سنا ہے کل رات مر گیا وہ

انبالہ کی ایک حویلی سے لاہور کے پرانے انارکلی کے ایک بوسیدہ گھر تک کا سفر کتنا مشکل ہو گا؟. والد صاحب سید محمد سلطان کاظمی تو فوج میں صوبیدار تھے اور ان کی شریک حیات یعنی ناصر کاظمی کی ماں ایک تعلیم یافتہ خاتون اور انبالہ کے مشن گرلز اسکول میں استاد تھیں۔ خاک اور خوں میں لپٹی ہوئی تقسیم / آزادی نے ان کو دل شکستہ کر دیا . وہ ہجرت کے بعد جلد ہی انتقال کر گئے . ان کا نوجوان بیٹا ناصر کاظمی جس نے بی اے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیاتھا لیکن تقسیم ہند کے خونی ہنگامے کی وجہ سے اس نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی.

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر

اداسی بال کھولے سو رہی ہے!

وہ لڑکا صرف چھبیس سال کی عمر میں ہی دل کی بیماری کا شکار ہوا. شائد یہی سببب ہو کہ دل کی بیماری کی ایٹیلوجی سادہ اور پر اثر زبان کے قلب میں ادا کرتا گیا اور ہم جیسے میڈیکل کے سٹوڈنٹ ان اشعار سے مشکل اسباق کے رٹے لگانے کی مشق کو رومانس میں تبدیل کرتے رہے.

-دل میں ایک لہر سی اٹھی ہے ابھی

کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

• دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا

وہ لڑکا شاعری کو اپنا مذہب کہتا تھا .اس کی شخصیت اور شاعری دونوں کی ایک عجیب سی دلکشی نے اس کے عہد کو متوجہ کر لیا . وہ اب ایک بڑا شاعر بن کر اپنے آپ کو منوا گیا.

نیت شوق بھر نہ جاۓ کہیں

تو بھی دل سے اتر نہ جاۓ کہیں

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد

آج کا دن گزر نہ جاۓ کہیں

مارکیٹنگ کی تگ و دو کے بغیر ہی ان کی کتابیں ’برگ نے‘ ،دیوان” "پہلی بارش” ،خواب نشاط، "سر کی چھایا” مقبول ہونے لگیں . ریڈیو پاکستان اور پھر پی ٹی وی پر ،حبیب ولی محمد، تصور خانم ، غلام علی اور مادام نور جہاں نے ان کی غزلیں گا کر ان کو گھر گھر متعارف کر وادیا. وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ اپنے ریڈیو کیریئر کے دوران انہوں نے کلاسیکی اردو شاعروں کے خاکے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔

انھوں نے47 سال کی مختصر حیات جو لاپرواہی اور نظم و ضبط سے عاری تھی گزاری جیسے کہ مسلسل سگریٹ نوشی کرنا ، کسی بھی سڑک کنارے ہوٹل پر جا کر کچھ بھی کھا لینا اور دن میں درجنوں دفعہ چائے پینا ۔ یہ مسلسل بے احتیاطی 1971 میں ان کے معدےکے کینسر کے نتیجےمیں سامنے آ گئی اور وہ 2 مارچ 1972 کو ابدی سفر پر روانہ ہو گئے .

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر

ستارۂ شام بن کے آیا برنگ خواب سحر گیا وہ

خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم

وہ بوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں مرے تو دل میں اتر گیا وہ

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا

یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ

کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دور آسماں بھی

جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ

بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہل دل کے

یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں

جو قافلہ میرا ہم سفر تھا مثال گرد سفر گیا وہ

مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستم گروں کی پلک نہ بھیگی

جو نالہ اٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ

وہ مے کدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اڑانے والا

یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ

وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا

سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ

وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا

تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ

وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ

تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ

کل چودہ اگست 2024 کو حکومت پاکستان نے حسب روایت اگلے سال کے تئیس مارچ کو مختلف میدانوں میں مختلف درجوں کے سول ایوارڈ یافتگان کا اعلان کیا . ایک نیوز چینل پر دکھائی دینے والے ٹکر کے مطابق ناصر کاظمی کو بھی سب سے بڑا ایوارڈ یعنی نشان امتیازدیا جائے گا . یہ جیسے بھی ہوا جس نے بھی کیا اور کرو ا دیا بھلی بات ہوئی اس حکومت کے لیے . ناصر کاظمی آپ نے اپنے قارئین کے لیے شاعری اور ادب کا جو خزانہ چھوڑا ہے اس کے لیے ہم ہمیشہ آپ کے مشکور اور مقروض رہیں گے .

ناصر کاظمی کی سرگوشی کرتی، تڑپتی، تڑپاتی ،نرم اور عام الفاظ سے مزین سحرزدہ کرتی شاعری اس طرح کے ایوارڈز سے مبرا ہے .

-آج تو بے سبب اُداس ہے جی

عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

———————————-

ڈاکٹر رخشندہ پروین نے اپنی نو عمری میں صحافت کا آغاز انگریزی اخبار "دی مسلم ” سے کیا تھا. وہ اردو اور انگریزی زبانوں میں کالم/بلاگس اور کتابیں لکھتی ہیں. مشکل موضوعات پر وکھری باتیں کرتی ہیں ،لبرل ہیں ، فیمنسٹ ہیں اور پاکستان سے غیر مشروط محبّت کرتی ہیں. کبھی شاعری بھی کرتی تھیں. مختلف جامعات میں پبلک ہیلتھ ، تولیدی صحت ، میڈیا اور فیمنسم پڑھاتی بھی رہی ہیں . وہ پی ٹی وی پر صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی سولو خاتون اینکر ہونے کا بھی اعزاز رکھتی ہیں. تعلیمی اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر اور پبلک ہیلتھ سائنٹسٹ ہیں اور صنفی امتیاز کے حوالے سے ان کے کئی ٹی وی اور کمیونٹی پروجیکٹس نمایاں ہیں.وہ سچ کے ہمراہ ہونے والی مفاہمت اور عزت کے ساتھ قائم ہونے والے امن کی آرزومند رہتی ہیں۔ قصیدہ گوئی سے نابلد ہیں. جو دل میں ہوتا ہے کہہ دیتی ہیں اور لکھ بھی دیتی ہیں اس لئے ان کے سی وی میں "خسارے کے سودے ” بھی نظر رکھنے والے بھانپ لیتے ہیں . گزشتہ دس بارہ برسوں سے بنگلہ دیش میں پاکستانی بہاری محصورین کے حوالے سے آگاہی بھی بیدار کر رہی ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے