پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے ایسے ادارے تشکیل دینے کی کوشش نہیں کی گئی جو لوگوں میں تنقیدی جائزے کی صلاحیت بیدار کرے تاکہ وہ خود سے سوچنے سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہی وجہ کہ جب بھی لوگوں کے سامنے کوئی مووقف پیش کیا جاتا ہے تو اس کو ہمارے ہاں خاموشی سے قبول کر لینے کا چلن ہے اور سوال کرنے سے احتراز کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بیانیہ نہ بھی گھڑا کیا گیا ہو تو ہم اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی ہمارے ذہنوں میں کوئی بات آ کر ڈال دے کیونکہ ہم اس قدر کاہل ہیں کہ خود سوچنے کی جسارت نہیں کرتے۔ اور کسی بھی معاملے پر تدبر سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہ صورتحال محض سیاسی سطح پر نہیں بلکہ معاشرتی لحاظ سے ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں کہ جن کی ذمہ داری تھی، عوام کے ٹیکس کو بروئے کار لا کر ایسے اداروں کو تشکیل دینا جو لوگوں کی تنقیدی صلاحیت بیدار کرتے، لیکن اوائل سے ایسی کوئی کاوش نہیں کی گئی۔
پبلک پالیسی کی ایک قسم ہے، جس کو سبسٹینٹو پالیسی کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے وہ پالیسی جو یہ طے کرتی ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں کیا شامل ہو گا اور کیا نہیں۔ ہمارے ہاں پالیسی میکرز کا دھیان تعلیم اور معیشت کی بجاۓ اسلام تھا جبکہ ریاست کی ذمہ داری صرف لوگوں کی عام زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ لیکن پاکستان کے قیام میں آنے کے بعد سے ہماری خارجہ پالیسی سے لے کر ہماری معاشی اور تعلیمی پالیسی تک، سب کچھ اسلامائز کر دی گئی اور نتیجتاً ہمارے ہر ادارے نے ہر شعبے میں اب تک صرف بانجھ قسم کے نیم مولویوں کو جنم دیا ہے، جو معاشرے کے لیے نا پید ثابت ہوۓ ہیں، جو تعمیری اعتبار سے بھی صفر ہیں۔
اس بات کی ایک واضح مثال ایوب خان کے دور سے ملتی ہے، جب انھوں نے آکسفورڈ کی تاریخ کی کتاب برخاست کر کے ریاستی سرپرستی میں تیار کی جانے والی مطالعہ پاکستان متعارف کروائی، جو حقائق کے بالکل منافی اور بیانیوں سے بھرپور تھی۔ رہی سہی کسر ضیا الحق نے مطالعہ پاکستان میں اسلامی رنگ بھر کے پوری کردی۔ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ایک بے عقل جنگ جو قوم تیار ہے، جو کسی کام کی نہیں، جس کی دنیا کی ترقی میں کوئی کردار نہیں لیکن یہاں اگر کوئی شخص کام کی بات کرے گا تو اس پر چڑھ دوڑے گی اور تو اور کسی سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان کو لوگ اتنا مجبور کردیں گے کہ وہ اس معاشرے میں مجرم کے طور پر دیکھا جاۓ گا، اس کو اپنے وجود پر شرمندگی ہو گی اور پاکستان کی جاہل اکثریت میں بطور اچھا انسان سمجھے جانے کے لیے وہ انھیں جاہلوں کی طرح خود کو پیش کرنے لگ جاۓ گا۔ یا اگر وہ پیش نہ بھی کرے تو یہ جاہل عوام اس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی اور اپنے ساتھ اس کو بھی جہالت کی دلدل میں یوں دھکیلے گی کہ وہ بھی باقی جاہلوں کی طرز پر پرانی، بے کار اور بوگس روایات پر عمل پیرا ہو گا۔ چنانچہ، صرف مدرسہ ہی نہیں بلکہ پاکستان میں ہر جگہ اسلامائزیشن کی گئی اور نتیجہ یہ ہے کہ اپنے کام کا یہاں ہر شعبے میں ہر جگہ کوئی نہ کوئی مولوی ہے، کسی کو اپنے کام کا علم نہیں لیکن اسلام کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے اور مولویوں جتنا ہی علم رکھتا ہے۔
پاکستان میں صرف ایک ملا ہے جو اپنا کام صحیح سے انجام دیتا ہے کیونکہ اس کا کام ہی لوگوں کو مذہب میں الجھا کر اپنی ذمہ داریوں اور کام سے ان کا دھیان بھٹکانا ہے اور اس کا بالواسطہ فائدہ ریاست کو پہنچتا ہے، جس کو لوگوں کی عام زندگی کی پرواہ نہیں کرنی پڑتی نہ ان کے ٹیکس کے پیسوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے کیونکہ لوگوں کو خود ان باتوں کی فکر نہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ ریاست کی جانب سے مذہب کا غیر ضروری استعمال ہے۔ بلا شبہ ریاست نے لوگوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بیدار کرنے کی بجاۓ اس صلاحیت کو ختم کر دینا بہتر سمجھا کیونکہ اگر ہم لوگوں میں تھوڑی سی عقل ہوتی تو ہمیں اپنے متعلق فکر ہوتی اور اپنے حقوق سے آشنا ہوتے لیکن ہم اپنی زندگی یوں بسر کرتے ہیں جیسے ہم انسان ہی نہیں بلکہ کوئی غلام ہیں۔ ہمارہ رویہ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں کسی کے لیے کچھ کرنا ہے اور اسی میں اپنا آپ مار دیتے ہیں اور دوسروں کے لیے جیتے ہوۓ خود سے بے خبر ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں گلا پھاڑ کر یورپی ترقی کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ وہ لوگ انفرادیت کو ایک شخص کی شخصی آزادی کو فروغ دیتے ہیں اور یہ عنصر ان کی روایات میں شامل ہے لیکن ہم لوگ ابھی تک برادریوں اور گاؤں کی روایات سے ہی باہر نہیں نکلے۔ بلکہ جب ان پر بات کی جاۓ تو کچھ تنگ نظر مذہبی اور قوم پرست لوگ اس پر منہ بسور لیتے ہیں اور دیسی کلچر کی شان میں ہونے والی گستاخی پر ہٹ دھرم ہو جاتے ہیں اور ڈھٹائی سے اپنی جہالت کا جواز پیش کرتے ہیں۔ جبکہ یورپی ترقی کے راز میں یہ عنصر بھی شامل ہے کہ ان لوگوں نے ان روایات سے چھٹکارا پایا جس کی ان کو مزید ضرورت نہیں تھی یا جو ان کی ترقی کی راہ میں حائل تھی۔
فرانسیسی انقلاب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اگر وہ پاکستانیوں کی طرح کم عقل ہوتے تو بادشاہ کے ظلم کے خلاف لڑنے کی بجاۓ وہ لوگ کہتے کہ یہ ہمارا بادشاہ ہے، یہ ہماری روایت ہے ،جس کے ناطے ہم صدیوں سے غلامی میں جی رہے ہیں۔ لیکن ان لوگوں میں شعور تھا، وہ پاکستانی عوام کی طرح کم عقل نہیں تھے۔ انھیں اس بات کا علم تھا کہ قومیت سے زیادہ اہم انفرادیت ہے اور ہمارا تعلق کسی جگہ یا قوم سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے زیادہ ہے اور یہ زیادہ ضروری ہے کہ ذاتی طور پر ہم کتنے فائدے میں ہیں۔ اگر وہ کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اپنے آپ پر قوم کو یا جغرافیہ کو ترجیح دیتے تو یقیناً ان کے لیے یہ باعث فخر ہونا تھا کہ وہ اپنی زمین پر اپنے بادشاہ کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ بہر حال، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان میں عقل کے استعمال کو زیادہ ترجیح نہیں دی گئی۔ مگر میں جو یہ بات کر پا رہا ہوں، وہ اس لیے کہ میں نے خود کو بھیڑ سے الگ رکھا اور تنہائی میں اپنی ایک مختلف سوچ کو پروان چڑھایا ،جس کے لیے میں نے کی ایسی کتابیں پڑھیں جن کی پاکستان میں منائی ہے اور عمومی طور پر بھی نا پسند کی جاتی ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ، ہندوستان کے پائیدار اداروں کے فلسفے کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی صحبت اختیار کی۔ گھنٹوں کی کالز پر جو کچھ سیکھ سکتاتھا، سیکھا اور اس پر سوچ بچار شروع کیا۔ چنانچہ، اپنے دم پر مجھ سے جو ہو سکا میں نے کیا اور پاکستانی ریاست کی نا اہلی کو خور پر حاوی نہ ہونے دیا لیکن ان تمام عوامل سے گزر کر اگر چہ میری سوچ الگ اور مختلف ہو گئی لیکن مجھے یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ جہاں اکثریت جاہلوں کی ہو وہاں سوچ سمجھ کر جینے والے انسان کا جینا ممکن نہیں اور آخر میں اس کو سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اب اس بات کا احساس ہوا ہے کہ پاکستان میں کتنے سارے قابل لوگ ہیں جو صرف اعدادی طور پر اقلیت ہونے کے باعث غیر معیاری قسم کے لوگوں کے ساتھ کام کرنے اور ان کی معاشرت کا حصہ بننے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کو ریاست کی سر پرستی حاصل نہیں کہ وہ اپنی صلاحیت بروۓ کار لا سکیں۔ بڑے شرم کی بات ہے کہ ریاست کی سر پرستی ان ٹپوری مولویوں کو حاصل ہے جن کی معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کے علاوہ کوئی خدمات نہیں۔ غرض یہ کہ پاکستان میں سمجھدار انسان نہیں رہ سکتا اگر کوئی سمجھدار انسان رہتا ہے تو وہ سمجھدار نہیں رہتا۔