کراچی،پاکستان : فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ پاکستان نے پبلک سروس انٹرنیشنل (PSI) اور سندھ ہیومن رائٹس کمیشن (SHRC) کے تعاون سے آج "پاکستان میں نجکاری اور عوامی قرضوں پر عوامی سماعت” کا کامیابی سے انعقاد کراچی کے مقامی ہوٹل میں کیا۔ تقریب کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ نجکاری کی پالیسیوں ،عوامی قرضوں کے ملک میں کارکنوں کے حقوق اور عوامی بہبود پر اثرات سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے،عوامی سماعت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ ایف ای ایس پاکستان کے پروگرام ایڈوائزر عبداللہ دایو کے ابتدائی کلمات سے پروگرام کا آغاز ہوا، جنہوں نے معزز مہمانان ، PSI آفیشلز، سندھ ہیومن رائٹس کمیشن،مزدور رہنماؤں اور PSI سے وابستہ افراد اور معزز پینلسٹس کا پروگرام میں شرکت پر خیرمقدم کیا۔
کنان رمن، سب ریجنل سیکریٹری برائے پبلک سروسز انٹرنیشنل جنوبی ایشیانے تاریخی عوامی سماعت کے دوران نجکاری کی پالیسیوں کے منفی اثرات کے بارے میں مدلل انداز میں اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ سرکاری شعبوں کی کم فنڈنگ یا بجٹ کٹوتی، کم آمدنی والے خاندانوں اور پسماندہ گروہوں پر اسکے اثرات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے، کنان رمن نے نجکاری کے عمل میں شفافیت کی فوری ضرورت پر زور دیا اور کارکنوں کے حقوق کے تحفظ اور زیادہ منصفانہ کام کے لیے مضبوط ٹریڈ یونینز کو فروغ دینے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
ان کے بعد مزدوروں کے حقوق کی ممتاز رہنما اور PSI ایشیا پیسیفک کی ریجنل سیکرٹری کیٹ لاپن نے اہم گفتگو کی۔ان کی تقریر نے تین اہم نکات پر روشنی ڈالی: سب سے پہلے، انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں (IFIs) کی طرف سے عائد کردہ شرائط کے مزدوروں اور کم آمدنی والے افراد کی زندگیوں کا حوالہ دیا، اس بات کا بھی خلاصہ کیا کہ وہ کس طرح ملک میں محنت کشوں کے حقوق اور انسانی بہبود پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ماحولیاتی آلودگی اور بحران سے پیدا ہونے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط سرکاری شعبوں کی ضرورت ہے ، عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے میں ان کے کردار پر زور دیا۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے نجکاری کے تناظر میں عوام کے حقوق اور بہبود کو برقرار رکھنے کے لیے مضبوط سرکاری عملے اور حکومتی اثر انگیزی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
معروف سینئر ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اس غلط فہمی پر روشنی ڈالی کہ صنعت کاری صرف نجی شعبے کی وجہ سے ہوتی ہے، انہوں نے یہ وضاحت کی کہ پاکستان میں صنعتی ترقی کو فروغ دینے میں سرکاری اداروں یا پبلک سیکٹر ، خاص طور پر PIDC نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے سرکاری شعبے اور نجی شعبے کے اصولوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت اور کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے متحد کوششوں پر زور دیا۔
سینئر ماہر معاشیات عفت آرا نے کسی بھی ادارے کی نجکاری سے پہلے منصوبہ بندی کے عمل کی اہمیت پر زور دیا، مزدوروں کے حقوق اور سرکاری منافع کے تحفظ کی اہمیت بھی عیاں کی۔ انہوں نے ریاست کے لیے مینڈیٹ طے کرنے، قومی مفادات پر توجہ مرکوز کرنے، اور غیر ملکی ذخائر میں اضافے کے لئے برآمدات بڑھانے اور اقتصادی ترقی کو ترجیح دینے کی اہمیت بتائی ۔ انھوں نے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے امکانات پر بھی روشنی ڈالی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری اجتماعی کوششوں پر زور دیا۔
کمیشن برائے ترقی نسواں سندھ کی چیئرپرسن نزہت شیریں نے ٹریڈ یونینز اور سرکاری شعبوں میں خواتین کی کم نمائندگی ، جنسی اور صنفی بنیادوں پر ہراساں کیے جانے، اور مناسب ریکروٹنمنٹ کے طریقوں سے انحراف پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے صنفی تفریق کو ختم کرنے اور ان مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے پالیسی سازی میں خواتین اور مخنس افراد کو شامل کرنے کی آگاہی فراہم کی ۔
چیئر پرسن سندھ انسانی حقوق کمیشن اقبال ڈیتھو نے عوامی سماعت کے انعقاد پر ایف ای ایس اور پی ایس آئی کا شکریہ ادا کیا اور انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے SHRC کے مینڈیٹ کا خاکہ پیش کیا۔ انہوں نے انسانی حقوق کی پالیسی کی حالیہ پیش رفت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بشمول سرکاری اب تمام نجی اداروں میں انسانی حقوق اور لیبر قوانین کی خلاف ورزیوں پر قانونی کاروائی کرنے کے لیے کمیشن کے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے اور اب کمیشن سو موٹو ایکشن کے ساتھ ساتھ متعلقہ مزوروں کو قانونی امداد بھی فراہم کر سکتا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے سول سوسائٹی اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
عوامی سماعت میں 30 سے زائد ٹریڈ یونینوں اور مزدوروں کی تنظیموں کی فعال شرکت دیکھی گئی۔ ان کی بیانات اور تجربات ، نجکاری کی پالیسیوں کی وجہ سے مزدوروں کو درپیش چیلنجز کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تجربہ کارمزدور رہنماؤں بشمول عبداللطیف نظامانی،خورشید احمد،سلطان خان،حبیب الدین جنیدی،ناصر منصور، اور دیگر نے فورم سے خطاب کیا۔
سماعت کے اختتام پر عبداللہ دایو (ایف ای ایس پاکستان) نے حالیہ معاشی بحران کے درمیان قوم کو درپیش اہم مسائل پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر بیرونی قرضوں، نیو لبرل پالیسیوں، مالی بدانتظامی، COVID-19 کے اثرات، اجناس کی درآمدات سے افراط زر کے دباؤ، 2022 میں تباہ کن سیلاب، اور شدید موسمیاتی بحران سمیت مختلف معاون عوامل پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بین القوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ قرض کے مزید معاہدے کے لیے موجودہ حکومت کے آئی ایم ایف مذاکرات کی طرف توجہ مبذول کرائی، جس میں مبینہ طور پر پبلک سیکٹر کے اداروں کی نجکاری، بجلی سمیت عوامی خدمات پر سبسڈی ختم کرنے اور پبلک سیکٹر کے تنخواہوں کے بل میں کمی کی شرائط شامل ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں نجکاری کے لاپرواہ اقدامات کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا، اور اسے بہتر کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی اجتماعی کوششوں پر زور دیا۔
ان مسائل کو حل کرنے اور کارکنوں کے حقوق اور عوامی فلاح و بہبود کو فروغ دینے کے لیئے پی ایس آئی اور دیگر تنظیموں کے ساتھ تعاون کے لیے ایف ای ایس پاکستان نے عزم نو کا اعادہ کیا ۔ اس عوامی سماعت سے مشترکہ تجربات اور سفارشات کو دستاویزی شکل میں اسلام آباد میں پیش کیا جائے گا تاکہ خطے میں نجکاری سے درپیش چیلنجوں کا حل تلاش کرنے کی اجتماعی کوشش کی جا سکے۔