں کو کام پر لگوا کر اپنی زندگی کا پہیہ چلائیں ۔

[pullquote]گھریلو بچہ مشقت اور سماجی کارکنوں کا ردعمل![/pullquote]

پشاور میں بچوں کے حقوق خصوصاً چائلڈ لیبر کے سرگرم کارکن عمران ٹکر کے مطابق بیورو آف اسٹیٹکس گورنمنٹ آف پاکستان 1996 کے بعد ملکی سطح پر ایسا کوئی جامع سروے نہیں کیا گیا، جس میں گھروں میں موجود ملازم بچوں کی تعداد کے بارے میں پتہ لگایا جاسکے، ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں سب سے بڑی رکاوٹ فنڈز کی عدم دستیابی اور معاملے کی سنگینی کے حوالے سے غیر سنجیدگی ہے اگر اس حساس مسلے کی جانچ کے لئے بجٹ مختص کیا جائے تو چائلڈ لیبر کی نشاندہی میں آسانی ہوسکے گی ، دوسرا یہ کہ صلاحیت کے علاؤہ شعور اور آگاہی کا فقدان ہے ایک اور بڑی رکاوٹ اداروں کا اس مسلے کی روک تھام کے لئےمل کر کام نہ کرنا ہے، عمران ٹکر نے بتایا کہ اگر متعلقہ محکمے اگر اتفاق رائے سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے سرگرم ہوجائیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں حقیقی معنوں میں بچوں سے مشقت لیے جانے کا سدباب ہوجاہے گا .

[pullquote]حکومتی موقف ![/pullquote]

خیبر پختونخواکے ڈائریکٹر برائے محنت و افرادی قوت عرفان خان سےجب اس حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ چائلڈ لیبر کے حوالے سے ان کے پاس کوئی مربوط اعدادوشمار نہیں ہیں ،حکومت کی جانب سے اس مسئلے کے حل کے لئے سروےجاری ہے، جس کے 2023 تک مکمل ہونے کے امکانات ہیں اس میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ یہ بچےزیادہ تر کن علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ،ان کے معاشی حالات کیا ہیں ،لہذا سرکاری سطح پر لیبر ڈیپارٹمنٹ ایک سروے کر رہی ہے، جس کے مکمل ہونے پر تفصیلات کے مطابق عملدرآمد کرنے کی بھرپور کوشیش کی جائے گی ۔خیبرپختونخوا کے آٹھ اضلاع بشمول ضم شدہ ضلع مومند میں بھی اس وقت چائلڈ پروٹیکشن عدالتیں موجود ہیں دوہزار دس چائلڈ پروٹیکشن ویلفیئر ایکٹ کے تحت صوبائی سطح پر چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن فعال ہےاوربارہ اضلاع میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹ بھی کام کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود بچے نہ صرف گھریلو مشقت جھیل رہے ہیں بلکہ دوران ملازمت تشدد کا شکار بھی ہورہے ہیں ۔

دی ہیری ویلفیر ایسوسیشن ( پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ ) اور انسٹیٹوٹ فار سوشل جسٹس ارگنائزیشن ، ان تین اداروں نے پاکستان میں دوہزار دس سے دو ہزار بیس کے دوران چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کی تفصیلات جاری کیں. جس کے مطابق ملک بھر سے گھریلو بچہ مزدور پر جسمانی تشدد ، زیادتی اور قتل کے 140کیسز رپورٹ ہوئے تھے. یہ اعداد و شمار میڈیا رپورٹس سے حاصل کئے گئے ،ان میں 79 فیصد پنجاب ، 14فیصد سندھ ، 06فیصد اسلام آباد اور محض 01فیصد خیبر پختونخوا سے تھے ، تاہم رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسا نہیں کہ خیبر پختونخوا میں گھریلو بچہ مزدوروں پر تشدد نہیں کیا جاتا بلکہ اصل میں یہ کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے. اگر پاکستان بھر سے ہی یہ کیسز رپورٹ ہونا شروع ہوجائیں تو شائد سالانہ تعداد ہزاروں میں پہنچ جائے .

گھریلو بچہ مزدور کے خیبر پختونخوا میں رپورٹ کیسز کے حوالے سے عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ دیکھا جائے تو یہاں ابھی تک کوئی ایسا بڑا یا ہائی پروفائل کیس رپورٹ نہیں ہوا جیسا کہ جنوری دوہزار سترہ میں طیبہ تشدد کیس جو اسلام آباد کے ایک جج کے گھر کا کیس تھا جس میں بچی کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا ان کے مطابق یہ کیس اور اس میں ہونے والے فیصلے کے خلاف سول سوسائٹی نے اپنا شدید احتجاج تو ریکارڈ کروایا ہی تھا ساتھ ہی یہ کیس ایک سوال بھی چھوڑ گیا کہ اٹھارہ ہزار میں فروخت کردی جانے والی بیٹی طیبہ کو اس کے انہی والدین کو کیوں سونپا گیا جو اسے بیچ چکے تھے ، اور کیا ایسے حالات سے گزرنے والے بچے پھر خود اپنے ہی گھروں میں محفوظ رہتے ہیں ایسے واقعات ہر روز نہ جانے طیبہ جیسے کتنے ہی بچوں کو درپیش ہوتے ہیں لیکن رپورٹ نہیں ہوتے .

اس مسئلے کا حل بتاتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں خصوصا پشاور سے ہی اگر گھروں میں موجود ملازمین اور خصوصا بچوں کی تعداد اور ان کا خاندانی پس منظر معلوم کرنے کے لئے سروے کیا جائے تو اس کے دورس نتائج مرتب ہوں گے .وہ اس سلسلے میں اسلام اباد میں 18جنوری 2023کو لانچ کی گئی Knock the door مہم کا ماڈل کے طور پر حوالہ دے رہے تھے جو گھروں میں ملازمین اور کرائے داروں کی تفصیل اکھٹی کرنے کے لئے شروع کی گئی ہے .

عمران ٹکر کے مطابق اگر حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے اور باقاعدہ طور پر کسی بڑے سروے کو شروع نہیں کرسکتی تو اسلام پولیس کی ناک دا ڈور کی طرز پر سروے کا آغاز کرے جس میں ہر علاقے کے تھانے سے ایک ٹیم گھروں میں تحریری سوالنامہ دے جس میں گھریلو ملازمین کی تمام معلومات ان کے بیک گراونڈ سمیت درج ہوں ان کا کہنا تھا. اس سے ایک تو یہ ہوگا کہ گھروں میں گھریلو بچہ مزدوروں کی نشاندہی ہوجائے گی تو ساتھ ہی ان کی معاشی صورتحال کا بھی بخوبی ادراک ہوجائے گا جس سے ان کے لئے متعلقہ اقدامات کرنا قدرے آسان ہوگا ، سماجی کارکن اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کے حوالے سے جو قانون منظور ہوا ہے اس پر حکومت سختی سے عملدرآمد کرے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں ساتھ ہی ساتھ اس مسئلے کا حل وہ تعلیم میں مضمر قرار دیتے ہیں ، آرٹیکل 25Aپانچ تا سولہ سال کے بچوں کو مفت تعلیم کے آئینی حق کے تحت حکومت سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں .

2022میں خیبرپختونخوا محکمہ تعلیم اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مشترکہ سروے کے مطابق خیبر پختونخوا میں اس وقت چار اعشاریہ سات ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں ان بچوں کا مستقبل یاتو مزدوری کرنا یا پھر سٹریٹ چلڈرن بننا ہوتا ہے جب تک حکومت ان بچوں کو مفت تعلیم اور بنیادی ضروریات کی زمہ داری کا بیڑہ نہیں اٹھاتی تب تک فاطمہ جیسے ہزاروں بچےمشقت کے بوجھ اور تشدد کے واقعات کے بعد دبی آواز سے اپنی ماووں کو یاد کر کے روتے رہیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے